اسلم بیگ مداخلت نہ کرتے تو 12اکتوبر ہوتا نہ 3نومبر، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس / بی بی سی  جمعرات 18 اکتوبر 2012
ایوان صدر میں ستمبر 2008سے کوئی سیاسی سیل نہیں، بیان جمع، وزارت دفاع سے 8کروڑ کا حساب طلب، سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنیوالے بریگیڈیئر کی آج پھر طلبی۔ فوٹو: فائل

ایوان صدر میں ستمبر 2008سے کوئی سیاسی سیل نہیں، بیان جمع، وزارت دفاع سے 8کروڑ کا حساب طلب، سیاستدانوں میں رقم تقسیم کرنیوالے بریگیڈیئر کی آج پھر طلبی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ایوان صدر نے سیاسی سیل کے حوالے سے جواب جمع کرادیا ہے۔

جب کہ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سابق آرمی چیف اسلم بیگ اپنے دور میں سیاست میں مداخلت نہ کرتے توسانحہ12اکتوبرہوتانہ3نومبر۔ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کے مشہور مقدمے اصغر خان کیس کی سماعت چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہ میں 3رکنی بینچ نے کی۔

بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے مطابق سیکریٹری ایوان صدر آصف حیات نے جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ 2008ء کے بعد ایوان صدر میںکوئی سیاسی سیل موجود نہیں تاہم عدالت کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ 90کی دہائی میں الیکشن کی نگرانی کے لیے سیل موجود تھا لیکن اس کی تفصیلات اور فائلیں ایوان صدر کے ملٹری سیکریٹری کے پاس ہیں جو صدر کے ساتھ بیرون ملک دورے پر گئے ہوئے ہیں۔ آصف حیات نے کہا کہ ملٹری سیکریٹری کی واپسی پر ہی ان فائلوں کا مطالعہ کرکے کچھ کہا جاسکے گا۔

عدالت میں سابق آرمی چیف اسلم بیگ کا بیان حلفی پڑھ کر سنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ سابق صدر اسحق خان کے دور میں ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود تھا جہاں سے سیاسی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا تھا۔ اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے حامی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اسلم بیگ اس بات کا پہلے ادراک کرلیتے تو نہ 12 اکتوبر ہوتا نہ 3 نومبرکی ضرورت پڑتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسلم بیگ کو بطور آرمی چیف ایسی سیاسی مداخلت سے گریز کرنا چاہیے تھا کیوں کہ یہ جرنیلوں کے اپنے حلف کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم اسد درانی اور اسلم بیگ کا انفرادی فعل تھا، فوج کے ادارے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ایوان صدر میں بیٹھے شخص کو کسی سیاسی گروپ کی حمایت نہیں کرنی چاہیے آئین کے تحت صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے کسی سیاسی پارٹی کا نہیں، ماضی میں صدر اسحاق خان نے بادی النظر میں اپنے حلف کی نفی کی۔ سماعت کے دوران ایوان صدر کے سیکریٹری ملک آصف حیات نے عدالت میں جواب جمع کراتے ہوئے بتایا کہ صدر کے ملٹری سیکریٹری بیرون ملک ہونے کے باعث حاضر نہیں ہوسکے۔

صدر زرداری ستمبر2008ء میں آئے اس سے پہلے کیا ہوتا رہا علم نہیں تاہم عدالت نے 90ء کے سیاسی سیل کے بارے میں دوبارہ جواب طلب کرلیا۔آصف حیات نے کہا کہ اب تک کا دستیاب ریکارڈ فراہم کردیا ہے، مزید بھی ملے گا تو عدالت کے حوالے کر دیا جائے گا۔ سیاستدانوں میں مبینہ رقوم کی تقسیم کے ذمے دار ایم آئی کے سابق سربراہ بریگیڈیئر حامد سعید طبیعت کی خرابی کے باعث پیش نہ ہوسکے جس پر عدالت نے انھیں (آج) جمعرات کو پیش ہونے کا دوبارہ نوٹس جاری کردیا۔ اس دور ان رجسٹرار نے بتایا کہ حامد سعید نے جمعرات کو پیش ہونے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

آن لائن اور این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اسلم بیگ کو بطور آرمی چیف سیاست میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے تھا۔جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم اسد درانی اور اسلم بیگ کا انفرادی فعل تھا، فوج کے ادارے کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔سابق آرمی چیف اسلم بیگ کے وکیل اکرم شیخ نے بتایا کہ اسد درانی کی مطابق یونس حبیب نے مختلف اکائونٹس میں14کروڑ جمع کرائے، 8کروڑآئی ایس آئی کے کراچی اکائونٹ میں ایکسٹرنل انٹیلی جنس کیلیے جمع ہوئے، 6کروڑ روپے کے انٹرنل انٹیلی جنس اور انتخابی اخراجات آئے جس پر عدالت نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ جو رقم تقسیم نہیں ہوئی اور اکائونٹس میں رہی وہ کہاں گئی؟

جس پر اصغر خان کے وکیل سلمان راجہ نے بتایا کہ یہ معلومات وزارت دفاع سے مل سکتی ہیں۔ چیف جسٹس نے تقسیم نہ ہونیوالے 8کروڑ روپے سے متعلق وزارت سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاکہ قوم کا پیسہ کسی کو دینے کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے؟۔ تمام بیانات کا جائزہ لیں تو یہ کیس بہت آسان ہوگیا ہے اور (آج ) جمعرات تک کیس کی سماعت مکمل کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اصغر خان 65ء کی جنگ کے ہیرو ہیں، قوم کے دفاع پر ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ غلام اسحاق خان کو تمام معاملے سے آگاہ کیا جاتا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت (آج) جمعرات تک ملتوی کر دی۔سماعت کے دوران نیب کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ یونس حبیب سے 3 ارب روپے لینے کی پلی بارگین ہوئی اس میں سے ایک ارب 70 کروڑ روپے واپس کردیے باقی رقم وصول کرنا باقی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پوری رقم کیوں وصول نہیں کی گئی اکرم شیخ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رقوم کی تقسیم کے لیے ہدایات ایوان صدر سے جاری ہوتی تھیں اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی کو چھوڑ کر توجہ صدر ہائوس پر مرکوز کی جائے۔ اکرم شیخ کو عدالت نے آج تک دلائل ختم کرنے کی ہدایات کی اور اٹارنی جنرل آج سے اپنے دلائل کا آغاز کریںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔