کیوں بہرے بنے ہوئے ہیں!

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 12 اگست 2015

ہم سب خو ف کے مارے ہوئے ہیں۔ نہ تو ہمیں اپنے آپ پر یقین ہے اور نہ ہی اس بات پر کہ ہم اپنے خیالات خو د بد ل سکتے ہیں جو کچھ بھی تھوڑا بہت ہمارے پاس باقی بچ گیا ہے ہم کسی صورت بھی اسے داؤ پر لگانا نہیں چاہتے اور ساتھ ساتھ اس شرمناک جھوٹ پر یقین کیے بیٹھے ہیں کہ یہ ہی ہمارے نصیب میں لکھا ہوا ہے یہ ہی ہمارا مقدر ہے۔

ترکی کے شاعر ناظم حکمت نے اپنی نظم میں لکھا ہے ’’جس لمحے تم نے جنم لیا انھوں نے تمہارے چہار سو ایسی چکیاں لگا دی ہیں جو جھوٹ پیستی ہیں ایسے جھوٹ جو تمہارے ساتھ زندگی بھر رہ سکیں‘‘۔ چاڈوک کہتا ہے ’’اگر انسان یہ سوچے کہ حالات ناقابل برداشت ہیں اور یہ دیکھے کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اگر وہ مسائل کا کوئی حل دیکھتا ہے تو اس نظام کو الٹ دیتا ہے کہ جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے ’’16 ویں اور سترھوں صدی میں بادشاہوں اور آمروں نے پوری دنیا کے وسائل پر قبضہ کر کے کروڑوں انسانوں کو معاشی و سیاسی آزادی سے محروم کر دیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور دلیل کے دور کا آغاز ہو گیا۔

لوگ سماج کو بدلنے والے معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق کا مطالبہ کرنے لگے قدامت پسند خیالات ہر جگہ شکست سے دوچار ہو نے لگ گئے اور یورپ کے لوگوں نے ایک نئے انداز سے رہنے کا ڈھنگ سیکھنا شروع کر دیا اور وہ یہ جان گئے کہ انسان اپنی شخصیت اور وجود کا تعمیر کندہ ہے۔ یورپ میں بسنے والے لاکھوں افراد جنہیں دھرتی کے نظر انداز بچے کہا جاتا تھا اپنی عظمت کے لیے اکھٹے ہو گئے اور یہ ثابت کر نے لگے کہ انسان تدبیر کے ذریعے اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔

1848 میں نفر توں کا آتش فشاں پھٹ پڑا سارا یورپ انقلابی لہر کی لپیٹ میں آ گیا سب سے پہلے انقلاب سسلی میں پھوٹا۔ قابل نفرت یاریون بادشاہ فرڈینڈ دوئم جو انقلابی تحریکوں کو کچلنے میں شہرت رکھتا تھا وہ اپنے تا ج و تخت سے محروم کر دیے جانے کی فکر میں تھا اور بڑی عجلت کے ساتھ کئی ایک رعایتیں دینے کو تیار ہو گیا تمام رجعت پرست وزراء کو دستبردار کر دیا گیا اور نئے آئین کا وعدہ کیا گیا 24,22 فروری کو فرانس میں انقلاب اٹھ کھڑا ہوا ایک معمولی سا واقعہ ہزاروں مزدوروں کو سٹرکوں پر لے آیا اس سے پہلے کہ کئی قصبوں پر انقلابیوں کا قبضہ ہو جاتا زبردست نا کہ بندی کر دی گئی گیوزٹ جو اس انقلاب کو چائے کی پیالی میں انقلاب کہہ رہا تھا وہ آخر کا ر فرانس سے بھاگ جانے پر مجبور ہوا۔

وہ بھی ایک عورت کے روپ میں اگلے دن لوئیس فلپ نے بھی ایسا ہی کیا فرانس کے باغی شاہی محل تور کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے 13 مارچ کو ویانا کی گلیوں کی ناکہ بندی کر دی گئی سٹرنچ بھاگ گیا بوڈا پسٹ اور پراگ میں بھی ویانا کی طرح ہوا اور جلد ہی آسٹریا کی کثیرالقومیتی حکومت انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں آ گئی ۔18 مار چ کو جرمنی میں بھی انقلابی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی اس کی کامیابی دراصل کئی ایک جرمن ریاستوں میں انقلابی تحریکوں کا باعث بنی ایک عظیم الشان انقلابی تحریک پورے اٹلی میں پھیل گئی لومیا رڈی میں باغی اطالیوں نے قابض آسٹریاؤں کو شکست دے دی اور مارسل راوئیے زکائے کو جد وجہد کے دوران بہت شہرت حاصل ہوئی۔

آسٹریا والوں کو وینٹیا سے نکال باہر کر دیا گیا جسے بعد میں ایک آزاد ریاست قرار دے دیا گیا انگلستان میں چارٹرسٹ تحریک اپنے زوروں پر تھی اسپین میں بھی انقلابی تحریک پھیل گئی سوئزر لینڈ اور بلجیم میں بھی یہ ہی صورتحال تھی پولینڈ والے ملک کی تقسیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے انقلابی تحریک پورے یورپ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی جونا قابل نفرت سیاسی حکومتوں اور با دشاہت کے زوال کا باعث بن رہی تھی محلات اور تحت و تاج لزر رہے تھے۔ طو فان کے آمد کی گونج صاف سنائی دے رہی تھی انسانیت کے دوبارہ پیدا ہونے کا نور اور حساب کتاب کے دن میں انسانی قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

پرانی امیدیں ایک بار پھر اٹھ کھڑی ہو گئی تھیں اور جرأت اس دور کا پیغام تھا۔ انقلاب فرانس نے فرانس اور بعد میں یورپ کے دیگر ممالک کے معاشروں کو یکسر پلٹ کے رکھ دیا اس نے جو زبان اور نعرے دیے وہ بعد میں آنے والے تمام انقلاب میں موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئے۔

آزادی، مساوات اور اخوت ان ہی تین نعروں نے غیر مراعات یافتہ اور کچلے ہوئے طبقات کو اپنی قسمت تبدیل پر اکسایا۔ آج یہی تین نعرے آزادی، مساوات اور اخوت آپ کو اور مجھے اپنی قسمت تبدیل کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر سے اور یورپ سے آنیوالی آوازوں کو کیوں نہیں سن رہے ہیں کیوں  بہرے اور انجان بنے ہوئے ہیں کیا ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے کیا ہمیں اپنے آپ پر رحم نہیں آتا ہے سنو یہ آوازیں ثبوت ہیں کہ ہم زندہ ہیں مردہ نہیں اگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کی تمام راحتیں، آسائشیں مسرتیں، خو شیاں، ہم پر کیوں حرام کر دی گئی ہیں اگر ہم بے گنا ہ ہیں تو دوزخ میں کیوں ڈال دیے گئے ہیں۔

اٹھو آؤ جھوٹ پیسنے کی تمام چکیاں مسمار کر دیں اپنے آنگن میں صدیوں سے جمع شدہ مسائل کے کوڑے کو آگ لگا دیں با دشاہ لوئی چہار دہم کہا کرتا تھا میں ریاست ہوں۔ آؤ ہم سب مل کر یہ نعرہ لگائیں کہ ہم ریاست ہیں۔ اس لیے کہ ہم اس ملک کے اصل مالک ہیں پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ دو چار لٹیرے جنہوں نے ہمیں دوزخ میں ڈال رکھا ہے کس طرح بھاگتے ہیں۔ یہ ناجائز قابضین کس طرح آپ سے اپنی جان بخشی کی بھیک مانگتے ہیں جو کہتے پھرتے ہیں کہ ہم ریاست ہیں آؤ کہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھیں جہاں سکون اور اطمینان ہو جہاں آزادی، مساوات، اور اخوت ہو جہاں ہر شخص اپنے دائر ہ کار میں خو ش ہو جہاں اخلاقی اقدار اپنی جڑیں پکڑی ہوئی ہوں جہاں کرپشن، لوٹ ما ر، عدم رواداری، عدم برداشت، بے ایمانی گناہ سمجھے جائیں۔

آؤ جرأت کرو اٹھو میرے گلتے سٹرتے، افلاس اور ذلتوں کے مارے ہم وطنو ہم نے ہی یہ فیصلہ کر نا ہے کہ ہمیں تاریخ بننا ہے یا تاریخ بنا نی ہے ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’میں سو چتا ہوں اس لیے میں ہوں‘‘ آئیں ہم بھی سوچیں اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اپنے ملک کے لیے اپنی قوم کے لیے ۔ آپ ہی وہ واحد فرد ہیں جو تبدیلی لا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔