بجرنگی بھائی جان

مقتدا منصور  جمعرات 6 اگست 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

کسی زمانے میں فلم بینی ایک کلچر کی سی حیثیت رکھتی تھی۔ بڑے اہتمام کے ساتھ گھر بھر کے لوگ سنیما جایا کرتے تھے۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سنیما بینی کا کلچر گہناتا چلا گیا۔

اس کا سبب یہ تھا کہ1980ء کے آنے تک پاکستانی فلمیں بے جان کہانیوں، کمزور اسکرپٹ اور خراب ہدایات کاری کے علاوہ ہر فلم میں تقریباً ایک ہی جیسے چہروں( جن پر بڑھاپے کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہوگئے تھے) کی وجہ سے فلم بینوں کی اکتاہٹ کا سبب بن گئی تھیں ، لیکن سب سے بڑھ کر جنرل ضیا کی اسلامائزیشن کی پالیسیوں نے قومی فلمی صنعت کو بدترین تباہی سے دوچارکر دیا۔ اسی دوران VCRکے متعارف ہونے سے بھارتی فلمیں باآسانی گھر بیٹھے دیکھی جانے لگیں۔ یوں پاکستان میں سنیماجاکر فلم دیکھنے کا رواج تقریباً ختم ہوگیا۔

پاکستانی ریاست اپنے دہرے معیار کی وجہ سے فلمسازی کے شعبے کونہ تو صنعت کا درجہ دے سکی اور نہ قدامت پرست حلقوں کی خواہش پر اس شعبے کو مکمل طور پر بند کر سکی۔ پاکستان میں فلمسازی ایک خود رو پودے کی مانند محض اپنی اہلیت، توانائیوں اور وسائل کی بنیاد پر جتنی دیر کھڑی رہ سکی کھڑی رہی اور اس کے بعد اس کا زمیں بوس ہوجانا فطری تھا۔ یہ فنکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں، ہدایتکاروں اور ٹیکنیشنوں کی اپنی خداد داد صلاحیت تھی کہ انھوں نے تین دہائیوں تک بغیر ریاستی سرپرستی فلمی صنعت کو  زندہ رکھا اور بعض اعلیٰ پائے کی فلمیں پیش کیں، جو کسی طور بھارتی فلموں سے کم نہیں تھیں۔

اس کے برعکس بھارت میں فلمی صنعت کو ریاست کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی۔ بھارت نے فلموں کو ثقافتی سفارت کاری کے ایک اہم پرزہ(Tool) کے طور پر استعمال کیا۔1950ء میں جب پنڈت جواہر لعل نہرو نے ماسکو کا دورہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ سوویت یونین میں بھارت کو دلیپ کمار اور راج کپور کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ مولانا ابوالکلام جیسا جید عالم اور مستقبل بین دانشور بھی فلموں کے ثقافت پر مرتب ہونے والے اثرات کی اہمیت سے آگاہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بحیثیت وزیر تعلیم ہند فلمی صنعت کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ وزارت خارجہ اور پوری دنیا میں پھیلے بھارتی سفارت خانے اپنی فلموں کو متعارف کرانے میں مسلسل فعال رہے۔ نتیجتاً حکومتی سرپرستی کی وجہ سے بالی وڈ کی فلمی صنعت ہالی وڈ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا درجہ حاصل کرگئی۔

بھارت سے آنے والی فلموں میں تنوع پایا جاتا ہے۔ اس لیے ہر عمر اور ہر ذوق کے فلم بینوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ بھارتی کہانی کاروں اور ہدایت کاروں کو چونکہ اپنی بات کہنے کی آزادی میسر ہے۔ اس لیے کمرشل اور منافع بخش مسالہ کہانیوں کے علاوہ اعلیٰ تخلیقی اور چبھتے ہوئے موضوعات پر بھی فلمیں تخلیق ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی فلمیں بھی بنیں جو ہندو دھرم پر طنز اور بھارتی سیاست کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ مگر اظہار کی آزادی کی وجہ سے ان پر کوئی قدغن نہیں لگ سکی۔ اس میں شک نہیں کہ بیشمار فلمیں پاکستان دشمنی کے مرکزی خیال کے ساتھ بھی بنائی گئیں۔ لیکن پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے درجنوں نادر روزگار فلمیں تخلیق ہوئیں۔ جن کے کہیں اوربننے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔

ان دنوں جب پاکستان میںVCRکا کریز حد سے بڑھا ہوا تھا، ایک طرف زنجیر،شعلے، کبھی کبھی، سلسلہ اورامراؤ جان جیسی خوبصورت کمرشل فلمیں  فلم بینوں کو اپنی جانب کھینچ رہی تھیں، تو دوسری جانب شطرنج کے کھلاڑی، چکر، منڈی اور بازار سمیت دیگر درجنوں آرٹ فلموں نے فلم بینوں کے ایک مخصوص حلقے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہوئی تھی۔ گھروں میں فلمیں چلنے سے سنیما اجڑنے لگے ، کیونکہ عام آدمی کے لیے سستی ترین تفریح کا ذریعہ فلم ہوا کرتی ہے۔

سستی تفریح کا راستہ رکنے کی صورت میں نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے عوام میں غیر صحتمند سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا دنیا میں بڑھتی ہوئی گلوبلائزیشن اور سنیما مالکان کے دباؤ نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے بھارتی فلموں کی سینماؤں میں ریلیز کی اجازت دیں۔ یوں بھارتی فلموں کی پاکستانی سنیماؤں میں نمائش کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا۔ بھارتی فلموں کی آمد سے پاکستانی فلمسازوں میں بھی مقابلہ کا رجحان پیدا ہوا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حالیہ چند برسوں کے دوران وطن عزیز میں بھی کئی اچھی فلمیں تیار ہوکر سامنے آئیں۔ جن میں شعیب منصور کی خدا کے لیے اور بول شامل ہیں۔ جنہوں نے عمدہ کہانی، جاندار اسکرپٹ اور بھرپور اداکاری کے سبب فلم بینوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

اس صحت مند مقابلے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں پڑھے لکھے اور سماجی شعور رکھنے والے فلمساز اور ہدایت کار متنوع موضوعات پر مبنی کہانیوں پر فلم سازی کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ لیکن خدا کے لیے، بول اور رام چند پاکستانی جیسی فلموں کی تخلیق کے باوجود پاکستان میں جرأت مندانہ فلمسازی کی منزل ابھی خاصی دور نظر آتی ہے۔ البتہ جیسا کہ اوپر بیان کیا چکا ہے بھارت میں ہر موضوع پر فلمسازی کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

چند ماہ کے دوران چند ایسی چونکا دینے والی فلمیںدیکھنے کو ملیں ۔ لیکن یہاں دو فلموں PK اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم بجرنگی بھائی جان کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ ان دونوں فلموں میں پاک بھارت تعلقات کو انتہائی صحت مندانہ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاں تکPK کا تعلق ہے، تو یہ ایک الگ اورمفصل تجزیے کی متقاضی فلم ہے۔ کیونکہ اس فلم میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، جو خاصے چونکادینے والے ہیں۔

خاص طورپر روایتی کج عقیدگی کا سحر توڑنے کے علاوہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں خاصے حوصلہ افزا رجحان کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت صرف حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم بجرنگی بھائی جان پر گفتگو کیے لیتے ہیں۔ اس فلم میں دو معاملات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اول، دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کے دوران درپیش آنے والی مشکلات اور انتظامیہ کا معاندانہ رویہ۔ دوئم، سوشل میڈیا کا طاقتور کردار اور عوام تک بڑھتی ہوئی رسائی۔ گزشتہ کئی برسوں سے دونوں ممالک کے روایتی میڈیا پر یہ تنقید کی جارہی ہے کہ یہ ’’شاہ سے بڑھ کر شاہ پسند‘‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے کسی بھی واقعے کو بنیاد بناکر فوراً دوسرے ملک کی کردار کشی پر اتر آتا ہے۔

یوں دونوں ملکوں کا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ ریاستی پروپیگنڈے کو ہوا دینے کا بھی سبب بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ روایتی میڈیا ان عوامی امور کو پیش کرنے سے بھی گریز کرتا ہے، جنھیں ریاستی مقتدرہ کے بموجب حساس تصور کیا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا ایسی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہے  بلکہ عوام کے اپنے احساسات اور جذبات کا براہ راست ترجمان بن چکا ہے۔ یہ میڈیا ان تمام معاملات کو منظر عام پر لا رہا ہے، جو مخصوص مصلحتوں کے تحت نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر ویزا کی پابندیوں سے آزاد جنوبی ایشیا کا تصور، سینئر شہریوں کو سفری سہولیات کی فراہمی، تجارتی اور اقتصادی تعاون اور ان جیسے ان گنت معاملات پر دونوں ممالک کا میڈیا توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔

بجرنگی بھائی جان میں ہمارے ایک دوست رپورٹر چاند نواب کے کردار کو ایک قابل رشک تفتیشی رپورٹر کے طور پر پیش کر کے صرف ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے بلکہ دیانتدار صحافیوں کی اپنے پیشہ سے لگن اور سچائی کی کھوج کے جذبے کو نہایت مثبت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی چاند نواب ہیں جنہوں نے چند برس قبل کراچی کینٹ اسٹیشن پر اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے خاصی مقبولیت حاصل کی تھی ۔

اس فلم سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اگر کوئی صحافی اپنی ذہانت اورپوری دیانتداری کے ساتھ کام کر ے تو اس کی رپورٹنگ عوام کے ایسے کئی عوامی مسائل حل کرنے کا سبب بن سکتی ہے، جو مسلسل نظرانداز کیے جانے کے باعث پیچیدہ ہوچکے ہوں اور ان کے حل کی امید دم توڑ چکی ہو۔ دوسرے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اگر رسمی ذرایع ابلاغ کے ذمے داران کسی عوامی ایشو پر تیارکردہ کسی رپورٹ پر توجہ دینے سے گریز کریں، تو صحافی مایوس ہونے کے بجائے اپنی رپورٹ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کرے، تاکہ عوام کی اصل حقائق تک رسائی ہوسکے ۔

دوسرا طاقتور پہلو ، جسے اس فلم میں اجاگر کیا گیا ہے، وہ دونوں ممالک کے عوام کا مثبت رویہ ہے۔ اس فلم نے یہ بھی ثابت کیا کہ عقائد اور نظریات اپنی جگہ، لیکن نیکی کے ہر کام میں سرحد کے دونوں جانب کے عوام مقدور بھر تعاون کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ چند فیصد انتہاپسندوں کو چھوڑ کر عوام کی اکثریت خطے میں پرامن بقائے باہمی کی خواہاں ہے اور خطے کا پرامن اور سکون مستقبل دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی فلموں کی تخلیق اور نمائش دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بہت سی غیر ضروری غلط فہمیوں کو دور کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ امید کرتے ہیں کہ پاکستانی فلمساز اور ہدایتکار بھی ایسے اچھوتے موضوعات پر فلمیں تخلیق کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔