انتہا پسندی سے پاک معاشرے کا قیام

مقتدا منصور  جمعرات 13 اگست 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

جس روز یہ اظہاریہ شایع ہونا ہے، اس کے گزشتہ روز قوم69واں یوم آزادی یاآزادی کی68ویں سالگرہ منائے گی۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ہے۔ چوتھی نسل پیدا ہوجانے کے باوجود ہم نہ تو اپنا قومی تشخص ترتیب دے سکے ہیں اور نہ ہی ریاست کے منطقی جواز کو کوئی واضح سمت دے سکے ہیں ، جب کہ کامیابیوں اورکامرانیوں کے مقابلے میں ملک کئی بھیانک سانحات اور شکست و ریخت کے بدترین عمل سے ضرور گزرا ہے۔ لہٰذا ایک اظہاریہ میں69برس کے دوران رونماء ہونے والے واقعات کا احاطہ خواہ انتہائی اختصار کے ساتھ ہی کیوں نہ کیا جائے، مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اس اظہاریہ کا موضوع کیا ہوکہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان(HRCP) کی جانب سے ایک کتاب ملی، جس کے ساتھ حسین نقی کا رقعہ بھی منسلک تھا جس میں اس کتاب پر اظہار رائے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی، حسین نقی کا کہا حکم کا درجہ رکھتا ہے،کیونکہ وہ میرے لیے فکری اتالیق کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ اس طلبہ تنظیم NSF کے مرکزی رہنما رہے ہیں، جس کا میں بھی کبھی ایک ادنیٰ کارکن رہا ہوں ۔ ان کے علاوہ آئی اے رحمان اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ فکری و نظریاتی قربت اور HRCP کی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد،اس تنظیم کے ساتھ میری وابستگی کا سبب ہے۔

نئی نسل کے بہتر مستقبل اور ان کے خوشگوار حال کے بارے میں سوچنا تو دور کی بات، ہم اور ہمارے بزرگوں نے اپنی نسل کی بہتری کے بارے میں بھی کبھی سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچا۔ وگرنہ آج ہم نہ تو اس فکری ابتری کا شکار ہوتے اور نہ ہی یہ ملک اس طرح توکل من اللہ چل رہا ہوتا۔ البتہ کچھ درد مند لوگ مستقبل کی فکر میں ضرور ہلکان ہوتے ہیں، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند انھیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ طے ہے کہ اگر ہمارے حکمران ذہنی اور فکری طور پر مستعد ہوتے اور انھیں نئی نسلوں کا مستقبل عزیزہوتا، تو قصوروالاواقعہ رونما نہ ہوتا لیکن ہم جانتے ہیں کہ جب کوئی سانحہ ہوجاتا ہے،تو کچھ عرصے کے لیے شور وغوغا ہوتا ہے، پھر وہی سکوت۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی سطح پر بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوئی دیرپا اور پائیدار منصوبہ بندی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاستی مقتدرہ اپنے اطراف میں ہونے والے سنگین جرائم سے بے خبر مسلسل اقتدار کے کھیل میں مصروف رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی گروہ معصوم بچوں کو ورغلا کر انھیں خود کش حملہ آور بنا دیتا ہے ۔ کبھی بچوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور بلیک میلنگ کے واقعات سامنے آتے ہیں، جب کہ چائلڈ لیبر ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان نے چائلڈ لیبر کے کنونشن(182)پر دستخط کرتے ہوئے ان کی توثیق کی ہے۔ اسی طرح 1973ء میں منظور ہونے والے کم سے کم عمر کے کنونشن پر بھی کوئی عمل نہیں ہورہا ہے۔ حالانکہ پاکستان تحریری طور پر یہ واضح کرچکا ہے کہ پاکستان میں چائلڈ ایج کی آخری حد 14برس ہوگی۔ مگر 8-10برس عمر کے بیشماربچے مختلف نوعیت کی بدترین چائلڈ لیبر میں مصروف ہیں۔

بے حسی کے اس ماحول میں انسانی حقوق کمیشن(HRCP) نے’’ آنے والی نسلوں کے لیے انتہا پسندی سے پاک پرامن معاشرے کا قیام‘‘ نامی کتاب شایع کرکے اہل وطن کو خواب خرگوش سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں کل 9 ابواب ہیں۔ ہر باب میں 5سے6مضامین شامل ہیں۔ پہلے باب میں انسانی حقوق کی تحریک کے پس منظر اور ارتقاء کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں انسانی حقوق کے جمہوریت اور معاشی ترقی کے ساتھ تعلق پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں انتہا پسندی کے پھیلاؤ اور انسداد میں ریاستی کردار کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ چوتھا باب مزید اہم ہے، کیونکہ اس میں انتہا پسندی کے فروغ میں میڈیا کے کردار کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ پانچویں باب میں تعلیم کے مقاصد جب کہ چھٹے باب میں انتہا پسندی، عوامل اور اثرات کا کھل کر احاطہ کیا گیا ہے۔ ساتویں باب میں بین المذاہب ہم آہنگی اور عدم برداشت کے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ آٹھویں باب میں مختلف مذاہب میں انسانی حقوق کے تصور اور نویں باب میں انسانی حقوق کے نفاذ اور فروغ میں سول سوسائٹی کا کردار پر بحث کی گئی ہے۔

دیگر موضوعات سے صرف نظر کرتے ہوئے، ہم اپنی توجہ صرف چوتھے باب تک محدود رکھنا چاہیں گے کیونکہ اس باب میں انتہا پسندی کے انسداد یا فروغ میں میڈیا کے کردار پر بات کی گئی ہے۔ اس باب میں پانچ مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون جنوبی ایشیا میں میڈیا اور صحافت کے لیے صنفی مساوات سے متعلق منشور ہے۔ دوسرا حفیظ بزدار کا مضمون ’’فکر کے زاویے‘‘ ہے۔ تیسرا مضمون انتہاپسندی کے انسداد یا فروغ ہے جو امجد علی کا تحریر کردہ ہے۔ چوتھا مضمون، پنجاب شفافیت اورمعلومات تک رسائی (ٹی آرٹی آئی)کا ایکٹ 2013ء۔ پانچواں مضمون آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کا ضابطہ اخلاق۔ لیکن حفیظ بزدار کے مضمون ’’فکر کے زاویے‘‘ میں اٹھائے گئے سوالات میں سے چند کو نقل کرنا چاہیں گے جو ذرایع ابلاغ کے حوالے سے بعض اہم اور فکر انگیز معاملات کا احاطہ کرتے ہیں۔ مثلاً کیا ہمارا میڈیا اپنے فرائض ذمے داری سے ادا کر رہاہے؟کیا لال مسجد اور عدلیہ بحالی تحریک کی رپورٹنگ میں بازی لے جانے کی خاطر صحافت کے بہت سے اصول اور اخلاقیات نظر انداز نہیں ہوئے؟کیا کسی رپورٹر یا تبصرہ نگار کوکسی بھی سانحہ کو اپنی خواہش اور سوچ کا رنگ دے کر پیش کرنے کا حق ہے؟ کیا میڈیا نے بعض بیانات کو سیاق وسباق سے جدا کر کے جنونیوں کواکسانے کا کام نہیں کیا؟ یہ اور ان جیسے دیگر کئی سوالات ایسے ہیں، جو ملک کے قلمکاراور متوشش شہری اکثرو بیشتر اٹھاتے رہے ہیں مگر ان پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ہم نے اپنے اظہاریے میں اسی نوعیت کے کئی سوالات اٹھائے تھے اور ساتھی صحافی دوستوں سے استدعا کی تھی کہ وہ کسی بھی واقعے یا سانحے کو اپنی خواہشات اور تصورات کا رنگ دینے سے گریز کریں۔ کیونکہ اس طرح مختلف نوعیت کی عصبیتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ خاص طور پر ذرا سی غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ کمیونل یا لسانی عصبیتوں کو متشدد شکل دینے کا سبب بن جاتی ہے ۔ یہاں2002 میں بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے کمیونل فسادات میں رپورٹر کی لغزش کا تذکرہ ضروری ہے۔ ان فسادات میں کم وبیش20ہزار کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے۔ اربوں روپے کی املاک خاکستر ہوئی۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ گھائل ہوئے۔

واقعے کا سبب گجراتی چینل کے رپورٹرکی ایک رپورٹ بنی، جس میں مذکورہ رپورٹر نے گودھرا اسٹیشن پر کھڑی ٹرین کی دو بوگیوں میں لگنے والی آگ کی ابتدائی رپورٹ دیتے ہوئے بعض ایسے اضافی جملے کہے جو فسادات کا باعث بنے۔ جملے یہ تھے، ’’گودھرا اسٹیشن پر کھڑی ٹرین کی دو بوگیوں میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ ٹرین میں متھرا سے یاتری آرہے تھے۔ اسٹیشن کے قریب ہی مسلمانوں کی بستی ہے۔‘‘رپورٹ کے آخری جملے یعنی’’ ٹرین میں متھرا سے یاتری آرہے تھے اور اسٹیشن کے قریب ہی مسلمانوں کی بستی ہے‘‘ وہ اضافی جملے تھے جو پوری گجرات ریاست کوفسادات کی آگ میں دھکیلنے کا باعث بنے ۔

قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی داستان آج منظر عام پر آئی ہے مگر وطن عزیز میں بچے اس سے زیادہ خوفناک زیادتیوں کا ہر روز شکار ہوتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں کی عدم توجہی اور والدین کی بے شعوری کے سبب ملک کا ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر قریہ معصوم بچوں کے لیے جہنم بنا ہوا ہے۔ کہیں وہ اسکولوں کا رخ کرنے کے بجائے کم عمری میں محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ کہیں ان کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے اور بقیہ عمر نفسیاتی مریض کے طورگذارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کہیں انھیں جنت میں جانے کا جھانسا دے کر خود کش حملہ آوربنایا جا رہا ہے مگر آنے والے کل اس ملک کی ذمے داریاں سنبھالنے والی نسل کو ایک صحت مند تعلیم یافتہ زندگی مہیا کرنے اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کسی بھی جانب سے کوئی عملی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ حکمران نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ اور بہتر بنانے کے لیے کسی قسم کی ٹھوس ،پائیدار اور دیرپا حکمت عملی بنانے میں 68 برس گذر جانے کے باوجود ناکام ہیں۔

لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ ہر روز اٹھنے والے نت نئے سوالات کے جوابات تلاش کرنے اور ملک کو درپیش مختلف نوعیت کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے حکمرانوں، منصوبہ سازوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا۔ انھیں سرد جنگ کی نفسیات سے باہر نکل کر آج کی دنیا کے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے مستعدی ،فعالیت اور Pro-activeرویوں کو اپنانا ضروری ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔