اب میں کیا کروں؟

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 15 اگست 2015

ہوشیار پورکے لوگوں کو یہ بات کسی دانا شخص نے نہیں سمجھائی ہے بلکہ یہ بات انھوں نے وقت اور اپنے تجربے سے سیکھی ہے کہ کبھی بھی زیادہ ہوشیاری مت دکھانا،کیونکہ جب آپ زیادہ ہوشیاری دکھا رہے ہوتے ہیں تو پھرکچھ ہی دیر بعد آپ چاروں شانے چت سٹرک کے بیچوں بیچ پڑے یہ کہتے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں کہ ’’ہن میں کی کراں۔‘‘ اسے ہماری خوش نصیبی ہی کہیں گے کہ ہماری سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ہی ہمیں کچھ زیادہ ہی ہوشیار نصیب ہوئے ہیں اور وہ ہمیشہ زیادہ ہوشیاری کا مظاہرہ کرنے کے بعد چاروں خانے چت یہ ہی کہتے سنائی اور دکھائی دیے ہیں کہ’ ہن میں کی کراں ‘ آج کل بھی ہمارے کچھ زیادہ ہی ہوشیار سیاست دان اسی زیادہ ہوشیاری کے انمول کرتب دکھانے میں مصروف ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ کب ماضی کے انمول الفاظ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔

اصل میں ان کا قصور زیادہ نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سیاست دان اس خوش فہمی کا مریض ہوچکا ہے کہ خدا نے صرف اسے ہی سپرمین بنایا ہے اور اس میں ہی ہر کام ہر بات کرنے کی مکمل صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھردی گئی ہیں اور اس سے زیادہ عقل مند اور دانش مند آدمی ملک میں تو چھوڑو ساری دنیا میں ملنا ناممکن ہے اور اس کے علاوہ باقی سب نرے جاہل،گنوار اورعقل سے پیدل ہیں ۔ یہ خوبی ہمارے سیاست دانوں میں تازہ تازہ پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ماضی قریب میں پیدا ہوئی ہے، اصل میں اس مرض کا شکار ہمارے سیاست دان پہلے ہی روز ہوگئے تھے اسی لیے انھوں نے وہ وہ حیرت انگیز اور حیران کن عمل اور اقدامات سر انجام دیے کہ آج تک دنیا ان پر عش عش کرتی ہے اور آج تک ان کی روحیں داد تحسین وصول کرتی رہتی ہیں لیکن ہمارے موجودہ سیاست دانوں نے تو اپنے بزرگوں کو اپنے کارناموں ،فیصلوں اور کرپشن میں اتنا پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ ہمارے بزرگوں کے کارنامے اب صرف خوابوں میں ہی دکھائی اور سنائی دیتے ہیں ۔

تانگ عہد کا ایک چینی وزیراعظم بادشاہوں کی برائیاں یوں گنواتا ہے جیتنے کو ترجیح، اپنی غلطیوں کا سن کر غصہ میں آجانا، اپنے اختیار میں اضافے اور اپنی مضبوط خواہش پر قابو پانے میں ناکامی ۔وہ بتاتا ہے کہ جب انھیں یہ جراثیم لگ جائیں تو پھر وہ لوگوں کی باتوں پرکان دھرنا بند کردیتے ہیں اور انتشار وافراتفری کے بیج پنپنا شروع کردیتے ہیں عموماً ہوتا یہ ہے کہ بہت سے سیاست دانوں کی نفسیات اچھی حکمرانی کے لیے موزوں نہیں ہوتی بعض سیاست دانوں کی طرف دیکھ کر تو محسوس ہوتاہے کہ ان کی تگ ودو کے پیچھے صرف وہ مجنونانہ مسرت کار فرما ہے جو وہ مسند اقتدار پر بیٹھ کر محسوس کرتے ہیں بعض لوگ لگتا ہے کہ بچپن کی کسی محرومی کو پورا کر نے کے لیے لیڈر بنتے ہیں، بہت سے لیڈر ایسے ہوتے ہیں جن کی والدہ یا والد ان کے بچپن میں ہی فوت ہوگئے ہوتے ہیں اور وہ اپنے سیاسی کیریئر میں محبت اور پہچان ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں بعض نامساعد حالات کی وجہ سے لیڈر بنتے ہیں، بعض اشخاص ایسے بھی اس میدان میں آٹپکتے ہیں کہ بظاہر جن میں قیادت کی کوئی قابلیت یا خوبی دکھائی نہیں دے رہی ہوتی ہے۔

کنفیوشس کا کہنا ہے کہ حکمرانی کا مطلب خود کو ٹھیک راستے پر چلانا ہے کیونکہ اگر آپ خود میں درستی پیدا کرکے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہوتو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ خود کو درست نہ کرے۔ جدید مغرب میں لیڈروں کی اخلاقیات کے بارے میں بہترین بات میکس ویبر کی ان خطبات میں ملتی ہے جو انھوں نے 1918-19 میں جنگ کے بعد کی افسردہ سردیوں میں دیے تھے اور جو بعد میںPolitiks als Beruf کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے ۔ جو معاشرہ اخلاق سے عاری ہوتا ہے وہ تباہ ہو جاتاہے۔ یاد رہے تاریخ کی ساری ناکامیاں اخلاقی ناکامیاں تھیں بیسویں صدی کے شروع میں امریکہ بدترین بحران کا شکار تھا ،پورے ملک کی دولت تین ماہ میں برباد ہو گئی۔

پیداوار میں77 فیصد کمی آگئی ایک چوتھائی لیبر فورس بے روزگار ہوگئی کئی شہروں میں اسکول بند کردیے گئے نیویارک کا یہ حال تھاکہ اکثر اسکولوں میں بچوں کو موزوں خوراک نہیں دی جاسکتی تھی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ساڑھے تین کروڑ افراد کسی بھی قسم کی آمدنی سے محروم تھے اس بدترین بحران میں بھی صدر روز ویلٹ اپنے ریڈیو پر نشر ہونے والے خطاب میں کہہ رہے تھے کہ خدا کا شکر ہے ہماری مشکلات صرف مادی ہیں اخلاقی نہیں۔ جب کہ دوسری جانب ہماری ساری مشکلات ہمیشہ اخلاقی رہی ہیں ہم 68 سالوں کے دوران اپنے اکثریتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی اخلاقی اقدار سے محرومی کی وجہ سے بدترین بحرانوں کا شکار ہوئے ہیں۔

تانگ عہد کے چینی وزیراعظم نے بادشاہوں کی جو برائیاں گنوائی ہیں بدقسمتی سے ہمارے اکثریتی سیاستدانوں میں وہ ساری کی ساری برائیاں جوں کی توں موجود ہیں، ہم قائداعظم کے بعد اقتدار میں آنیوالے حکمرانوں کے کردار پر نظردوڑائیں توہمارا سر شرم سے جھک جاتاہے۔ ان میں اکثریت احساس محرومی کا شکار نظر آتی ہے جو صرف اپنا احساس محرومی دور کرنے کے لیے صرف طاقت حاصل کرنے اور اپنے عیش و عشرت کی خاطر سازشیں کرکے اقتدار کے ایوانوں تک جاپہنچے انھیں نہ تو ملک کی کوئی پرواہ تھی اور نہ ہی عوام کی اور نہ ہی ان کا اخلاقیات سے دور دور تک کاکوئی واسطہ تھا ۔آج جب ہم اپنے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ماضی کے شرم ناک کردار آج پھر زندہ ہوگئے ہیں۔

قسمت کردار سے بنتی ہے لگتا ہے شکسپیئر نے ہمارے انھی اکثریتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے کہا تھا کہ اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ مت بناؤ جب کہ جون مارلے نے کہا ہے کوئی انسان اپنے کردار کی حدود سے زیادہ اونچی پرواز نہیں کرسکتا لیکن بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے ۔ آئیں ہم سب اپنے اپنے بند ذہنوں اور دلوں کے دریچے کھول دیں ،کیونکہ گوئٹے نے کہا کہ اچھے خیالات بے باک بچوں کی طرح اچانک اور یکایک سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور چلا چلا کر کہنے لگتے ہیں ہم یہاں ہیں ہم یہاں ہیں ۔اچھے خیالات ہمارے سامنے آکر چلا چلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں ،آئیں ہم انھیں اپنے دل اور دما غ میں رہنے کے لیے مستقل جگہ دے دیں پھر دیکھیں ہمارے سیاستدان ہمارے حکمران اور ہمارے عوام کس طرح خوشی ، مسرت اور سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ برا نہ ہونا بھی نیکی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔