قوم کو درپیش مصائب و مسائل

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعرات 13 اگست 2015
advo786@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کی سرزمین وسائل سے مالا مال اور قدرت کی تمام نعمتوں سے مزین ہے یہاں کے باشندے اعلیٰ کارکردگی اور استعداد کار کے حامل ہیں۔ وافر افرادی قوت کے ساتھ ساتھ آبادی میں نوجوانوں کی شرح تناسب بھی بہت اچھی ہے۔ ان سب کے باوجود یہاں کے عوام مستقل طور پر مصائب و مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ اگر بڑے بڑے قومی مسائل و مصائب کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان میں سے اکثر خود پیدا کردہ ہیں جن میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کی نااہلی، لاپرواہی، مجرمانہ غفلت، ذاتی و سیاسی مفادات، ضد، انا، ہٹ دھرمی جیسے عوامل کارفرما ہیں۔

خارجہ، داخلہ، معاشی، معاشرتی اور دفاعی معاملات میں خرابی کی وجہ یہی عوامل نظر آتے ہیں جن کی ذمے داری براہ راست حکمرانوں، سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ صحت و صفائی، تعلیم، سماجی انصاف، عزت نفس، جان و مال کا تحفظ جو ریاست کی کلیدی ذمے داری ہے، عوام ان سے محروم اور بے خبر ہیں اکثر لوگ انھیں مملکت کی ذمے داری بھی نہیں سمجھتے ہیں اور اسے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر بنیادی سماجی سہولیات سے محروم علاقوں میں غیر انسانی و غیر صحت مندانہ ماحول میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں اس کے برعکس اشرافیہ کو تمام سہولیات میسر ہیں ان کی تقسیم، بندربانٹ، لوٹ مار اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے دست و بازو اور دفاع میں یک جاں و متحد اور مستعد نظر آتے ہیں۔

سیلاب، زلزلہ، سانحات سیاسی ہنگامہ آرائی اور امن و امان کی صورتحال سے بھی عام غریب یا متوسط طبقہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ قدرتی آفات و سانحات کے بارے میں تو یہ توجیہہ پیش کر دی جاتی ہے کہ یہ قدرت کی طرف سے ناگہانی آفات میں جس میں کوئی انسان کیا کر سکتا ہے لیکن تلخ حقائق یہ ہیں کہ اگر زلزلے کی صورت میں مرگلہ ٹاور گرتا ہے جس کی ناقص تعمیر اور خرابیوں کی شکایات بھی متعلقہ کنٹرولنگ اداروں کو کی گئی تھیں مگر ان پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی تھی جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد زندہ درگور ہو گئے تھے۔ اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس بلڈر ملک سے فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوا پھر اس کو پاکستان واپس لانے اور تحفظ فراہم کرنے میں کس کا ہاتھ ہے؟ غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی گئی؟ بلدیہ فیکٹری کے سانحے میں جو سیکڑوں مزدور زندہ جل کر ہلاک ہو گئے اس کے ذمے داران مالکان اور متعلقہ اداروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ لواحقین کو اب تک معاوضہ اور بعض کو ان کے پیاروں کی باقیات تک کیوں نہ مل سکیں؟

اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو مرگلہ کے مکین بھی آج بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کی طرح امید و یاس میں زندگی گزار رہے ہوتے۔ زلزلہ 2005ء کے متاثرین کی بحالی و آبادکاری کا کام آج تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پایا۔ سندھ کے پچھلے سیلاب کے متاثرین بھی آج تک داد رسی کے منتظر ہیں، تھر میں تو انسان اور حیوان دونوں کا مرتے رہنا معمول بن گیا ہے، کچھ وقت کے لیے اس قسم کے واقعات میڈیا، کانفرنسز و سیمینار وغیرہ میں موضوع بحث رہنے کے بعد نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہی روایت حالیہ سیلاب کے سلسلے میں بھی برقرار ہے، وقتی شور شرابے کے بعد میڈیا کو دوسرے موضوعات مل گئے ہیں اور سیلاب کی تباہ کاریاں پس پشت چلی گئی ہیں۔ سیلاب نے ایک مرتبہ پھر پورے ملک میں تباہی مچا دی ہے لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہزاروں مکانات سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں مرکزی شاہراہوں کے بہہ جانے کی وجہ سے چھوٹے شہروں کا ایک دوسرے سے زمینی راستہ بھی منقطع ہوا، پل بہہ جانے کی وجہ سے لوگ محصور و محبوس ہو کر رہ گئے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو گئیں۔

10 ہزار سے زائد ٹیوب ویل دریا برد ہو گئے گندم و دیگر اجناس کے ذخائر اور مال مویشی بھی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں، پاکستان میں مون سون اور بارشوں کے موسم میں کپاس کی فصل تقریباً تیار ہو چکی ہوتی ہے، جس کی تباہی سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ملک میں سب سے زیادہ زرمبادلہ اور روزگار کا وسیلہ بھی اسی کا مرہون منت ہے۔ ایک طرف زراعت کی تباہی اور دوسری جانب بجلی کی عدم فراہمی صنعت و تجارت اور روزگار کو بری طرح متاثر اور تباہی سے دوچار کر رہی ہے۔ ملک و قوم پر مرتب ہونے والے اس کے منفی اثرات آنے والے دنوں میں تادیر محسوس کیے جائیں گے۔ پانی کی قلت، بجلی کی عدم دستیابی اور سیلابی صورتحال تینوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اگر بروقت ڈیمز بنا لیے جاتے ان کی تعمیر میں ذاتی مفادات، انا پرستی، علاقہ پرستی اور سیاسی عزائم کی بجائے عظیم تر قومی مفاد مدنظر رکھا جاتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی کہ لوگ پانی کے لیے آپس میں لڑتے، کبھی پیاس اور گرمی سے مرتے کبھی پانی میں ڈوب کر جانیں گنواتے۔ کہیں یہ تمام مصائب و آلام ہماری کفران نعمت کی وجہ سے تو مسلط نہیں ہو رہے اس پر بھی ہم سب کو غور کرنا چاہیے۔

ہمارے گلیشیئر اور برسات بہتا ہوا تباہی مچاتا اربوں روپے کا پانی جو سمندر کی نذر ہو جاتا ہے اگر اس کے بارے میں صحیح منصوبہ بندی کر لی جاتی تو ہمارے پاس پانی کے ذخائر بھی ہوتے اور وافر و سستی بجلی بھی دستیاب ہوتی، ہماری بستیاں تاریک یا پانی میں ڈوبی نظر نہ آتیں۔ آج پاکستان میں فیصل آباد جیسے کئی مانچسٹر وجود میں آ چکے ہوتے ملک سے صنعتیں نہ اکھڑتیں، سرمایہ، ذہانت اور مہارت بیرون ملک نہ منتقل ہوتی۔

بارشیں بھارت میں ہوں یا پاکستان میں یا تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کا پانی یہ عظیم نعمتیں کسی ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے زحمتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہماری زراعت، انفرااسٹرکچر، معیشت اور آبادیوں کو مستقل خطرات لاحق رہتے ہیں ملکی معیشت کو ان سے جس قدر بھاری نقصان اٹھانا پڑتے اور پھر ان کی بحالی پر جس قدر وسائل خرچ کرنا پڑتے ہیں اگر یہی وسائل اور سرمایہ بروقت بہتر منصوبہ بندی پر خرچ کر دیے جائیں تو بہت سے بڑے بڑے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے نقصانات اور ہلاکتیں کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ملک کو مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی ادارے اس جانب توجہ دلا رہے ہیں ریڈ کراس کے مطابق 2025ء تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی 50 فیصد سے زائد آبادی سیلاب اور طوفانوں کے خطرات سے دوچار ہوگی۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اگر ابھی سے کوششیں اور پیشگی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو مستقبل میں نقصانات کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بارش کی چند بوندیں گرتے اورگرمی کی ایک لہر کے ساتھ ہی تھوڑی بہت دستیاب بجلی غائب ہو جاتی ہے، سیوریج سسٹم ناکارہ اور ٹریفک جام ہو جاتا ہے بجلی کے تعطل کے باعث کراچی شہر میں ہزاروں شہریوں کی ہلاکتیں ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہئیں۔ انسانی المیوں پر حکمرانوں اور سیاستدانوں کی پوائنٹ اسکورنگ، ایک دوسرے پر لعنت و ملامت اور الزامات کی روش اب ختم ہونی چاہیے۔

محض احکامات جاری کر دینا رپورٹیں طلب کر لینا، مصیبت زدوں کا فضائی جائزہ لینا، پانی میں اتر کر فوٹو سیشن کرانے اور محض بھل صفائی اور نالوں کی صفائی کی تشہیری مہم کی روایت کو ختم کر کے مبنی بر حقیقت طویل المدت عملی اور موثر اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ فلڈ ریلیف کمیشن، ڈی ایم اے اور دیگر ماحولیاتی ادارے جن پر اربوں روپے کا بجٹ خرچ کیا جاتا ہے ان کو فعال، مستعد اور کارکردگی کا حامل بنایا جائے۔ تربیلا ڈیم اپنی عمر تقریباً پوری کر رہا ہے لہٰذا پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے عصبیت، علاقائی، ذاتی و سیاسی مفادات چھوڑ کر نئے ڈیمز تعمیر کرنے، جھیلوں، آبی ذخائر، نہری و آب پاشی کے نظام کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کر کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا اور ملکی معیشت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔