سماجی تنظیموں کا کردار

مقتدا منصور  پير 10 اگست 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

آج کل مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک بھر میں گزشتہ تین دہائیوں سے سرگرم سماجی تنظیموں یعنی NGOs کے خلاف کریک ڈاؤن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ پہلے مرحلے میں نت نئے الزامات لگا کر انھیں عوام کی نظر وں میں مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تا کہ ان کے خلاف کارروائی آسان ہو سکے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ تنظیمیں گورننس سے متعلق جن امور پر تحقیق کر کے ان کی پیروی(Advocacy) کرتی ہیں، وہ حکومتوں کے لیے بے چینی کا اصل سبب ہے۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ جو مذہبی شدت پسند عناصرکے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے سماجی تنظیموں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ NGOs کا پس منظر کیا ہے؟ دنیا بھر میں یہ کیا خدمات سرانجام دے رہی ہیں؟ دنیا کے مختلف ممالک میں انھیں کن مسائل کا سامناہے؟

اب جہاں تک پس منظر کا تعلق ہے، تو سماجی فلاحی تنظیموں کا تصور صدیوں پرانا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس نوعیت کی تنظیمیں عوام کی جانب سے مہیاکردہ چندوں اورعطیات کے ذریعے فلاحی کام (جن میں یتیم خانے، شفاخانے اور مدارس کا قیام اور انتظام وانصرام وغیرہ شامل ہیں) سرانجام دیتی رہی ہیں۔مگر جدیدتصور 1960 کے عشرے میں اس وقت سامنے آیا۔جب وسطی افریقہ کی چھ ریاستوں کینیا، تنزانیہ،چاڈ،انگولا،کانگو اور زیمبیا سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، صحافیوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور متوشش شہریوں نے ملک کوکرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنے کی غرض سے تنظیمیں بناکر اپنے اپنے ملک میںحکمرانی میں پائی جانے والی خرابیوںاور کمزوریوںکا جائزہ لے کران کے خلاف عوام کو موبلائزکیا۔اس کے بعد اچھی حکمرانی یعنیGood Governanceکے لیے تحاریک کا آغاز کیا۔ ان کی تنظیموں کی جدوجہد کے نتیجے میںان کے ممالک کی گورننس میں بہتری کے آثار نمودار ہوناشروع ہوگئے۔

اس کامیاب تجربے نے امریکی حکومت کو ترغیب دی کہ وہ اس تبدیلی کا مطالعہ کرے۔چنانچہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ اہلکار لیری ڈائمنڈکوان ممالک کے مطالعاتی دورے پر بھیجاگیا۔اس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ان ممالک میںنظم حکمرانی میں اصلاح احوال کے لیے سول سوسائٹی کی تنظیمیں نہایت فعال کردار ادا کررہی ہیں۔انھیں عوام کا بھرپور اعتماد بھی حاصل ہے، مگر مناسب وسائل کی عدم دستیابی کے سبب یہ عوام میںسیاسی و سماجی امور کے بارے میںواضح شعور پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔

اس رپورٹ کی روشنی میں امریکی کانگریس اس نتیجے پر پہنچی کہ تیسری دنیا کے ممالک کی ریاستی مقتدرہ کو دی جانے والی امدادی رقم خراب حکمرانی، کرپشن اور بدعنوانی کے باعث بڑے پیمانے پر خرد برد کردی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے ثمرات ان ممالک کے عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔لہٰذا امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک کے منصوبہ سازوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بڑے منصوبوں کے لیے بے شک ریاستی مقتدرہ کو امداددی جائے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں سرگرم تنظیموںکی بھی مالی معاونت کی جائے،تاکہ وہ اپنے اپنے ممالک میںعوام میںسیاسی بااختیاریت کے لیے سماجی شعورپیداکرنے کے ساتھ خدمات (Services) کے شعبے میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔یوں 1970 کے عشرے سے سماجی تنظیموں کا نیا تصور ابھر کر سامنے آیا۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سماجی تنظیمیں رجسٹریشن کے بعد کام کرتی ہیں۔ عالمی Donorsکسی ایسی تنظیم کی کسی قسم کی مالی معاونت نہیں کرتے جو اپنے ملک کے مطلقہ محکمے کا رجسٹریشن نہ رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ بھی مختلف طریقوں سے چھان بین کے بعد اس کی مالی معاونت کی جاتی ہے۔ پاکستان میںNGOs کوعام طورپر1860کے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹر کیا جاتا ہے۔ سوشل ویلفیر کا محکمہ بھی فلاحی تنظیموں کی رجسٹریشن کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تنظیمیں ٹرسٹ کے طورپر بھی رجسٹرڈ ہیں۔کراچی سے خیبر تک مجھے ایسی کوئی تنظیم نظر نہیں آئی، جو بغیر رجسٹریشن کام کررہی ہواور جس کے حسابات مکمل نہ ہوں۔البتہ ایسے ان گنت مدارس ہر شہر میں موجود ہیں،جن کی محکمہ تعلیم سمیت کسی بھی ریاستی ادارے میں کسی قسم کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہے۔مگر اس کے باوجود کہ وہ کروڑوں کی جائیداد کے مالک اور لاکھوں روپے ماہانہ اخراجات کررہے ہیں لیکن انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔

NGOs نے سول سوسائٹی کو منظم کرنے، سماجی مسائل پر تحقیق اور ان کی پیروی کرنے کے رجحان کو فروغ دیا۔چونکہ پاکستان میں NGOs جنرل ضیا کے دور میںوجود میں آنا شروع ہوئیں،اس لیے ابتداً سیاسی جماعتوںکا ان کے ساتھ رویہ محتاط اور عدم تعاون کا رہا۔لیکن انتہائی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوںاورتنظیموں نے البتہ ان کے خلاف محاذ قائم کرلیا۔دائیں بازو کے قدامت پسند حلقوں کے خیال میں مغربی دنیا ان تنظیموں کے ذریعے ہمارے معاشرے پر ثقافتی یلغار (Cultural Invasion) کرنا چاہتی ہے۔اس لیے ان تنظیموں کی مخالفت کووہ قومی اوردینی فریضہ قرار دیتے چلے آرہے ہیں۔لیکن ساتھ ہی بائیں بازو کے انتہا پسند حلقے بھی ان تنظیموں کی مخالفت پر روز اول سے کمر بستہ ہیں۔بائیں بازو کے قدامت پرست عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ سماجی تنظیموں کی مالی معاونت کے ذریعہ سرمایہ دار دنیا بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو فکری اور مالی طورپر کرپٹ کرکے انھیں سیاسی طورپر ناکارہ بنارہی ہے۔جس کا نقصان سرمایہ داری مخالف سیاسی فکر کو پہنچ رہاہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر دو جانب سے عوام کو ان تنظیموں سے متنفر کرنے کا سلسلہ روز اول ہی سے شروع کردیاگیاتھا۔اس مہم میں بعض مخصوص سیاسی جماعتوں کے علاوہ ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے صحافی پیش پیش تھے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے1990 کے عشرے کے دوران اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم کے خلاف مہم شروع کی گئی۔ اس کے بعد معروف وکیل اور حقوق انسانی کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کی کردار کشی کا عمل شروع کردیاگیا۔NGOs میں کام کرنے والے کارکنوں پرحملے، انھیں جسمانی وذہنی زک پہنچانے کے علاوہ جان سے ماردینے کا عمل بھی جارہی رہا۔حالیہ چند برسوں کے دوران پروین رحمان اور سبین محمود اسی سفاکانہ طرز عمل کا شکار ہوئیں۔خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں کام کرنے والے کارکنان، بالخصوص خواتین کارکنان جن نامساعد حالات میں کام کررہے ہیں،ان کا شہروں میں بیٹھ کر تصورنہیں کیا جاسکتا۔مگر ان تمام مشکلات اور دشواریوں کے باوجود سماجی تنظیموں کے کارکنان مشنری جذبے کے ساتھ کام کررہے ہیں۔

اب اس سوال کی جانب آتے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ سماجی تنظیمیں کسی ایک شعبے کے لیے رجسٹرڈ ہوتی ہیں،لیکن اپنے کام کو دیگر شعبہ جات تک پھیلادیتی ہیں؟اس سوال کے جواب تک پہنچنے کے لیے ملک کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی موشگافیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔مثال کے طورپر ایک تنظیم جو صنفی امتیازات کے خلاف کام کررہی ہے، اسے ریاستی انتظام کے مختلف شعبہ جات بالخصوص شعبہ تعلیم، صحت اور لیبر ڈویژن کی کارکردگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ مرتب کرنا ہوگی۔ صنفی امتیازات کا خاتمہ خواتین کی سیاسی وسماجی بااختیاریت سے مشروط ہے، جو معاشی بااختیاریت کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا فیکٹریوں ،کارخانوں،دفاتراور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی خواتین کوملازمت کے یکساں مواقعے، مردوں کے مساوی اجرت اور مہذب اوقات کار کے لیے اس تنظیم کوان شعبہ جات میں بھی قدم رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے یہ الزام بے بنیاد اور لایعنی ہے کہ سماجی تنظیمیں ایک شعبے میں رجسٹر ہوتی ہیں اور وہ اپنے ہاتھ پاؤں دیگر شعبہ حیات تک پھیلالیتی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ملک کے طول وعرض میں بعض ایسی تنظیمیں بھی وجود میں آگئی ہیں، جن کا مطمع نظر دولت کا حصول اور کرپشن ہے۔ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ایسی تنظیمیں آٹے میں نمک کے برابر ہی ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں ہیں۔ جب کہ سنجیدگی کے ساتھ پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیمیں واضح اکثریت میں ہیں۔اس لیے محض ذاتی عناد کی خاطر سماجی تنظیموں کو مختلف طریقوں سے پریشان کرنا ،ان کے گرد حلقہ تنگ کرنااور ان پر مختلف نوعیت کی بے جا پابندیاں عائد کرنا کسی بھی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ تنظیمیں اپنی مہارت کے مخصوص شعبہ جات میں جن امور پر تحقیق کرکے ان کی پیروی کررہی ہیں، وہ ریاستی منصوبہ سازوں اور منتظمہ کے لیے خاصا کارآمد مواد ثابت ہوسکتا ہے، بشرطیکہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت غیر ضروری طورپر ان تنظیموں کو تنگ نہ کرے۔ البتہ جو تنظیمیں متعلقہ محکموں میں رجسٹر نہیں ہیں اور جن میں بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں، ان کا بے شک احتساب کیا جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔