عمران خان کا ’’تبدیلی کا نعرہ‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ کہاں گم ہو گئے!

رحمت علی رازی  اتوار 9 اگست 2015

قیامِ پاکستان کے بعد یہاں درجنوں سیاسی پارٹیاں بنائی اور بنوائی گئیں‘ سب بڑی پارٹیوں میں موروثی سیاست کا کلچر ہمیشہ نمایاں رہا‘ ملک کی واحد پولیٹیکل پارٹی پی ٹی آئی تھی جس نے نعرہ لگایا تھا کہ وہ موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور اس کے پلیٹ فارم سے عمران خان سمیت کسی بھی لیڈر کے رشتہ دار کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا چنانچہ پارٹی عہدیداروں نے اپنے قریبی عزیزوں کو ٹکٹ اور عہدے دینے سے انکار کر دیا ۔

جس سے ان کے  عزیز و اقارب ان کے  حقیقی دشمن بن گئے‘ مگر اب دھیرے دھیرے پی ٹی آئی میں بھی رشتہ دار بریگیڈ داخلہ پانا شروع ہو گیا ہے جس سے یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ تحریک انصاف بھی دیگر جماعتوں کی طرح روایتی سیاسی جماعت میں متشکل ہونے لگی ہے‘ شاید اسی لیے عوام میں اس کی جاذبیت بھی کم ہو رہی ہے۔ پارٹیوں کی ساکھ بنانے میں زندگیاں صرف ہو جاتی ہیں مگر انہیں بے وقار کرنے میں چند ماہ کا عرصہ بھی کافی ہوتا ہے۔

جس طرح پیپلز پارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر مزدور اور کسان اپنے جان نثار جیالے بنا لیے تھے‘ اور اس کے ووٹروں نے موروثی ووٹ بینک کی بنیاد ہلا ڈالی تھی مگر نا اہل قیادت کے ہتھے چڑھتے ہی پی پی کی فلک بوس عمارت میں خوفناک دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں اور اب یہ حالت ہے کہ جو پیپلز پارٹی ہر آڑے وقت میں سندھ کارڈ کے استعمال کی دھمکیاں دیتی تھی، آج صوبہ سندھ میں بھی اس کا  ووٹ بینک خطرے میں نظر آتا ہے۔

اسی طرح پی ٹی آئی نے بھی ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر لوگوں کو اپنے پیچھے لگایا تھا مگر اب تحریک انصاف کے ورکرز اور ووٹرز اس کی محلاتی سازشوں اور اندرونی خلفشاروں سے نالاں ہونے لگے ہیں‘ اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کا غیر سیاسی رویہ ہے کیونکہ انھوں نے اپنے اردگرد ایسے مہا کلاکار جمع کر رکھے ہیں جو اُنکی پارٹی کو مضبوط اور مقبول بنانے کی بجائے غیر مقبول بنانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔

جس سے فائدہ اٹھا کر پارٹی عہدیداران پکی پکائی کھچڑی میں راکھ ڈال رہے ہیں۔ سیاست کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں کہ چار پانچ گھنٹوں میں اس کا  نتیجہ سامنے آ جائے، اس کے لیے طویل المدتی جدوجہد اور لائحہ عمل تیار کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان کے طفلانہ رویے اور غیرذمے دارانہ سیاست کے مظاہرے سے عوام لامحالہ محو حیرت ہیں۔

ان کا  طرزِ سیاست ابتدا میں کسی اور ڈھب کا تھا مگر آج کسی اور ڈھنگ کا ہے‘ انھوں نے روایتی سیاست سے بیزار عوام اور نئے مستقبل کے متلاشی نوجوانوں کے سینوں میں تبدیلی اور انقلاب کی ولولہ انگیز روح پھونکی تھی اور ان کے  قلوب کو ایک زندہ تمنا سے گرمایا تھا‘ ان کے  غیر روایتی فلسفے اور خواب آمیز منشور نے لوگوں کے ادراک میں نئے سیاسی امکانات کی ایسی جوت جگائی تھی کہ شہر شہر، قریہ قریہ نئی نسل میں اُمید و رجا کی قندیلیں پھوٹ پڑی تھیں‘ ملک کا باشعور اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی عمران خان کو اپنا مسیحا سمجھنے لگا تھا مگر پھر اچانک کچھ جغادری مشیروں نے ان کے  کان میں نجانے کیا منتر پھونکا کہ 2013 کے عام انتخابات میں نوخیز رہنماؤں کی پلٹن تیار کرنیوالے قائد انقلاب نے مختلف پارٹیوں سے بدنامِ زمانہ نکالے ہوئے ان موقع پرست اور بدعنوان افراد کے لیے بھی اپنی پارٹی کے دروازے کھول دیے۔

جنہیں وہ نفرت اور حقارت سے تھوہ تھوہ چھی چھی کرتے رہے تھے۔ پھر جن کارکنوں نے مشکل وقتوں میں جماعت سازی کے لیے وقت اور پیسے کے علاوہ بھی ہر طرح کی قربانیاں دی تھیں انھوں نے اپنی صفوں میں یزیدی لشکر کے زخم خوردہ بھگوڑوں کو اعلیٰ مناصب پر براجمان ہوتے دیکھا تو حیرت زدہ بھی ہوئے اور مایوس بھی۔ عمران خان کے اس غیر متوقع یو ٹرن نے اپنے ہی وضع کردہ اُصولوں کو روند کر رکھ دیا جس کے ساتھ وہ اُمیدیں بھی خاک ہو گئیں جو ان اُصولوں پر استوار ہوئی تھیں۔ اس سے تویہی سوال جنم لیتا ہے کہ ان بے قامت سیاستدانوں اور عمران خان میں کیا فرق ہوا؟ روایتی سیاستدانوں اور عمران خان کی قدرِ مشترک کا اندازہ تو یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نون لیگ نے عوام کو پی ٹی آئی کی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ دکھانے کے لیے خیبرپختونخوا میں پولیٹیکل ٹرائل میں دھکیل دیا۔

لوگوں کا خیال تھا اور عمران خان کا دعویٰ بھی تھا کہ وہ خیبرپختونخوا کو ایک مثالی صوبہ بنا دینگے اور وہاں ہر شعبہ میں اصلاحات متعارف کروا کر ترقی کا ایسا روڈ میپ تیار کرینگے جو دیگر صوبوں کے لیے بھی رول ماڈل ٹھہرے مگر وہ اس آزمائش میں بری طرح ناکام رہے۔ کے پی کے حکومت کی پہلی ایک سالہ کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی‘ صوبائی قیادت کی سخت نااہلی اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب وہ اپنے تمام وزراء، حکومتی مشینری اور کارکنان سمیت اسلام آباد کے دھرنے میں خیمہ زن ہو گئی اور کسی جشن نوروز کی طرح 126 دنوں تک رقص و سرود میں غرق رہی۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ خیبرپختونخوا حکومت نے بہترین قانون سازی کی مگر ان قوانین پر عملدرآمد کی رفتار کہیں بھی نظر نہیں آئی۔

تحریک انصاف نے وہاں قومی وطن پارٹی سے الحاق ختم کر کے سیاسی دلیری کا مظاہرہ تو کیا مگر قومی وطن پارٹی کے کرپٹ منسٹرز کے خلاف تادیبی کارروائی میں پرویز خٹک نے کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ عمران خان کے ایماء پر اپنی ہی جماعت کے کئی وزراء برطرف کیے گئے مگر ان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی صرف افسانوں کی حد تک رہی۔ عمران خان نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ وہ پشاور کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری میں تبدیل کر دینگے اور گورنر ہاؤس کو ختم کر کے اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی قائم کی جائے گی  مگر ابھی تک وزیر اعلیٰ و گورنر ہاؤس میں ویسی ہی شاہی تمکنت جاری و ساری ہے جو انگریزوں کے دور میں تھی۔

پھر یہ اعلان بھی بار ہا کیا جاتا رہا کہ ملک سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جائے گا اور اس کا  آغاز خیبرپختونخوا سے ہو گا مگر وقت نے یہ منظر بھی دکھایا کہ مسٹر اینڈ مسز عمران خان پشاور اسکول حملہ کے متاثرین کی عیادت کے لیے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ایسا سیکیورٹی قافلہ ہوتا ہے جو کسی ریاست کے نواب کو مہیا ہوتا ہے اور ملکہء عالیہ کے گن مین راہ چلتے لوگوں کو لاتوں اور رائفل کے بٹوں سے ہلکان کر دیتے ہیں اور شہنشاہِ معظم کی پیشانی پر ایک شگن تک بھی نمودار نہیں ہوتی۔

پھر تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا وعدہ دو سال بعد پورا کیا گیا اور جو بلدیاتی الیکشن صوبے میں منعقد کروائے گئے ان کی شفافیت پر خود تحریک انصاف کی حلیف جماعت‘ جماعت اسلامی نے بھی تحفظات کا اظہار کیا جسکی صفائی میں عمران خان کو کہنا پڑا کہ وہ دوبارہ بلدیاتی انتخابات کروانے کو تیار ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں پی ٹی آئی کے دعوؤں میں بلا کی تاخیر ہوئی۔ لوڈشیڈنگ پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان نے خیبرپختونخوا میں تین سو پچاس ڈیمز بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس محاذ پر بھی سوائے ایک ڈیم کے افتتاح کے کوئی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی۔

زرعی اصلاحات پر بھی کام جوں کا توں پڑا ہے۔ تعلیمی میدان میں تعمیر اسکول پروگرام شروع کیا گیا تھا، اس میں بھی جو پیشرفت ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے آزاد احتسابی ادارے کی پرفارمنس بھی سوائے ایک آدھ وزیر پر ہاتھ ڈالنے کے ( وہ بھی جس کے ساتھ پرویز خٹک کی ذاتی مخاصمت تھی) اب تک کیا ہوئی اور اب تک کتنے بدعنوان لوگوں کو عملی طور پر سزا ہوئی؟

کپتان کی صوبائی حکومت نے اغیار سے امداد لینے سے انکار کیا اور امداد دینے والے ممالک کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے مگر کوئی ان سے پوچھے کہ ان کی صوبائی حکومت کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ ہے جسکے ذریعے اربوں روپے کے فنڈز آ جائینگے یا پھر خانِ خاناں کی اہل دانش و بینا صوبائی قیادت نے کوئی ایسا پیراڈائم وضع کر لیا ہے جسکے تحت بیرونی امداد یا قرضوں کو کم سے کم تر کر کے آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے گا اور صوبائی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی ۔

کپتان نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف بڑے زور شور سے کارروائی کرنے کی بڑھک بھی ماری تھی مگر یہ معاملہ بھی سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

ان ساری ٹامک ٹوئیوں سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ عمران خان سیاست کے نصاب سے کماحقہ‘ ناواقف ہیں اور قدم بہ قدم اپنے ہی اعلانات و بیانات کی نفی کرنے پر آمادہ رہتے ہیں‘ ہو سکتا ہے ان کی نیت میں فتور نہ ہو اور وہ ایماندار بھی ہونگے مگر حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے  مزاج میں ٹھہراؤ نام کی کوئی چیز نہیں‘ انھوں نے جو خوشنما خواب نوجوان نسل کو دکھائے تھے وہ ایک دیوانے کی بڑ بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کا  مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو درست اور باقی سب کو غلط سمجھتے ہیں۔

اس لیے ان کی متکبرانہ اور ہٹ دھرمی کی طبیعت سیاسی مفاہمت کے میدان میں نہ تو ان کی ذات کے لیے موزوں ہے‘ نہ ہی پارٹی کے لیے۔ ان کی فطری سیاسی رویے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاست کے اچھے اسٹوڈنٹ نہیں ہیں‘ اور اس بات کا اعتراف وہ بہت عرصہ پہلے خود بھی کر چکے ہیں۔

ہمیں 1995ء میں شوکت خانم میموریل اسپتال کی وہ افتتاحی تقریب آج بھی یاد ہے جس میں کپتان نے کسی بھی حکومتی اہلکار یا سیاستدان کو مدعو نہیں کیا تھا‘ تقریر کے دوران جب لوگوں نے اپنی نشستوں سے اٹھ کر تالیاں بجا بجا کر ان کا استقبال کیا تو انھوں نے یہ کہہ کر جمِ غفیر کو تالیاں پیٹنے سے منع کر دیا کہ ’’میں کوئی سیاستدان نہیں جو آپ مجھے اس قدر پذیرائی دیں اور مجھے سیاست میں آنے کا کوئی شوق بھی نہیں‘ میں کبھی اس میدان میں نہیں اتروں گا کیونکہ میرے نزدیک سیاست سے بڑا گند دنیا میں کوئی نہیں‘‘۔

عمران خان کے ان تاثرات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی طبیعت سیاست پر مائل نہیں اور وہ کچھ نادیدہ طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو کر اس گند میں گرے ہیں۔ ملک معراج خالد کا درآمد کردہ اور قاضی حسین احمد کا لگایا ہوا یہ پاسبانی قلمی پودا آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور پاکستان کے سیاسی گلستان میں ایک الگ پہچان کا حامل بھی ہے مگر افسوس کہ اسے اپنی قدامت اور چھاؤں کو برقرار رکھنے کا سلیقہ ابھی تک نہیں آ پایا۔

عمران خان دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ایسے لاکھوں نوجوانوں کے لیے اُمید کی کرن بن کر اُبھرے تھے جو روایتی سیاست سے بیزار ہو چکے تھے مگر ان کی پالیسیوں اور بودے بیانات نے ان کی ذات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ کیا ان کی  سرشت میں دوسروں کی بات سننے کی عادت، لچک، عاجزی، معقولیت اور افہام و تفہیم نام کی کوئی چیز موجود ہے جو وزیر اعظم بننے کے لیے ضروری ہوتی ہے؟ تاہم ایسے شخص کا وزیر اعظم بن جانا بھی کیا معنی رکھتا ہے جو شائستگی اور تہذیب کی زبان سے بھی واقف نہیں، اور جو اپنے ہی بیانات سے آئے روز مکر جاتا ہے۔

جسے لوگ یوٹرن کی پالیسی کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں الطاف حسین اور عمران خان میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ آج ان کی اپنی پارٹی کے اکثر لوگ ہی ان کے خلاف ہیں اور ان پر طرح طرح کے الزامات لگا رہے ہیں۔ تحریک انصاف اندرونی طور پر زبردست توڑ پھوڑ کا شکار ہے‘ کارکنان عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں اور ان میں پارٹی عہدوں کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ چکی ہے۔ پارٹی کے معماروں کو یہ گلہ ہے کہ ان کی قربانیوں کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے اور ایسے افراد کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے جنہیں پارٹی جوائن کیے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔

حامد خان اور جسٹس وجیہہ الدین کی پریس کانفرنسوں نے پارٹی کی اندرونی تصویر مکمل طور پر عیاں کر دی ہے‘ وہ جہانگیر ترین، علیم خان، پرویز خٹک اور اسی طرح کے چند اور لوگوں کو پارٹی کے لیے ناسور قرار دیتے ہیں۔ علیم خان کے بارے میں یہ ہوائیں ہیں کہ پارٹی اُمور میں بے جا مداخلت ان کا معمول بن چکا ہے‘ شاہ محمود قریشی اور ملکہء عالیہ کے درمیان ایک خفیہ قسم کی سرد جنگ چل رہی ہے‘ کچھ اہل بینش کا خیال ہے کہ ریحام خان سیاسی عزائم رکھتی ہیں۔

کچھ رازداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خان صاحب آجکل اپنی اہلیہ کی مشاورت پر ہی چل رہے ہیں۔ بعض نادان مشیر جنھوں نے خان صاحب کے گرد سخت ترین حصار بنا رکھا ہے وہ کسی کو بھی ان کے نزدیک پھٹکنے نہیں دیتے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ہر مخلص کارکن کو دُور کیے جا رہے ہیں۔ یہ مہا کلاکار پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران کو بدنام کرنے کی مہم میں پیش پیش ہیں تا کہ عمران خان ان سے متنفر ہو کر انہیں عہدوں سے سبکدوش کر دیں۔ افسوسناک پہلو تو یہ بھی ہے کہ عمران خان کے نااہل مشیروں نے پارٹی کے بہت سے درباری اپنے مخبر بنا لیے ہیں جو پارٹی میں انتشار کا سبب بنے ہوئے ہیں اور عمران خان ساری صورتحال کو بچشم خود دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

کوئی بعید نہیں کہ علیم خان، جہانگیز ترین، شاہ محمود قریشی اور ان جیسے بہت سے اہم لوگ بھی جلد یا بدیر تحریک ِانصاف کے لیے قصۂ پارینہ بن جائیں۔ عہدیداران پر یہ الزام ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ قومی سطح پر پارٹی الیکشن کروائے گئے اور وہ بھی اس قدر تاخیر سے کہ اس سے پارٹی کو مضبوط بنانے میں مدد نہیں مل سکی‘ اس کے  علاوہ ٹکٹوں کے معاملے میں بھی غیر معمولی شکایات تھیں کہ بعض لوگوں نے اس سے بہت کمایا اور عوام میں جڑیں رکھنے والوں کو ٹکٹوں سے محروم کیا‘ اس سے بھی وہ نتائج نہ مل سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی‘ جاوید ہاشمی جیسے غیر ذمے دار شخص کو بھی غیر معمولی اہمیت دی گئی۔

اس سے بھی پارٹی کو بہت نقصان پہنچا‘ یہ علیحدہ بات ہے کہ پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے پر اس کا بھی ککھ نہیں رہا اور جسکے کہنے پر اس نے تحریکِ انصاف کو دھوکہ دیا انھوں نے بھی اسے دھوکہ دیدیا‘ اب وہ بیچارہ ’’کسے دا یار نہ وچھڑے‘‘ گنگناتا دَربدر پھر رہا ہے۔ پارٹی میں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں‘ جس یوتھ نے ان کی پارٹی کی بنیادوں کو مضبوط کرنا تھا‘ ان کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی جسکا غیر معمولی نقصان یہ ہوا کہ اس یوتھ نے سب سے پہلے صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکرز صاحبان پر گالیوں کی بھرمار کر دی۔

اب اس میں پارٹی پالیسی تھی یا وہ خود ہی صحافیوں کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ تحریک انصاف کے بارے میں کوئی بھی سینئر اور جونیئر صحافی اچھی رائے نہیں رکھتا‘ پارٹی کے بڑوں نے بھی جان بوجھ کر اس اہم ترین مسئلے کو نظرانداز کیا‘ اگر خان صاحب ابتداء میں ہی یوتھ کو شٹ اَپ کال دے دیتے تو صحافی اس پارٹی سے کنارہ کشی اختیار نہ کرتے۔ انھوں نے توایک کالم نگار کی اس ’’شرارت‘‘ سے بھی سبق نہیں سیکھا جس نے تحریک انصاف کے خلاف بھرپور کالم لکھا اور کالم کے نیچے دو فون نمبر دیدیے (ان میں سے ایک نمبر عمران خان کا تھا) اور کہا کہ یہ نمبر میرے ہیں‘ جس نے بھی مجھے گالیاں دینی ہیں وہ اپنا شوق پورا کریں۔

اگلے ہی روز وہ تماشا لگا کہ یوتھ کے سب لوگ خان صاحب کو فون کرتے رہے اور خان صاحب یوتھ کو سمجھاتے رہے کہ یہ تو میرے نمبرز ہیں اور آپ مجھے ہی گالیاں نکال رہے ہو۔ جسٹس وجیہہ کو تو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے نام پر فارغ کر دیا لیکن اپنے عزیز کو بچا لیا جس نے نظرانداز کیے گئے پرانے ’’جعلی‘‘ کارکنوں کو اکٹھا کر کے پارٹی کی ایسی تیسی کر دی حالانکہ کارکنوں کو پارٹی سے کوئی بھی شکایت ہو تو آپس میں بیٹھ کر ان کے شکوے شکایات دُور کیے جاتے ہیں نہ کہ پارٹی کی خامیاں جلسوں میں عوام کو بتائی جائیں جس سے مخالفین کو اس پر مزید تنقید کرنے کا موقع ملے۔ عمران خان پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دیرینہ دوستوں سے نگاہیں پھیرنے میں دیر نہیں لگاتے‘ یہاں تک کہ وہ اپنے مشکل اوقات کے ہمرکابوں کو بھی بے ساختہ فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کانوں کے بہت کچے ہیں۔

ان کے  کان میں کوئی چند روز کا رفیق بھی ذرا سی پھونک مار دے تو وہ اسے مستند مان کر میڈیا میں واویلا شروع کر دیتے ہیں اور بعد میں انہیں ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا  ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ خود کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور باقیوں کو پرلے درجے کا احمق۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ساری صفات آمروں والی ہیں‘ اس کی واضح مثال ان کے وہ دیرینہ دوست ہیں جو ان کے  ذاتی عتاب کا شکار ہو کر پارٹی سے کنارہ کر گئے اور کئی ایک ایسے بھی ہیں جو خاموش ہو کر گوشہ نشین ہو چکے ہیں۔

جنابِ عمران کی اَناپرستی اور خودپرستی کا یہ عالم ہے کہ ان کی  اپنی سگی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں سے بھی نہیں بنتی۔ 2013ء کے انتخابات سے ہونے والی  اب تک غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے بہت کچھ کھویا ہے‘ ایک مضبوط اپوزیشن بننے کے بجائے دھاندلی کے واویلے پر اسمبلیوں کا بائیکاٹ اور بدترین دھرنوں پر اُتر آنے کی پالیسی کسی بھی زاویے سے دانشمندانہ نہیں تھی‘ چند اجنبی مفاد پرستوں کے تاؤ دلانے پر 126 دن تک اسلام آباد میں دھرنے دینا، کنٹینروں پر چڑھ کر بے لگام اور غیرشائستہ تقاریر کرنا، غیر مہذب زبان استعمال کرنا، مخلوط جوانوں کے لیے رقص و موسیقی کا اہتمام کرنا کوئی عقلمندی کا مظاہرہ نہیں تھا‘ پی ٹی آئی نے دھرنے پر اربوں روپے خرچ کیے۔

خیبرپختونخوا حکومت پوری حکومتی مشینری اور کارکنان سمیت دھرنوں میں بیٹھی رہی اور صوبے کا سارا نظام معطل رہا جس کے باعث وہاں کے لوگ سیلابوں اور دھماکوں میں بے یارومددگار آہ و بکا کرتے رہے‘ پرویز خٹک کی حکومت کا جو مالی و معاشی نقصان ہوا وہ اس سے الگ ہے‘ دھرنوں میں جو ہزاروں لوگ شریک ہوئے ان میں سے اکثر کے تو گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہو گئے اور انہیں کاروباری نقصان الگ ہوا‘ دھرنوں کے بلوائیوں نے سرکاری اداروں اور پارلیمنٹ پر جو حملے کیے‘ ان سے پوری دُنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی‘ پی ٹی آئی نے پورے ملک کو مفلوج کرنے کے بعد سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے جس حماقت کا ثبوت دیا ۔

اس کی مثال بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتی‘ بجلی کے بِِل جلانے اور لوگوں کو سرکاری اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا پی ٹی آئی کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوا کیونکہ پی ٹی آئی کے اپنے کارکنوں نے ہی سول نافرمانی تحریک کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ وہ دھرنا جو مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کے خلاف ترتیب دیا گیا تھا اچانک اس کا اسکرپٹ دھاندلی میں تبدیل ہو گیا اور تحریکِ انصاف کے پس پردہ عزائم اور حکومت ختم کروانے کے لیے نادیدہ ایمپائر کی سازش اس وقت کھلنا شروع ہوئے جب بات نواز شریف کے استعفے پر آ کر اٹک گئی‘ پھر اسمبلیوں سے مجموعی استعفے اور طاہرالقادری سے گٹھ جوڑ‘ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے گراف کو گرانے میں معاون ثابت ہوا۔

لوگوں کا گمان یہ بھی تھا کہ پی ٹی آئی کو مارشل لاء لگوانے کے لیے بلایا گیا ہے مگر نواز شریف کا استعفیٰ آیا‘ نہ ایمپائر کی انگلی اٹھی اور نہ مارشل لاء ہی لگا بلکہ پی ٹی آئی کو الٹا اپنے زخم چاٹتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اکتفا کرنا پڑا۔ جوڈیشل کمیشن پی ٹی آئی کی مشاورت سے قائم ہوا‘ شرائط و تجاویز بھی باہم طے تو ہوئیں مگر حکمرانوں نے کمال فنکاری سے ’’منظم دھاندلی‘‘ کا لفظ شامل کر کے سارا کھیل ہی اپنے حق میں کر لیا‘ اب یہ جوڈیشل کمیشن کے عوامی اُمنگوں کے برعکس فیصلے پر احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی  میڈیا سے ’’مثالی‘‘ تعلقات کی حالت یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر ایک بھی صحافی ایسا نہیں تھا جس نے اس پر تنقید کی ہو، یہ بھی ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

ان کے  میڈیا منیجرز کی نااہلی کا عالم یہ ہے کہ ان کا کوئی بھی رہنما صحافیوں کو اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ ہی انھیں آئیڈیل میڈیا منیجرز مل سکے ہیں جو عالمی اور قومی سطح کے صحافیوں میں ہردلعزیز ہوں اور وہ اپنے پرکشش نقطہ نظر سے عوام کو متاثر کر سکیں جب کہ صحافیوں کی اکثریت حکمرانوں کے راگ الاپتی نظر آتی ہے۔ دیکھا جائے تو انتخابات سے لے کر تا وقتِ حال پی ٹی آئی نے خود کو نقصان پہنچا کر نواز حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ انتخابات کے بعد مشرف کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے نواز حکومت سخت بے چینی کا شکار تھی، وفاقی وزراء اور مشیران آپس میں دست و گریباں تھے۔

ایجنسیاں بھی حکومت کے سخت خلاف تھیں اور نواز شریف حددرجہ کمزور ثابت ہو رہے تھے مگر عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں نے فوج اور ایجنسیوں سے حکومت کے معاملات دوبارہ درست کروا دیے اور وزیر، مشیر بھی ازسرنو متحد ہو گئے اور عمران و قادری کے ہاتھ سوائے ندامت کے کچھ نہ لگا۔ استعفے دینا‘ پھر واپس لینا‘ تنخواہیں لینا‘ پھر واپس کر دینا، دھرنوں سے پسپا ہونا اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر دھاڑیں مارنا یہ سب پی ٹی آئی کی ناکامیاں ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ خوابِ غفلت سے جاگیں اور اپنے حواسِ خمسہ مجتمع کر کے قائد تحریک ہونے کی ذمے داریوں کو محسوس کریں ‘ بالغ ہونے کا ثبوت دیں اور سب سے پہلے خاتونِ اوّل کی حدود متعین کریں تا کہ وہ پارٹی اُمور میں مداخلت سے باز رہیں۔

ریحام خان غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک ہیں‘ انھیں پارٹی میں مداخلت کرنے کی بجائے غریبوں کے لیے فلاحی منصوبوں اور ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینی چاہیے جس سے ان کے بارے میں دُنیا میں اچھا پیغام جا سکتا ہے‘ اگر وہ پارٹی میں مداخلت کرنے لگیں گی تو اس سے پارٹی کے اندر زیادہ انتشار پھیلے گا۔ عمران خان پارٹی کی بہتری کے لیے سب سے پہلے ضدی بچے والی خصلت کو ترک کریں اور کارکنوں کی مشاورت پر دھیان دیں اور ناراض دیرینہ دوستوں کو خود جا کر منا لائیں اور انہیں پارٹی میں اہم عہدوں پر عزت بخشیں۔ سب سے اہم بات جو تحریک انصاف کی بگڑتی ساکھ کو بچانے میں ممد ثابت ہو سکتی ہے وہ یہ کہ عمران خان افہام و تفہیم سے پارٹی معاملات کو ہینڈل کریں اور باہمی مشاورت سے انٹرا پارٹی امور کی تجدید نو کریں اور بیرونی حواریوں کے اُکسانے پر کوئی بھی غیر پارلیمانی قدم اٹھانے سے حتیٰ المقدور گریز کریں تا کہ آمدہ الیکشن میں پارٹی اور اس کی قیادت پر لگے تمام داغ دُھل جائیں۔

ہم انھیں یہ بھی دوستانہ مشورہ دینگے کہ وہ میڈیا سے مثالی تعلقات استوار کریں، ان کی یوتھ نے جن سینئر صحافیوں کی دل آزاری کی ہے ‘ اُن کے پاس خود جا کر انھیں منائیں‘ پھر دیکھیں کہ ان کا اور ان کی پارٹی کا امیج کس طرح بہتر ہوتا ہے۔ صحیح معنوں میں اپوزیشن کا کردار ادا کریں، عوام کے گمبھیر مسائل کی جانب اپنی پوری توجہ مرکوز کریں اور پارٹی میں پائی جانیوالی خامیوں کو دُور کرنے کے لیے اہم کارکنوں کو اعتماد میں لیں اور پارٹی کو مضبوط اور آئیڈیل بنانے کے لیے عوام سے بھی رائے لیں، پھر ہی پارٹی کی جڑیں عوام میں مضبوط ہو سکتی ہیں۔

اس کے  علاوہ سب سے توجہ طلب اَمر یہ ہے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے ایسے تمام پناہ گزینوں کو اپنے کیمپ سے نکال باہر کریں جو آرٹیکل 62/63 پر پورے نہیں اترتے جن کا ریکارڈ سیاسی مچلکوں میں صاف نہیں ہے یا پھر ایسے لوگ جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور رائے عامہ میں اُجلے کردار کے حامل نہیں ہیں۔ پارٹی کے تعمیری پہلوؤں پر غور کرنے اور قومی اصلاحی ایجنڈا وضع کرنے کے لیے ایک تھنک ٹینک کا قیام بھی ناگزیر ہے جسکے ارکان الیکٹورل کمیٹی کے بھی ممبر ہوں جن کی موجودگی میں کوئی بااثر شخصیت پارٹی پر قبضہ نہ کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔