بنیادی ڈھانچہ

اوریا مقبول جان  پير 10 اگست 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

کس قدر بدقسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جو سچ اور جھوٹ، حق اور باطل، اخلاق اور بد اخلاقی جیسے معاملات کا تعین عوام کی اکثریت کے ہاتھ میں دے دیں۔ سقراط کو جب موت کی سزا سنائی جا رہی تھی تو پورا ایتھنز شہر ایک جیوری تھا۔ وہ دنیا کی اولین جمہوری شہری ریاست تھی۔ ان کے جمہوری آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہ تھا۔ ہر چیز جسے وہاں کے رہنے والوں کی اکثریت حق تصور کرتی وہ حق اور جسے باطل کہہ دیتی وہ باطل۔ اسی لیے سقراط نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اے ایتھنز والو! میں تمہاری عزت کرتا ہوں، مجھے تمہارا احترام ہے لیکن میں تمہاری جگہ خدا کی اطاعت کروں گا‘‘۔

اس نے کہا یہ عدالت نہیں ایک ہجوم ہے اور ہجوم سے عقل اور انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بنیادی ڈھانچے سے ماورا جمہوری آئین پر قائم شہری ریاست ایتھنز کی عدالت نے سقراط کو موت کی سزا سنائی تو اس کی دی گئی وارننگ تاریخ کا حصہ ہے۔اس نے کہا ’’مجھے سزائے موت دینے کے بعد کیا تم اپنی اپنی زندگی کا حساب دینے سے بری ہو جاؤ گے ؟لیکن میں کہتا ہوں کہ تمہارے لیے یہ ایک بالکل برعکس نتیجہ ہو گا۔ بہت اشخاص ایسے ہوں گے جو تم سے حساب طلب کریں گے اور یہ وہ ہیں جنھیں میں نے دیکھ لیا ہے۔ مگر تم انھیں نہیں دیکھ پائے۔ وہ بہت تند مزاج ہوں گے‘‘۔

گزشتہ ایک سو سال سے ہمیں یہ سبق بزور طاقت پڑھایا اور سکھایا جا رہا ہے کہ دنیا کی کوئی حکومت آئین کے بغیر نہیں چل سکتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سبق کو پڑھانے میں اولین ملک برطانیہ تھا جس کا اپنا کوئی آئین نہیں۔ پوچھو تو ایک مضحکہ خیز جواب دیا جاتا ہے کہ ہمارا ایک غیر تحریری (Un Written) آئین ہے۔ جو لوگ دس پاؤنڈ سے کم کا معاہدہ بھی تحریر میں لاتے ہوں۔ ہر معاملے کے لیے مفصل قانون بناتے ہوں اور قانون پر ان کی کتابوں کی کتابیں موجود ہوں، وہ چند سو صفحات کا آئین تحریر نہیں کرپاتے۔ جو اب یہ دیا جاتا ہے کہ ہماری اقدار و روایات ہمارا آئین ہیں۔ یہ اقدار و روایات کس بلا کا نام ہے۔ دنیا کی ہر درس گاہ جس میں قانون کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے وہاں سب سے پہلے ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے جسے Jurisprudence کہا جاتا ہے۔

اس مضمون کا پہلا سبق یہ ہے کہ ’’قانون لوگوں کی اقدار اور رسم و رواج سے جنم لیتا ہے‘‘۔ یہ اقدار اور روایت دنیا کے ہر معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ ہوتی ہیں۔ انھیں دنیا کی بڑی سے بڑی جمہوریت بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ جو جمہوریت یہ دعویٰ کرتی ہے وہ جھوٹ بولتی ہے۔ کیا پاکستان، برطانیہ، امریکا یا فرانس کی کوئی پارلیمنٹ یا کانگریس اکثریت رائے سے یہ آئینی ترمیم کر سکتی ہے کہ عدالت کے روبرو جھوٹی گواہی دینا جائز ہے، انسان کو زندہ رہنے کا حق نہیں اس لیے قتل پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ کاروبار میں دھوکا دراصل ایک ہنر اور فن ہے اس لیے اس پر انعام دینا چاہیے نہ کہ سزا۔ والدہ‘ بہن‘ بیوی اور بیٹی جیسے رشتوں کو خوامخواہ انسان نے مقدس بنایا ہوا ہے۔ان سے نکاح جائز ہے اور یہ ایوان کثرت رائے کے ساتھ ان سے شادی کی اجازت دیتا ہے کیونکہ ہمارے آئین میں جو پہلے لکھا گیا تھا وہ بنیادی ڈھانچہ نہیں۔ ہم سب کچھ تبدیل کر سکتے ہیں۔

یہ ساری بحثیں صرف اس لیے ہیں کہ ایک سیکولر جمہوری ریاست میں آئین کی کتاب کو ملک کی سب سے مقدس دستاویز سمجھا جاتا ہے اور اس کا درجہ، مقام اور مرتبہ کسی بھی الہامی کتاب سے زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر آئین سے روگردانی اور غداری کی سزا موت ہے ۔اسی لیے کیا اس مملکت خداداد پاکستان میں قرآن سے روگردانی یا غداری کی سزا موت ہے؟ جو اب بہت تلخ ہے، لیکن بہت سچا ہے کہ اس ملک میں آئین کا مرتبہ، مقام اور تقدس عملاً قرآن پاک سے بلند ہے اور اب تو اس بات پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے جس کا حرف آغاز یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ یا بادشاہت صرف اور صرف اللہ کی ہے لیکن سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلے کے بعد اب اس ملک کے پانچ سو کے قریب ارکان ایک متفقہ آئینی ترمیم سے یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ اقتدار اعلیٰ یا بادشاہت اب اللہ نہیں آصف زرداری یا ممنون حسین کے ’’جسدِ پُر نور‘‘ میں سرایت کرگئی ہے اور جو بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھے گا اس کو مکمل بالادستی حاصل ہو گی کیونکہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ اللہ اور قرآن و سنت کو بالادستی دیتا تھا، اب اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب بنیادی ڈھانچے کو گرانے کا اختیار ان ممبران اسمبلی کو مل گیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دھن، دھونس اور دھاندلی کی پیداوار ہیں اور عدالت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی تو پھر سقراط کی پیش گوئی کے دن قریب آ جایا کرتے ہیں۔

بنیادی ڈھانچہ کسی معاشرے کا ہوتا ہے اور آئین اس کی تصویر ہوتا ہے۔ گزشتہ دو تین صدیوں سے بحث چل رہی ہے کہ اخلاقیات الہامی یا مذہب کی عطا کردہ ہیں یا انسان نے اسے خود بنایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سچ، وعدے کی پاسداری، ماں، بہن، بیٹی، بیوی کے رشتے، دھوکا نہ دینا، قتل نہ کرنا، غیر فطری فعل سے اجتناب‘ یہ سب انسانوں کو مذہب نے سکھایا، لیکن سیکولر جمہوریت کے علمبردار کہتے ہیں کہ ان اقدار کو انسان نے بنایا ہے، اس لیے، انھیں انسان بدل بھی سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پرستی کی شادی کا قانون مغرب میں منظور ہو جاتا ہے کیونکہ وہ آئین کے کسی بنیادی ڈھانچے کو تسلیم نہیں کرتے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب پاکستان میں بھی یہ ممکن ہو گیا۔ ایسی آئینی تبدیلی کے لیے اکثریت میں ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا صرف شرم‘ حیا اور اخلاق بیچ کھانا شرط ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں ایک فیصد بھی ہم جنس پرست نہیں ہوں گے‘ یہی حال امریکا کا ہے‘ لیکن چونکہ کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں‘ اس لیے ایک فیصد سے کم ہم جنس پرستوں نے اس مکروہ فعل کو جائز کروا لیا۔

کہا جاتا ہے آئین کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ لیکن جن کے نظریات پختہ اور ایمان مضبوط ہو وہ یہ کر کے دکھاتے ہیں 25 جنوری 1949 کو اسرائیل کی پہلی آئین ساز اسمبلی منتخب ہوئی۔ اس آئین ساز اسمبلی میں دو فقرے بار بار گونجے‘ ایک توراتی جمہوریت (Torah Democracy) اور دوسرا ہمارا آئین تورات ہے۔ اس اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ہم کوئی ایسی کتاب‘ دستور یا آئین نہیں بنا سکتے جو حیثیت بلکہ تھوڑی سی بھی حیثیت میں تالمود (Talmud) تناخ (Tanakh) اور شلخان آرخ (Shulkan Arakh) سے بالاتر تصور کی جائے۔ ہماری مقدس کتابیں بالاتر ہیں‘ اس لیے ہر کوئی ایسی کتاب جسے آئین کہتے ہیں‘ تحریر نہیں کریں گے اور آج 66 سال گزرنے کے بعد بھی اسرائیل نے اپنا آئین مرتب نہیں کیا۔ البتہ بحث جاری ہے اور آخری تقریر جو اس موضوع پر ہوئی وہ 7 مئی 2012کو اسرائیل کے وزیر انصاف یعقوب نیمان (Yaccov Neman) نے کی۔

اس نے کہا اسرائیل کو ایک تحریری آئین کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں سرکاری قانون سازی کا کوئی طریق کار ہی موجود نہیں۔ روز مرہ معاملات کے لیے اسرائیل نے قانون ضرور بنائے ہیں جنھیں ہر جگہ Subordinate قانون سازی کہتے ہیں۔ دنیا بھر کی سیکولر جمہوری عالمی قوتوں کو دھوکا دینے کے لیے اور ان کے پریشر سے مجبور ہو کر مئی 2003میں اسرائیل نے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا جو آئین بنائے گا‘ جس کی صدارت مائیکل ایٹان (Michell Ettan) کر رہا ہے۔ آج بارہ سال گزر چکے ہیں لیکن اس نے آئین کا مسودہ تک تیار نہیں کیا۔ اسرائیل نے روزمرہ کاروبار کے لیے سات قوانین پاس کیے جنھیں عمومی قانون کہا جاتا ہے۔ 1958 میں اسمبلی رولز‘ 1960 میں تعزیرات اور زمین‘ 1964 میں صدر کا عہدہ‘ 1968 میں حکومت‘ 1975 میں معیشت‘ 1979 میں فوج اور 1980 میں یہ قانون کہ یروشلم دارالحکومت ہوگا۔ لیکن ریاست کے بنیادی ڈھانچے کے لیے انھوں نے کوئی آئین مرتب نہیں کیا بلکہ صرف یہ تحریر کر دیا کہ ’’ہمارا آئین تورات ہے‘‘۔

یہ سب اس لیے کہ وہاں کے بسنے والے لوگوں کو ایسا کہتے اور لکھتے ہوئے کبھی کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ اس ملک کو ایک بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے بغیر خون بہائے عالمی طاقتوں نے تخلیق کیا تھا جب کہ لا الہ اللہ پر قائم پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا کا لہو شامل ہے جن کی خون سے کھینچی لکیر پر ایک بنیادی ڈھانچہ تحریر کر دیا گیا کہ یہ ملک اللہ کے لیے بنا تھا اور اس پر اسی کا قانون نافذ ہو گا۔ اب اس سے مکمل انکار کا راستہ ہموار ہوگیا۔ ایسا لمحہ آ جائے تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قانون کی کتابیں دھری کی دھری رہ جایا کرتی ہیں اور انسان صدیوں سے قائم اخلاقیات کو خود نافذ کر دیا کرتے ہیں۔ سقراط نے کہا تھا بہت سے لوگ جنھیں تم نہیں دیکھ پائے لیکن میں نے دیکھ لیا ہے جو تم سے حساب لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔