میرے چمن کے پھول…

شیریں حیدر  اتوار 9 اگست 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بجلی بند ہوتی ہے تو دم گھٹنے لگتا ہے، سانس لینا محال ہو جاتا ہے، لگتا ہے کہ جان سینے میں اٹک گئی ہو… زندگی کی تمام نعمتیں ہیچ لگنے لگتی ہیں اور ہم ہر جاندار و بے جان کو کوسنے لگتے ہیں۔

عمر کی کئی دہائیاں صحت اور تندرستی کے ساتھ گزر گئیں، بچپن کے دنوں کے ہلکے پھلکے بخار کے علاوہ کوئی تکلیف یاد نہیں آتی مگر جہاں اب کوئی درد چھڑتا ہے، عمر بھر کی صحت کی نعمت بھول جاتی ہے، ہم بخار اور درد کو مصیبت اور عذاب سے کم نہیں بولتے۔ زندگی کی ہزاروں کامیابیاں اس وقت بھول جاتی ہیں جہاں ایک ناکامی ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ کوئی ہمیشہ ہم سے اچھا برتاؤ کرتا رہے مگر جہاں ذرا سی کمی آ جائے وہاں ہم اس کی ہر نیکی کو قدموں تلے روندتے ہوئے اس کا اندر باہر سے پوسٹ مارٹم کر دیتے ہیں، کوئی احسان کرے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پر احسان کرنا اس کی مجبوری تھی۔

اصل میں ہم فطری طور پر منفی سوچ کے حامل لوگ ہیں، کسی کی تعریف کرنا، کسی کو سراہنا، کسی کا احسان ماننا، کسی کو خود سے بہتر اور افضل سمجھنا، ہرگز نہیں!!!دوسری بری عادت ہم میں یہ ہے کہ ہم ہر شخص پر شک کرتے ہیں۔

نرگس کے ناپید اور انوکھے پھولوں جیسے میرے چمن کے رکھوالے، جنھیں دنیا بھر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تیر کھا کر کمیں گاہ میں اپنوں پر نظر پڑتی ہے تو وہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ ایسے ناقدرے لوگ کیا اس قابل ہیں کہ انھیںہم جیسے رکھوالے نصیب ہوں ؟ ٹیلی وژن پر گز گز بھرلمبی زبانوں کے ساتھ اپنے خلاف بولنے والوں کو سن کر کہتے تو ہوں گے کہ خدا ایسے غداروں اور بکاؤ سیاست دانوں اور بولنے والوں کو غارت کرے ، جو ان کے بے لوث جذبوں کو بے مول کر دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ اسی بات کی تنخواہ لیتے ہیں، کون سا پیشہ ہے جس میںکام کرنیوالے اپنے سینے پر لگنے والی گولی کا اس طرح انتظار کرتے ہیں؟

ان لمبی زبانوں والوں سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ کتنی قیمت لیں گے وہ اپنے بیٹوں کو یوں گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑا کر دینے کی؟ کتنا معاوضہ لے کر وہ خود کسی ایسے محاذ پر جا کر کھڑے ہونے کو تیار ہوں گے؟ کتنے پلاٹ مل جائیں تو وہ اپنے جوان سپوت قربان کرنے کو تیار ہو جائیں گے؟ کیا اس نوعیت کا لکھنے اور بولنے والے ہمت اور جرات رکھتے ہیں کہ اپنے  پیدا ہوئے بچے کو ہی قربان کرسکتے ہیں؟

اپنے کسی جوان بچے کا لہو لہو لاشہ اٹھانے کے لیے کلیجہ ہے ان کے پاس؟ اپنے معصوم یتیم ہو جانے والے پوتوں ، پوتیوں، نواسوں اور نواسیوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے جو جگر چاہیے، وہ ہے کیا ان کے پاس؟ وطن کے چپے چپے میں دہشت گردی کا نشانہ بن جانے والوں کے آنسو پونچھنے کے لیے معاوضوں کا اعلان کیے جانے کے سوا کیا کیا جاتا ہے؟ (شاید وہ معاوضہ بھی صرف اعلانات کی حد تک ہوتا ہے)

ایک ماں کن تکالیف سے ایک بچے کی پیدائش سے پہلے سے اس کا بوجھ اٹھاتی ہے، کتنے کرب سے گزر کر اسے جنم دیتی ہے، کتنی راتوں کی نیندیں قربان کر کے اس کی نیند کا خیال کرتی ہے، آنکھوں میں نیند، بدن میں تھکاوٹ بھی ہو تو اپنی اولاد کی نیند کے لیے لوریاں گنگناتی ہے۔ اس کے بچپن سے لڑکپن تک اور لڑکپن سے جوانی تک پہنچتے پہنچتے اس کے خوابوں کے انداز بدل جاتے ہیں، اس کے سپنوں کے رخ ہوتے ہیں، ایسے میں اس کا بیٹا مادر وطن کا محافظ بننے کا سپنا دیکھ لے تو وہ ہزار اندیشوں کے ساتھ اسے خود سے اس عمر میں جدا کرتی ہے جب اس کی مسیں بھی نہیں بھیگی ہوتیں، (اسی فیصد بچے، ملٹری اکیڈمی میں اپنی عمر کی پہلی شیو کرتے ہیں)

دوسال کی تکلیف دہ تربیت مکمل کر کے جب ان کے بچے اپنی پہلی ذمے داری سنبھالتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں اور اس سے اگلی منزل کے سپنے بننا شروع کر دیتی ہیں، وہ ان دنوں کا شمار کر رہی ہوتی ہیں کہ جب وہ اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھیں گی، دن رات ان کے لیے دعائیں کرتے ہوئے، ان کے انتظار میں محو، ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے چین، ان کی آواز سننے کو تڑپتی ہوئی ماں ، ایک روز یہ مژدہ سن لیتی ہے کہ اس کے چمن کے پھول کو مادر وطن پر نچھاور ہونے کا شرف حاصل ہو گیا۔

وہ شہید ہو کر امر ہو گیا۔ ماں کے دل کا حال کوئی پوچھے، اس کی آنکھوں کے اندر کوئی جھانک کر دیکھے کہ کتنے سمندر اتر آتے ہیں، اس کے وجود کے اندر کوئی دیکھے جہاں سب کچھ خالی ہو جاتا ہے اور اسی کی قبر بن جاتی ہے جسے اس نے اپنے وجود کے اندر پروان چڑھایا، جنم دیا، پالا ، پوسا اور اس کے حوالے سے کئی خواب عمر بھر سجائے، کوئی اس قبر بن جانے والے وجود کو اس کی اولاد کا متبادل دے سکتا ہے؟

کوئی ان ادھوری رہ جانیوالی خوشیوں کے خوابوں کو تعبیر دے سکتا ہے؟ کسی نے سنے ہیں ان خاموش نگاہوں کے مرثیے کہ جن کو ماتم کی اجازت نہیں کہ وہ شہیدوں کے وارثین ہیں؟ کسی نے دیکھے ہیں ان زندہ مر جانیوالوں کے لاشے کہ جو اپنے غموں کے بوجھ تلے آ کر مر جاتے ہیں، وہ چلتے ہیں، سنتے ہیں، بولتے ہیں، کھاتے ہیں، پیتے ہیں، سانس لیتے ہیں  مگر ان میں سے زندگی مر جاتی ہے!! ان کے پیارے تو ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں مگر ان کے پیچھے رہ جانے والے مر جاتے ہیں، ان کی خواہشیں مرجاتی ہیں، ان کے خواب مر جاتے ہیں، ان کی مسکراہٹیں مر جاتی ہیں، ان کی خوشیاں ان کے وجود کی قبر میں جا سوتی ہیں!!

ملک کی سرحدیں ہوں یا اندرون ملک کے بد ترین حالات، سپاہی ہوں یا افسران، فوج ہو یا پولیس، مادر وطن کی حفاظت کا حلف اٹھانے والے ہمارے ان پیاروں نے ہر ہر محاذ پر ڈٹ کر دشمن کا اور دہشت گردوں کا سامنا کیا ہے، انھیں کوئی چیز بزدل بناتی ہے نہ کمزور کرتی ہے۔

کوئی کیا کہتا ہے، کیا سوچتا ہے، کس طرح انھیں بدنام کرتا ہے، اغیار کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنے ہی ملک کے رکھوالوں کے خلاف کیا کیا بیان بازیاں کرتے ہیں، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عوام میں اب شعور میڈیا کے ذریعے آتا ہے مگر میڈیا کی مجبوری کہ کسی ماں کا لال شہید ہونا کوئی چٹخارے دار خبر نہیں ہوتی، سو وہ بکتی نہیں، ہاں اگر کوئی غدار وطن ان شہیدوں کے لہو کو ارزاں کر دے، ان کی قربانیوں کی ناقدری کرے، کہہ دے کہ انھیں مرنے کی تنخواہ ہی ملتی ہے ، تو وہ میڈیا پر خوب مقبول ہو جاتا ہے!

آپ میں کتنا حوصلہ ہے، آپ کا کوئی بیٹا جو ابھی نوجوان ہو ، آپ اسے فوج میں بھیجیں گے، یہ جانتے ہوئے کہ کسی بھی لمحے کوئی گولی اس کے نام لکھے ہوئے آئے گی اور اس کے سینے سے پار ہو جائے گی؟ ہاں اس کے بعد آپ کو پیسے بھی ملیں گے، پنشن بھی، پلاٹ یا گھر بھی۔ کیا مول لے کر آپ اپنا پلا پلایا بیٹا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کسی وقت بھی شہید ہو سکتا ہے۔

آپ اسے کسی مشکل محاذ پر بھجوا دیں گے؟ اگر آپ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے تو آپ کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ جو راہ حق میں شہید ہوئے ہیں، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے، ان کی قربانیوں کو شک کی نظر سے دیکھیں، فوج کی طرف سے دی جانے والی مراعات کو کاروبار گردانیں اور اسے ان جوانوں کا نعم البدل قرار دیں۔ اس ملک کی فوج ، دنیا کی بہترین فوج ہے، نہ صرف اندرون ملک بلکہ دنیا کے چپے چپے میں اس کا اعتراف کیا جاتا ہے، صرف ہم بخیل ہیں کہ ہمیں کسی کی خوبی کا اعتراف کرنے کی عادت نہیں۔-

اس ملک کی آزادی، سالمیت اور وقار ان ھی جوانوں کے دم سے ہے جو اس کی حفاظت کا عہد کرتے ہیں اور اسے اپنی آخری سانس تک نبھاتے ہیں۔ اہل وطن کو جشن آزادی مبارک ہو اور انھیں مبارک ہو کہ ان کے ہاں ایسے لال جنم لیتے ہیں، اس گلشن میں ایسے پھول کھلتے ہیں کہ جن کا لہو جنت میں بھی خوشبو پھیلا رہا ہو گا ۔ خوش نصیب ہیں ہم کہ ہمیں ایسے بے لوث جیالے اور وطن پر پروانوں کی طرح نثار ہونے والے سپاہی ملے ہیں، اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی قربانیوں کو مقبول کرے۔ آمین!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔