21ویں ترمیم، بنیادی ڈھانچہ اور قانون کی حکمرانی (آخری حصہ)

جاوید قاضی  پير 10 اگست 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

انتہائی ادب و احترام کے ساتھ کہ خالد انور ہمارے نامی گرامی آئینی ماہر ہیں ، وہ یہ کہتے ہیں کہ بنیادی ڈھانچے کی تھیوری ہندوستان کی سپریم کورٹ کی ایجاد کی ہوئی ۔ تاہم میری گزارش یہ ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی تھیوری سے بڑھ کر Doctrine of Implied Limitation جوکہ Marbury V Madison 1818 میں سپریم کورٹ آف امریکا کے چیف جسٹس سر جا مارشل نے بتائی تھی آپ اسے اگر بنیادی ڈھانچہ نہ سمجھیں اس مظہر کو Doctrine of Implied Limitation کہہ دیجیے اور اگر آپ یہ بھی نہیں مانتے تو کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ آیا ہمارا آئینی تحریری مسودہ ہے تو پھر اس لیے کہا تھا کہ سر جان مارشل نے کہ جب آئین تحریری صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہ پھر پارلیمنٹ بالادست یا سپریم نہیں ہوتی بلکہ Written Constitution سپریم ہوتا ہے یہ آپ کی مرضی ہے کہ قانون کو الٹے ہاتھ سے پکڑیں یا سیدھے ہاتھ سے معنوی بات effect ہوتا ہے چاہے وہ Direct طریقے سے یا indirect طریقے سے آئے ہمیں form میں الجھنے کی ضرورت نہیں بلکہ حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی Substance کو دیکھنا پڑے گا اور اس طرح ہندوستان کے عظیم سپریم کورٹ نے Kesavananda کیس میں دنیا کی عدالتی و آئینی تاریخ سے مدد لیتے ہوئے بالآخر ایک فیصلہ دیا جو نہ صرف پاکستان نے 1972 کے فیصلے کو 1995 سے زیر بحث لایا بلکہ 2002 میں اپنی jurisprudence کا حصہ بنایا جب کہ چار اگست کے فیصلے میں ظفر علی شاہ کیس کے بنیادی ڈھانچے والے فیصلے کو Over Rule نہیں کیا ہاں چونکہ اگر یہ detail ججمنٹ غور سے پڑھنے اور اس طرح اگر چار اگست کے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ وغیرہ نہیں اور پارلیمنٹ بااختیار ہے کہ وہ آئین میں جو کچھ کرنا چاہے، چاہے کیوں نہ آئین کا حلیہ تبدیل کردے اس کی روح مسخ کرسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ جس بات کے خدوخال چیف جسٹس ناصر الملک کے فیصلے سے ملتے ہیں مگر کیا وہ اکثریتی ججوں کی رائے ہے؟ تو اس سے پھر ظفر علی شاہ کیس Over Rule ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وکلا کی چلائی ہوئی Rule of Law کی تحریک بھی تاریخ ہوئی اور ہم واپس ان زمانوں میں چلے گئے جو 1990 کے پہلے والے زمانے تھے اور اس طرح پہلے کبھی بھی ماڈرن اسٹیٹ بننے کی سمت پر نہیں بلکہ واپس غاروں کے زمانے کی طرف جانا شروع کر رہے ہیں۔

چار اگست کے فیصلے نے قرارداد مقاصد یعنی Objective Resolution کو بہت محدود کردیا ۔ بلکہ جو اس قرارداد کی وسیع تشریح سے جس میں جسٹس رمدے جیسے جج صاحبان اور وہ 90 کی دہائی کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ جس میں آرٹیکل 2Aکو آئین کو سارے آرٹیکل پر فوقیت دی گئی تھی دوسرے لفظوں میں اس کو Supra Constitutional قرار دیا گیا تھا ۔ یہ وہ اقدام تھا جس سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کورٹ نے آئین کے خلاف شب خون جیسی کوشش کی تھی جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس بینچ کی ججمنٹ جسٹس نسیم حسن شاہ نے لکھی تھی اور یہ کہا تھا کہ اگر آرٹیکل 2A کو Supra Constitutional کہا جائے گا تو پورے کا پورا آئین بھسم ہوکر وہیں گر جاتا ہے۔ اور یہ تھا وہ ہتھیار جو بعض لوگ اپنا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے اور بہت سے طالبان والی سوچ رکھنے والے۔ جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس رمدے سے یہ امید رکھتے تھے کہ وہ بالآخر ایسا کریں گے۔ ایسے لوگ یہ بھی کہتے تھے آرٹیکل 2Aمیں یوں کہیے کہ قرارداد مقاصد ہی دراصل ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔

چار اگست کے فیصلے نے ایسے مہم جو لوگوں کی سوچ اور امید پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ ’’قرارداد مقاصد عوام کی will کا ترجمان نہیں کیونکہ ’’ہم پاکستان کے لوگ‘‘ کبھی 1949 میں آئی ہوئی قرارداد مقاصد کا حصہ نہ تھا اور نہ ہی قرارداد مقاصد جو 1956 کے آئین میں ابتدائیہ preambleکی صورت میں ڈالی گئی یا 1962 کے آئین میں ڈالی گئی اس کا بھی حصہ نہ تھا۔ ‘‘ دوسرے الفاظوں میں ضیا الحق کے ڈلے ہوئے آرٹیکل میں یہ حصہ غلط بیانی ہے۔ سپریم کورٹ کے چار اگست کے فیصلے سے آرٹیکل 2Aکا یہ حصہ یعنی “we the people of Pakistan” حذف ہوا ہوا اور اگر یہ ہوا تو یہ آئین کی تاریخ میں ایک بڑا انقلاب کہا جاسکتا ہے۔

دراصل بہت ساری چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے آئین کا یا ہمارے لیگل سسٹم کے پس منظر میں رول آف لا یا قانون کی حکمرانی سے کیا معنی نکلتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے؟ ہمارا آئین دنیا کے کون سے آئین سے رہنمائی لیتا ہے وغیرہ وغیرہ؟

Basic Structure Theory سے ہم دراصل موجودہ ممبران اسمبلی کو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ آئین ساز اسمبلی کی خودمختاری میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے ایک باریک سی لکیر ہے وہ اسمبلی جس کے پاس آئین کی تشکیل (frame)کرنے کا مینڈیٹ تھا اور وہ اسمبلیاں جو ایسے آئین میں ترمیم کرنے کا مینڈیٹ رکھتی ہیں نہ تو کورٹ اپنی تشریح کی پاور سے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں خلل پیدا کرسکتی ہے بلکہ ترمیم کرسکتی ہے۔ ترمیم کرنا پارلیمان کے اختیار میں ہے تو لیکن وہ اتنا بھی نہیں کہ آئین ساز اسمبلی کی بالادستی میں رخنہ ڈال کر ایک نیا آئین جنم دے بیٹھے۔ یہ بات دنیا نے مانی ہوئی حقیقت ہے کہ آئین بہت اوقات میں خانہ جنگی سے بنتے ہیں۔ (میں نہیں جاننا چاہتا ایک طویل آئینی تاریخ میں کہ ہمارا آئین کس طرح معرض وجود میں آیا کہ بحث لمبی اور اپنے مقصد سے ہٹ جائے گی)۔

قانون کی حکمرانی بقول Professor Raz کے معنی یہ ہیں کہ کسی بھی لیگل سسٹم کے اندر اچھے قوانین کا مجمع یا یوں کہیے کہ جسے کسی بھی لیگل سسٹم کا Finnis کہتے ہیں کہ وہ پہلے اچھی حکمرانی کو یقینی بنائے اور اگر حقیقت پرست ہو کے بھی قانون کی حکمرانی کی بات کی جائے تو کسی بھی ملک کا آئین اور اس آئین کے پس منظر میں اعلیٰ عدالتوں کے کیے ہوئے فیصلے جس کو doctrine of precedence بھی کہا جاتا ہے، ہوئی ہے اس طرح یہ کورٹ ظفر علی شاہ کیس سے انحراف نہیں کرسکتی۔اور اس طرح ہم اپنے پڑوسی ممالک میں جیساکہ سپریم کورٹ آف انڈیا، بنگلہ دیش، امریکا یا یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے آئین کا Origin مغرب کے آئین سے آیا ہے۔ ہمارا آئین سائنسی ہے وہ تحریری آئین ہے نہ کہ برطانیہ کے غیر تحریری آئین کی طرح ہے ، پھر دیکھئے کہ کن انداز میں برطانیہ کے آئین پر بھی Doctrine of Implied Limitation لاگو ہوتی ہے۔

ہمارے آئین میں ضیا الحق نے بہت بگاڑ پیدا کیے چلو چار اگست کے فیصلے نے ضیا الحق کے ڈالے گئے جھوٹ جو انھوں نے آرٹیکل 2A میں ڈالا کیا “We the people of Pakistan” کو تو نکالا اور اس طرح ایک ماڈرن ریاست کے ہونے کے راستے نکلے۔

لیکن چار اگست کے فیصلے کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے ۔ وہ یہ کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے بھاری مینڈیٹ کے زعم میں جو جنرل مشرف پر غداری کا مقدمہ آرٹیکل 6 کے تحت چلانے کی کوشش کی اس نے سول و ملٹری تعلقات میں بھیانک بگاڑ پیدا کیا ۔ بات دھرنے تک گئی کیونکہ مینڈیٹ پر اعتراضات اٹھتے تھے۔ اور پھر اس دھرنے کے رخ کو PNA کی تحریک کی طرح کچھ لوگوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ۔ اور اس طرح پارلیمنٹ کی رٹ کمزور ہوگئی ، مقدمہ مشرف کا ادھر ختم ہوا ادھرحکومت پیچھے ہٹ گئی ۔ بال سپریم کورٹ کے پاس آئی اور کورٹ نے 21 ویں ترمیم پر آنکھیں بند کرلیں مگر بنیادی ڈھانچے والا حصہ برقرار رکھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔