انسان اور انسانیت کی تذلیل

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 4 اگست 2015

انسان اور انسانیت کی اس سے زیادہ تذلیل ممکن ہی نہیں ہے، جتنی پاکستان میں ہو رہی ہے انسانوں کی ایسی ذلت اور بے توقیری تو چنگیز خان اور ہلاکو خان کے ادوار میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ہے، ایک طرف بھوک، غربت، افلاس، مہنگا ئی، قحط انسانوں کو زندہ نگل رہے ہیں تو دوسری طرف وحشی اور جنونی اپنی وحشت اور جنونیت میں پاگل ہو چکے ہیں اور تیسری طرف مشکل کشا عیش و عشرت میں غرق ہیں۔

لوٹ مار، کرپشن اور عیاشیوں کے بازار اس قدر گرم ہیں کہ جس کے آگے دوزخ کی گرمی شر ما جائے۔ خلیل جبران کہتا ہے قابل رحم ہے، وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلو س کے سوا کبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کوشش کرے جب اس کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہو۔ قابل رحم ہے وہ قوم جو غنڈے کو ہیرو بنائے قابل رحم ہے وہ قوم جو اپنے نئے حکمرانوں کا استقبال والہانہ نعروں سے کرتی ہو اور پھر اسے صرف اس لیے رخصت کرتی ہو کہ ایک بار پھر نئے حکمرانوں کا والہانہ استقبال کرے۔

جب کہ جون ایلیا کہتے ہیں ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ دوسر ی طرف برک نے کہا ہے اقوام جن کی رہنمائی چھوٹے دماغوں، چھوٹے دلوں سے ہوتی ہے انھیں اپنے آپ کو صدموں، آفتوں اور خاتمے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

آج ہم جن عفریتوں کا سامنا کر رہے ہیں ان سب کے خالق ہم خود ہی ہیں یہ سب ہماری اپنی ہی فخریہ پیشکش ہیں ہم اپنے قاتل خو د ہی نکلے ہیں ماضی میں ہم اپنی دانست میں کچھ زیادہ ہی سمجھداری اور ہوشیاری کے مظاہرے کے مر تکب ہوئے لیکن دوسروں کی تباہی کا سامان اپنی بتا ہی کا سامان بن گیا اب چیخنے چلانے رونے سے کیافائد ہ جس کا سوچا تھا وہ تو نہ ہونا تھا اور نہ ہوا اور جس کا وہم و خیال بھی نہ تھا وہ سب کچھ ہو گیا ساری کی ساری سمجھداری اور ہوشیاری اپنے ہی گلے پڑ گئی اب گھر جل رہا ہے تو گھر کے رکھوالے آگ بجھانے کے بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ہمارے کچھ لیڈروں کو بولنے کی بیماری لگ گئی ہے بغیر سو چے سمجھے بولے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ وقت سب سے بڑی درس گا ہ ہوتا ہے لیکن وہ اتنے کند ذہن واقع ہوئے ہیں کہ عقل کو استعمال کرنا گناہ کبیرہ سمجھ بیٹھے ہیں۔

مشہور کہاوت ہے کہ جب ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہو جاتا ہے تو استاد بھی خود آن موجود ہوتا ہے۔ 68 سال کسی بھی ملک کو مستحکم اور خو شحال ہونے اس کے اداروں اور نظام کو مضبوط ہونے اس کے لیڈروں کو بلوغت پر پہنچنے کے لیے کا فی ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی سے جیسے جیسے ہماری عمر بڑھ رہی ہے۔ ہمارا ذہنی سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی سمت میں رواں دواں ہے نااہلی اور بدعنوانی میں ہم نے ایتھوپیا کے لیڈروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔

اور پھر بھی بضد ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں جناب اعلیٰ زندہ چیزیں اپنا احسا س دلاتی ہیں ان کا و جود چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا یقین دلا تا ہے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم دیمک زدہ قوم میں تبدیل ہو چکے ہیں بے حسی میں ہمارا ثانی کوئی نہیں کر پشن، لوٹ مار کے ہم بے تاج بادشا ہ ہیں انتشا ر، نفسا نفسی، بے یقینی، عدم برداشت، عدم رواداری ہمارے قومی نشانات بن چکے ہیں۔ انتہا پسندی، شد ت پسند ی، دہشت گردی کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری مشہوری کا کوئی نعم البد ل نہیں۔ باتیں کرنے میں ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا۔ ہٹ دھرمی، بے شرمی ہمارے خون کے ساتھ رگوں میں رواں دواں ہے پھر ہم زندہ قوم ہیں ہم سے بڑا تماش بین دوسرا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

تماشا کرنے اور تماشا دیکھنے کے ہم عادی مجرم بن چکے ہیں پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں، جہالت، بنیاد پرستی، رجعت پر ستی، قدامت پرستی ہمارے آباؤ اجداد کی انمول نشانیاں ہیں ان کو چھوڑنے کی بات پر ہم مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں کام کر نے، غور و فکر سے عقل و دانش سے ہمیں نفرت ہے، سوچنے سے ہماری طبعیت خراب ہو نے لگتی ہے۔ پھر بھی زندہ قوم ہیں۔

حالانکہ ہمیں دفن ہوئے سالوں بیت چکے ہیں قبر کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ہے پھر ہم زندہ قوم ہیں دنیا میں تقریباً 197 خود مختار ممالک ہیں جن میں اسلامی ممالک کی تعداد 57 ہے۔

ان میں ایران، بنگلہ دیش، افغانستان، پاکستان سمیت عرب اسلامی ممالک اور مغربی افریقہ کے اسلامی ممالک شامل ہیں یہ تمام اسلامی ممالک اپنے آ پ کو جمہوریہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں جب کہ صرف پاکستان کو مملکت خداداد کہلوانے کا فخر حاصل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں عقل کل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے مجال ہے کسی میں کہ ہم میں کوئی خامی نکال سکے ایسی ریاست جو اپنے شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی تک مہیا نہ کر سکے جہاں 80 فیصد لوگ غربت کی سطح سے نیچے گر چکے ہوں ۔

جہاں مہنگائی کا یہ عالم ہو کہ لوگ فاقوں پر مجبور ہوں اپنے لخت جگروں اور اپنے جسموں کے اعضاء چند کوڑیوں کے عوض بیچنے پر مجبور ہوں جہاں اندھیرے مقدر بنے ہوں جہاں ہر گھر میں ماتم بر پا ہو اور نو حے پڑھے جا رہے ہوں جہاں فتو ؤ ں کی ایسی بارش ہو رہی ہو کہ فرشتے بھی آتے ہو ئے ڈریں کہ کہیں ان کے لیے کوئی فتوی جاری نہ ہو جائے جہاں انسان خدا کی عبادت کرتے ہوئے کانپتا ہو تو پھر خدا کے واسطے بتاؤ ہمیں ایٹمی ریاست ہونے پر کیوں کر فخر ہو سکتا ہے ہمیں اپنے آپ کو زندہ قوم کہلوانا کیوں کر اچھا لگ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔