نکاح مزید مشکل کیوں بن گیا؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 12 اگست 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کسی بھی ریاست کی پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی نمایندے عوام کے مسائل کے حل اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں، عوام بھی اپنے نمایندوں کو اسی لیے منتخب کر کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں۔

پاکستان کی صورتحال دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہاں شاید الٹا ہی کام ہو رہا ہے۔ ہمارے ایک دوست اکثر فرمائش کر تے ہیں کہ آپ سیاسی حالات پر بھی لکھا کریں، بھلا اس پر کیا لکھیں؟ ایک نئی جماعت ’انصاف ‘کے نام پر اٹھی، ڈی چوک پر مولاجٹ کی طرح مخالفین کو ملک دشمن کہکر للکارا اور پھر ’ڈی سیٹ‘ کے مسئلے پر ان ہی ( جن کو ملک دشمنوں کا خطاب دیا تھا) سے کرسی کی بھیک مانگی، اور دوسرے ہی لمحے صوبائی اسمبلی میں ان کے خلاف پھر غداری کی قرار داد پیش کر دی۔ ایسے موضوع پر لکھنے کے بجائے عوام کے حقیقی مسائل پر کچھ لکھ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ اس سے کم از کم عوامی مسائل اجاگر تو ضرور ہوتے ہیں۔

راقم نے آج ’نکاح‘ سے متعلق معاشرتی مسئلے کا انتخاب کیا ہے، بلا شبہ یہ ایک اہم معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے جس میں بظاہر اضافہ ہوتا ہی نظر آ رہا ہے، تاہم انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ہماری حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت تو کیا کی جاتی الٹا اس میں سنگین نوعیت کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور اس سنگین غلطی پر بجائے اس کا نوٹس لینے کے ہمارے منتخب نمایندوں نے ایوانوں میں بیٹھ کر خراج تحسین پیش کیا۔

جی ہاں! سندھ اور پنجاب کے ایوانوں سے اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کرنے پر پابندی کا بل ایک عرصہ ہوا پاس ہو چکا ہے جس کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی کرنے پر تین سال قید اور جرمانے کی سزا ہو گی اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔ اس سلسلے میں کوئی بھی شخص جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں شکایت درج کرا سکے گا۔ سندھ اسمبلی میں اس بل کی منظوری پر تحریک انصاف نے بھی اس بل کی مکمل حمایت کی اور دیگر جماعتوں نے بھی خوب حمایت اور تعریف کی۔

بات تو بظاہر بہت اچھی اور قابل تعریف ہی ہے کہ شاید اس بل کی منظوری کے بعد ہم اور روشن خیال اور معزز قوموں کے برابر آ گئے ہوں مگر کیا ہم نے کبھی اپنے معاشرتی مسائل خاص کر نکاح سے متعلق مسائل کا جائزہ لیا؟ کبھی نوجوانوں کے اس حوالے سے مسائل کا جائزہ لیا؟ کبھی مخلوط تعلیمی نظام کے مسائل کا جائزہ لیا؟ یا کبھی یہاں سے جو کچھ خبریں برآمد ہوتی ہیں ان کا جائزہ لیا؟ کسی بھی قانون کے نفاذ سے پہلے اس کے ہر اچھے اور برے پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے مگر افسوس ہمارے نمایندوں نے سطحی سا جائزہ لے کر یہ قانون بنا دیا، یا شاید کسی گورے کی خواہش پر سر تسلیم خم کر لیا۔

آیئے اس کا جائزہ لیں کہ پاکستان میں نکاح کے مسائل میں جہاں بیروزگاری اور جہیز جیسے مسائل پہلے ہی موجود ہیں اس قانون سے مزید کیا معاشرتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ایک گرلز اسکول کی استانی کا کہنا ہے کہ ساتویں کلاس میں ہی طالبات سن بلوغت کو پہنچ رہی ہیں جب کہ ہمارے ہاں تقریباً پانچ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں بچوں کا داخلہ ہوتا ہے یوں گویا پاکستان میں سن بلوغت کی عمر گیارہ سے بارہ سال کے قریب بنتی ہے چنانچہ غور کیجیے کہ پاکستانی معاشرے میں شادی کے قابل عمر کی حد گیارہ سے بارہ سال کو پہنچتی ہے جب کہ ہمارے نمایندے قانون پاس کر رہے ہیں کہ اٹھارہ سال سے پہلے شادی کی تو کرانے والے بھی اندر ہونگے اور یہ جرم ناقابل ضمانت ہو گا۔ غور کیجیے اس کا دوسرا مطلب کیا ہوا؟ یہی کہ فطری تقاضوں کے تحت نکاح کی ضرورت گیارہ سال کی عمر میں ہی شروع ہو گئی مگر آپ اس فطری ضرورت کو مزید سات سال تک دبا کر رکھیں گئے اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ دو سال کے لیے حوالات کے اندر ہونگے۔

جس طرح کھانا انسان کی ایک فطری ضرورت ہے ویسے ہی جنسی تسکین کے لیے نکاح ضروری ہے، کیا کوئی انسان کھائے پیے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ یا کسی انسان کو کھانا کھانے سے روکنا عقلمندی ہو گا؟ اگر نہیں تو پھر جنسی ضرورت قانونی طریقے سے پورا کرنے کے لیے کیوں کر روکا جائے؟ کیا یہ نوجوانوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف نہیں؟ سن بلوغت سے قبل شادی کرنا جرم قرار دیا جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر کسی بالغ فرد پر اس قسم کی پابندی کیا معنیٰ رکھتی ہے؟

یہ جوانوں افراد کے ساتھ کس قسم کی زیادتی ہے کہ جو سن بلوغت کو تو ساتوں جماعت میں پہنچ جائیں مگر نکاح کریں گریجویشن کے بعد؟ کیا کبھی قانون بنانے والوں اور اس کی منظوری دینے والے عوامی نمایندوں نے ہمارے مخلوط تعلیم دینے والے اداروں میں جا کر دیکھا ہے کہ اس حوالے سے وہاں کیا مسائل ہیں؟ کراچی کا ایک معروف اسکول جہاں ایلیٹ کلاس کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، نے کمرہ جماعت کا مخلوط نظام اس لیے ختم کر دیا کہ انتظامیہ نہ تو بچوں کو ’ غلط حرکتوں‘ سے روک سکتی تھی نہ ہی ان کے اثر و رسوخ رکھنے والے والدین سے نبرد آزما ہو سکتی تھی۔

پھر اسکول ہی کیا مخلوط تعلیمی نظام کے حامل کوچنگ سینٹرز میں کیا کچھ ہو رہا ہے، کالجز یا جامعات کے مخلوط ماحول میں کیا ہو رہا ہے سب کو معلوم ہے جس کو نہیں معلوم وہ یہاں کا صرف ایک چکر کاٹ کر بہت کچھ بغیر کسی تحقیق کے دیکھ سکتا ہے، ابھی گزشتہ ماہ ایک ٹی وی چینل نے خبر دی کہ کراچی کی ایک سرکاری جامعہ کہ فلاں شعبے کے کلاس روم کے باہر صفائی کے دوران شراب کی درجن بھر سے زائد خالی بوتلیں برآمد ہوئی ہیں۔

نئی نسل کوئی غلطی کرے تو اس سے شکوہ بجا، مگر یہ بھی تو غور کیا جائے کہ یہ نسل جو ساتویں جماعت میں نکاح کے قابل ہو رہی ہے، ہم اپنے گھروں میں نیٹ اور کیبل ٹی وی چینلز کے ذریعے رات رات بھر اس کی جنسی ضروریات کو اور ہوا دے رہے ہیں، پھر صبح اسے مخلوط ماحول میں اور بھی زچ کرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، پہلے وہ حالات سے بغاوت کرکے نکاح کا قانونی حق تو رکھتا تھا۔

اب ہم نے قانون سازی کر کے وہ حق بھی چھین لیا ہے البتہ اپنے معاشرے کے بالغوں کے لیے یہ حق غیر قانونی طریقے سے پورا کرنے کا ہی واحد راستہ چھوڑا ہے۔ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اس قانون پر نوجوانوں کے حقوق کے حوالے سے سماجی تنظیمیں بھی آواز بلند کرتیں اور سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی، مگر حیرت انگیز طور پر سب نہ جانے کیوں خاموش، حتیٰ کہ مذہبی جماعتیں بھی خاموش، کوئی احتجاج نہیں حالانکہ یہ قانون آئین میں شامل قرار داد مقاصد کے بھی قطعی خلاف ہے اور اسلامی قوانین و تعلیمات کے بھی قطعی خلاف ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ اسلامی حکم کے مطابق بیٹی رات کو جوان ہو تو صبح اس کا رشتہ تلاش کرنے کی تگ و دو کرنی چاہیے، راقم کی قومی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔