مردِ درویش، مردِ قلندر (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  جمعـء 7 اگست 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

یہ ایک پُرامن افغانستان تھا۔ ایسا افغانستان جس کا تصور تک بھی ایک پشتون سربراہِ مملکت کی حیثیت سے کسی نے کیا نہ ہو گا۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی پشتون کو اقتدار میسر آیا اس نے اپنے بھائی سے پرانے بدلے چکانے کی ریت ڈالی۔ ” تربور ــ”  پشتو زبان میں ایک ایسے رشتے کے بھائی کو کہتے ہیں جس سے اندر ہی اندر عداوت چل رہی ہوتی ہے۔ اس عداوت کو ” تربور گردی” کہا جاتا ہے۔ لیکن ملا محمد عمر کی ذات تو اس سے بالاتر تھی۔

گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں یہ دور امن و آشتی اور عدل و انصاف کا ایسا دور تھا جس کی خوشبو اردگرد کے علاقوں میں جا نکلی تھی۔ افغان معاشرہ میں اسلحہ مرد کا زیور سمجھا جا تا ہے۔ ہر کوئی ہتھیار کندھے پر لٹکا کر چلنے کو مردانگی خیال کرتا ہے۔ گزشتہ سولہ سالہ افغان جنگ نے افغانوں کو اسقدر اسلحہ دیا تھا کہ شہر کے شہر اسلحہ کے گودام بن گئے تھے۔ ریاست کی کامیابی کا دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ لوگوں کو یہ اطمینان ہو جائے کہ اب ان کی حفاظت کرنے کو ریاست موجود ہے تو وہ بے فکری کی نیند سونے لگتے ہیں۔

ملا محمد عمر نے اعلان کیا کہ اماراتِ اسلامی اللہ کی دی گئی ذمے داری کے تحت آپ لوگوں کی جان و مال کی ذمے دار ہے، آپ لوگ اپنا اسلحہ جمع کروا دیں۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ صرف بیس دن کے اندر تمام لوگوں نے اپنا اسلحہ اپنے علاقے کے طالبان کے نامزد کردہ گورنروں اور ” اولس والوں”  (ضلعی سربراہوں) کو جمع کروا دیا۔ پاکستان میں معین الدین حیدر صاحب نے فوج اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے یہ کرنے کی کوشش کی تھی، نتیجہ ہر کسی کو معلوم ہے۔ دنیا میں درجنوں ایسے ممالک ہیں جہاں منشیات کی کاشت اور کاروبار ہوتا ہے لیکن افغانستان ان میں سب سے زیادہ افیون کاشت کرنے والا ملک تھا۔ افیون جس سے ہیروئن تیار ہوتی ہے اور یہ ہیروئن افغانستان کی سرحد پر قائم فیکٹریوں میں تیار ہوتی۔ دنیا کے ہر ملک نے جہاں منشیات کی کاشت اور دھندا ہوتا تھا، انھوں نے جنگی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے ذریعے اس دھندے اور کاشت کو ختم کرنے کی کوشش کی، کولمبیا سے لے کر تھائی لینڈ تک، سب جگہ آرمی ایکشن ہوا، نتیجہ دس سے پندرہ فیصد کمی۔ لیکن افغانستان جہاں سے نوے فیصد افیون عالمی مارکیٹ میں جاتی تھی، ملا عمر کا ایک حکم نامہ نکلنے کی دیر تھی، کھیتوں میں کھڑی کروڑوں کی فصل کو لوگوں نے خود ہی آگ لگا دی اور وہاں پوست کی کاشت صفر ہو گئی۔

1997ء میں میرے پاس چاغی کے ڈپٹی کمشنر کی ذمے داری تھی۔ افغانستان کے علاقے شوراوک سے ایک نالہ آتا ہے جو نوشکی کے اردگرد مینگل، بادینی اور جمالدینی قبائل کی زمینوں کو سیراب کرتا۔ ایک دن ان تینوں قبیلوں کے سردار آئے کہ افغانستان کے علاقے میں اکبر بڑیچ نامی شخص نے بند باندھ کر پانی روک لیا ہے۔

میں نے سرحد پار ہلمند کے گورنر سے رابطہ کیا جو لشکر گاہ میں بیٹھتا تھا۔ اس نے کہا میں ابھی آپ کے دفتر آ رہا ہوں، اس لیے کہ میں یہیں قریب ہی سرحد پار موجود ہوں۔ وہ ایک موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے ہوئے تشریف لائے۔ ایک سادہ سا مولوی جسے آج لوگ طالبان رہنما کے طور پر جانتے ہیں۔ کہنے لگا موقع پر چلتے ہیں، آپ اپنے دو مولوی لے آئیں، میں اپنے دو مولوی لے آتا ہوں۔ انگریزی نظام میں پلے بڑھے قبائلی ایک دم تمسخرانہ انداز میں بولے، مولوی کا کیا کام۔ اس نے کہا ہماری جانب مولوی کا ہی کام ہے۔ خیر ہم نے مولوی بھی لیے اور ساتھ تحصیلدار، گرداور، پٹواری اور ریکارڈ بھی اٹھا لیا۔

موقع پر پہنچے، بلڈوزر سے ایک بہت بڑا بند بنا ہوا تھا اور سارا پانی روک کر اپنے کھیتوں کی جانب اس کا رخ موڑ دیا گیا تھا۔ طالبان کے گورنر نے چاروں مولویوں سے پوچھا، بہتے ہوئے پانی کے بارے میں فقہہ کا کیا حکم ہے۔ چاروں نے بیک زبان کہا “اپنی ضرورت کا لے سکتے ہیں لیکن نیچے والوں کا پانی نہیں روک سکتے۔‘‘ طالبان کے اس گورنر نے جس کے ساتھ نہ تو کوئی سپاہی تھا اور نہ ہی مسلح دستے، بس اتنا کہا “یہ بند تم توڑو گے یا ہم”  اور پھر صبح ہونے تک وہ ہفتوں میں بنا ہوا بند ٹوٹ چکا تھا۔

یہی زمانہ تھا جب 1947ء کے بعد پہلی دفعہ سروے آف پاکستان کی ٹیم نے ڈیورنڈ لائن یعنی پاک افغان سرحد پر برجیاں نصب کیں اور زمینی سروے مکمل کیا ورنہ ظاہر شاہ کے دور سے لے کر مجاہدین کے انتشار تک کسی حکومت کے دوران اس سرحد پر جانے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ وہ افغانستان جو کبھی پاکستان سے چوری کی گئی گاڑیوں اور تاوان کے لیے لے جائے جانے والے مغویوں کا مسکن تھا۔ طالبان کے شروع کے زمانے میں وہ مغوی اور گاڑیاں پکڑ کر واپس کی جاتیں اور اس کی گواہی بارڈر کا ہر ڈپٹی کمشنر دے گا اور ایک سال بعد تو کسی کی جرأت نہ کہ چوری یا اغوا کر کے ادھر کا رخ کرے۔

پاکستان کے کسی مخالف قوم پرست کو افغانستان میں پر مارنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ وہ جو انگریز کے زمانے سے بھاگ بھاگ کر وہاں پناہ لیتے تھے بھیگی بلی بنے پاکستان میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں کی خفیہ ایجنسیوں نے ایک رپورٹ دے کر ایک وفد کو ملا عمر کے پاس بھیجا کہ آپ کے ہاں راس کوہ میں لشکر جھنگوی کا کیمپ ہے جہاں وہ قتل کر کے پناہ لیتے ہیں۔

وہ جرنیل صاحب شکایت جمع کروا کر واپس آ گئے، لیکن اس کے بعد چاغی کے پاس جا کر جب طالبان نے معلومات کیں تو یہ کیمپ راس کوہ میں دالبندین سے آگے پاکستان کے بارڈر پر تھا اور اس کی سرپرستی کر نے والوں کا نام لیتے ہوئے بھی پر جلتے ہیں۔

وہ افغانستان جو ہر جہادی تنظیم کے لیے ایک کھلا میدان تھا، جو کوئی جس ملک سے اٹھتا بغیر سوچے سمجھے وہاں آ کر آباد ہو جاتا۔ ملا محمد عمر نے کہا کہ پہلے اسلام کے اصولوں کے مطابق بیعت کرو، ریاست کا حصہ بنو اور پھر ہمارے ساتھ مل کر جو چاہے کرو۔ اسامہ بِن لادن اور القاعدہ نے بیعت کی۔ بیعت ان کے نزدیک شہریت کا نام تھا۔ اس بیعت کی اسقدر لاج اور شرم رکھی گئی کہ اس شخص یعنی اُسامہ بن لادن کے لیے وہ دنیا کی 48 طاقتوں سے ٹکرا گئے۔

کیا زمانہ تھا۔ پاکستان کا سہما سہما وفد، امریکیوں کے ہمراہ اس مٹی کے گھر میں سادہ سی چٹائی پر بیٹھا تھا اور سمجھا رہا تھا کہ تم اُسامہ بِن لادن کو حوالے کر دو ورنہ تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ ملا محمد عمر نے کہا اس کے خلاف ثبوت فراہم کرو۔ امریکی تمام ثبوت لے کر آ گئے۔ سوال صرف ایک تھا، کیا ان ثبوتوں کی بنیاد پر امریکا کی عدالت اُسامہ کو سزا سنا سکتی ہے، امریکی بولے ناممکن، ملا محمد عمر بولے پھر ہم سے یہ توقع کیوں۔ اب ڈرانے کے باری تھی۔

کہا مان جاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔ انھوں نے کہا تباہ ہونے سے نہ ڈراؤ، ہم مٹی کے گھر میں رہتے ہیں، مٹی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، اور ایک دن ہم نے مٹی میں چلے جانا ہے۔ صرف یہ بتاؤ ہماری وجہ سے پاکستان کو تو کوئی مسئلہ نہ ہو گا کیونکہ تم ہمارے بھائی ہو۔ پاکستانی وفد نے کہا ہمیں کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ بات ختم ہو گئی۔ اور پھر وہ جنہوں نے غیرت و حمیت کا درس تاریخ کو دینا تھا اور حق کی گواہی پر کھڑے ہونا تھا وہ ڈٹ گئے اور آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں ہم نے تو سید الانبیاء کے اس ارشاد کی بھی لاج نہ رکھی کہ “وہ مسلمان نہیں جس کی ایذا سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں” ۔

پڑوسی کے لیے مسلمان ہونا بھی شرط نہیں۔ لیکن ہماری سرزمین سے 57 ہزار دفعہ امریکی جہاز اڑے اور انھوں نے ان سرفروشوں کو اپنے اللہ کے حضور سرخرو کرنے کے لیے شہادت سے سرفراز کیا۔ مؤرخ آج بھی تاریخ لکھ رہا ہے اور ویسی ہی لکھ رہا ہے جیسی اس کا تعصب اسے مجبور کرتا ہے۔ ملا محمد عمر کے خلاف تین قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو شروع شروع میں ان کے داڑھی اور حجاب کے حکم کے خلاف تھے۔

افغانستان کے ننانوے فیصد لوگ داڑھی اور حجاب والے تھے اور ایک فیصد ملا عمر کو ظالم کہنے والے۔ دوسرے وہ جن کا رِزق منشیات کے دھندے سے وابستہ تھا اور تیسرے مسلک کے تعصب میں اندھے کہ جنھیں کسی دوسرے مسلک کا سچ بھی جھوٹ لگتا ہے۔ لیکن قدرت کا عجیب انتقام ہے کہ وہ سب لوگ جو کل تک طالبان اور ملا محمد عمر کے خلاف بولتے نہیں تھکتے تھے اب ان کے تبصرے اور تحریریں بتاتی ہیں کہ امن کی کُنجی تو طالبان کے پاس ہے۔ ہر کسی کو علم ہے کہ خوف داعش کا ہے اور ڈر کس نوعیت کا ہے۔

لیکن طالبان کے افغان دور کے پانچ سالوں کی خوشبو کی ایک مہک ہے جو اس زمانے میں پاکستان کے سرحدی اضلاع کے ہر فرد نے محسوس کی تھی۔ یہ خوشبو کیوں نہ پھیلتی، جس تحریک کا آغاز ملا محمد عمر نے رسولِ اکرم  ﷺ کے جبہ مبارک پر بیعت لے کر کیا تھا، اس خوشبو نے تو پھیلنا ہی تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔