سیدنا حضرت بلالؓ

نسیم انجم  اتوار 9 اگست 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں ہمارا گھومنے پھرنے کی غرض سے اسلام آباد، مری اور کے پی کے جنت نظیر علاقوں جہاں قدرت کا حسن چپے چپے پر بکھرا ہوا تھا، دوران سفر جگہ جگہ مساجد بھی نظر آئیں، لیکن ان کے نام نہیں تھے اور یہ اچھی بات تھی، اس طرح مسلک کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔

اذانوں کی آوازیں فضاؤں میں گونج رہی تھیں اور اللہ کی وحدانیت اور اللہ کے رسول آخرالزماں کا مقدس و متبرک نام دلوں میں ایمان کو تازگی بخش رہا تھا، پورا ماحول نورانی و معطر ہوگیا تھا، اس تازگی و فرحت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اذان کی صدا کو دل میں اتار لیتا ہے۔پچھلے کئی سال سے ترکی اور دوسرے کئی ممالک میں اذان پر پابندی اور کم سے کم مساجد کی تعمیر کی خبریں گرم رہیں، ہمارے ملک میں بھی ایک مقررہ وقت میں اذان دینے کی بات ہوئی اور اس پر عمل بھی اسلام آباد تک ہوا، یہ منصوبہ آگے بڑھانے کا بھی ارادہ ہے۔

اذان لوگوں کو وقت مقررہ پر مدعو کرنے کا عمل ہے تاکہ باجماعت نماز ہوسکے، پابندی سے نماز پڑھنے والے ہر موسم میں مسجد کا رخ کرتے ہیں، ایسے ہی لوگوں سے مساجد آباد ہیں۔خوش الحانی سے اذان دینے والوں کی صدائیں دلوں کو گرما جاتی ہیں اور ماحول میں ایک سحر سا پیدا ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات حضرت بلال ؓ کی زندگی اور اذان عشق یاد آجاتا ہے اور کالم لکھتے وقت بھی آپؓ کی زندگی کے واقعات اور آپؓ کی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت و عقیدت کے واقعات قلم کی نوک پر آکر ٹھہر گئے ہیں اور قلم متحرک ہوگیا ہے۔

ایک وجدانی سی کیفیت طاری ہوگئی ہے بالکل ویسے ہی جب اذان سحر کے وقت ہوتی ہے۔حضرت سیدنا بلال حبشیؓ کے والد گرامی کا نام رباح اور والدہ محترمہ کا اسم گرامی حمامہ تھا، حضرت بلالؓ نسلاً حبشی تھے، آپؓ پیدائشی طور پر غلام تھے، اس کی وجہ آپ کے والد رباح حبشہ سے ہجرت کرکے سراۃ (عرب) میں آئے، اس کے بعد مکہ مکرمہ میں سکونت پذیر ہوئے اور بنو جمع کی غلامی میں آگئے، بنو جمع کا تعلق قریش سے تھا۔

بحیثیت غلام انھوں نے اپنے آقا کے ہاتھوں بے حد مظالم سہے، تپتی دھوپ میں برہنہ پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے، محض دین اسلام قبول کرنے پر گرم ریت پر انھیں کھینچا جاتا، تشدد اور بربریت کا ہر روز نیا باب کھلتا اور ظلم کی چکی میں حضرت بلالؓ کو بلاناغہ پیسا جاتا، لیکن حضرت بلالؓ دین اسلام پر مضبوطی سے ڈٹے رہے کہ ان کی والدہ ماجدہ حضرت حمامہؓ نے اللہ کی وحدانیت کا بیج اپنے بیٹے کے ذہن میں بودیا تھا اور وہ بیج اب تناور درخت بن چکا تھا۔

حضرت بلالؓ جب آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں گلے سے لگاتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے بلالؓ! جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں رہے گی کہ اسلام کی راہ میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ اذیتیں اور مصائب برداشت کیے ان سب میں تمہارا نام سرفہرست ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس ہی چٹائی پر بٹھا لیا (کیا مرتبہ پایا بلالؓ نے سبحان اللہ)۔ یہ حضرت بلالؓ کی اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی ملاقات تھی، پھر محبت و عقیدت نے حضرت بلالؓ کے دل و دماغ میں ایسی جگہ بنائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر زندگی ناممکن ہوگئی اور پھر پوری زندگی حضرت بلالؓ کی اللہ کے رسولؐ کے لیے وقف ہوگئی۔

سفر ہو یا حضر، جنگ کا میدان ہو، تبلیغ و وعظ ہو، غرض ہر جگہ، ہر مقام اور موقع پر حضرت بلالؓ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے، آپؓ کو خادم رسول ہونے کا شرف حاصل رہا۔حضرت بلالؓ فرماتے ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل کرنے اور علم کے حصول کے لیے میں نے باقاعدگی سے حاضری دینا شروع کردی، ان دنوں میں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر میں قیام کیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کو لکھنے پڑھنے کے ہنر سے آشنا کیا۔ ہر روز تھوہر کا ایک قلم تراش کر حضرت بلالؓ کو دیتے، ایک دن حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا بلال کے ہاتھ سیاہی میں تر دیکھے تو آپؓ نے بے اختیار ان کے ہاتھ چوم لیے اور فرمایا کہ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ طالب علم کی طلب علم میں استعمال ہونے والی  سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

اذان کی ابتدا بھی اس طرح ہوئی کہ حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت عمر فاروقؓ نے بیک وقت ایک خواب دیکھا کہ ایک شخص دو سبز چادریں اوڑھے اور ہاتھ میں ناقوس پکڑے ہوئے ہے۔ (ناقوس پھونکنا عیسائیوں کا اور بگل بجانا یہودیوں کا طریقہ تھا، کہ وہ اس طرح لوگوں کو عبادت کے لیے اکٹھا کرتے تھے) انھوں نے ناقوس کو خریدنے کے لیے کہا، وہ شخص بولا۔ میں تمہیں اس سے اچھا طریقہ بتاتا ہوں، تم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرنا کہ اس طرح نماز کی دعوت دیا کریں پھر اس نے اذان کے الفاظ ادا کیے۔

عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ جب میری آنکھ کھلی تو میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا خواب سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کردی کہ یہ خواب سچا ہے، انشا اللہ۔اور پھر حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ اذان دیں اور حضرت عبداللہ بن سعد سے فرمایا کہ تم کلمات بتاتے جاؤ بلالؓ ادا کرتے جائیں گے۔ حضرت سیدنا بلالؓ کی آواز میں ایک مٹھاس تھی، ایک سحر تھا۔

جو سنتا وہ سرور محسوس کرتا، اس سحر میں کھو جاتا، جب تک اذان ہوتی ایک سناٹا چھا جاتا، اذان کی آواز دلوں کو مسخر کرلیتی، لوگ اس کیف میں دیر تک ڈوبے رہتے، سبحان اللہ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو حضرت بلالؓ پر قیامت گزر گئی، غم کا پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑا، بے چینی و بے قراری بڑھ گئی، کسی پل چین نہ آتا تھا، اذان دینا بھی چھوڑ دی، چنانچہ حضرت سعد قرظیؓ حضرت بلالؓ کی اجازت سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن مقرر ہوئے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں کچھ صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضرت بلالؓ کی زبان مبارک سے ’’شین‘‘ کا لفظ ٹھیک طرح سے ادا نہیں ہوتا ہے۔

اس لیے کسی اور خوش الحان اور اہل زبان کو موذن مقرر کیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، لیکن تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس دن سحر نہ ہوئی، طلوع فجر کے انتظار میں اہل مدینہ بے چین ہوگئے اور اسی پریشانی کے عالم میں حضورؐ کائنات دو جہاں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہؐ تہجد کی نماز ادا کیے بہت وقت گزرا لیکن رات ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، اسی دوران حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے اور فرمایا یا رسول اللہؐ عرش کے سب سے اونچے کنگرے پر ایک فرشتہ مقرر ہے، جس کے قبضے میں سورج کی باگ ڈور ہے، حضرت سیدنا بلالؓ کی آواز سن کر وہ سورج کو آگے بڑھنے کی اجازت دیتا ہے، آج وہ ابھی تک انتظار میں ہے اس لیے کہ حضرت بلالؓ کی آواز اب تک عرش تک نہیں پہنچی ہے۔

ارشاد فرمایا اذان تو ہوگئی ہے لیکن ان کی جگہ کسی اور نے دی ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ جس عشق خداوندی اور اخلاص سے حضرت بلالؓ اذان دیتے ہیں وہ ان ھی کا حصہ ہے، لہٰذا جب تک وہ اذان نہیں دیں گے مدینہ طیبہ میں صبح کا اجالا نہیں پھیلے گا، سبحان اللہ! چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا اذان دی گئی، سحر ہوگئی، صبح کا نور ہر جگہ پھیل گیا۔ یہ تھا مرتبہ حضرت بلال حبشیؓ کا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمادیا تھا کہ کسی عجمی کو عربی پر اور عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں ہے، سوائے تقویٰ کی بنیاد پر، جو جتنا نیک اور پرہیزگار ہوگا وہ اللہ کے اتنا قریب ہوگا۔حضرت بلالؓ کی روح پرور صدا اور آپ کی زندگی کے حوالے سے علامہ اقبالؒ، مولانا جلال الدین رومیؒ، علامہ شبلی نعمانیؒ نے بہت عقیدت و خلوص کے ساتھ شاعری تخلیق کی ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:

اقبال کسی کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔