کالے بھیدوں سے پردہ اُٹھانے کی سزا

احفاظ الرحمان / سید بابر علی  اتوار 16 اگست 2015
تین سال سے ایکواڈور کے سفارت خانے کا محاصرہ، وکی لیکس کے خالق پر کیا گزر رہی ہے؟۔ فوٹو: فائل

تین سال سے ایکواڈور کے سفارت خانے کا محاصرہ، وکی لیکس کے خالق پر کیا گزر رہی ہے؟۔ فوٹو: فائل

تین سال سے لندن میں ایکواڈور کا سفارت خانہ محاصرے میں ہے۔ پولیس ہر آنے جانے والے پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ یہ طاقت کا مظاہرہ ہے، حاکمانہ شان کا مظاہرہ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ آج بھی صادق آتا ہے۔ تہذیب کے سفر میں آدمی نے بہت آزادی حاصل کی ہے، لیکن غلامی، زور زبردستی، دہشت اور جبر کے اندھیرے اب بھی اس کا تعاقب کررہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس محاصرے کے اخراجات 12 ملین پاؤنڈ (ایک ارب، اسی کروڑ روپے) کی حد عبور کرچکے ہیں۔ جس دنیا میں لاکھوں، کروڑوں لوگ بھوکے مرتے ہوں، وہاں محض ایک شخص پر ’’قابو پانے‘‘ کے لیے اتنی بڑی رقم پُھونک ڈالنا عیاشی کے مترادف ہے۔ ایٹم بم جتنا یا شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک یہ آدمی جولین اسانج ہے، جسے ایک چھوٹے سے باہمت ملک نے اپنے سفارت خانے میں پناہ دے رکھی ہے، جہاں ایک کمرا اُس کی تحویل میں ہے۔ اس خطرناک آدمی پر سوئیڈن کی ایک عدالت میں ’’جنسی زیادتی‘‘ کے الزام میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ استغاثہ کے مطابق اسانج نے جرم کا ارتکاب 2010 میں کیا تھا۔ قانون کے مطابق اس سال 20 اگست کو مقدمے کی فعالیت ختم ہوجائے گی، کیوں کہ ابھی تک عملی طور پر مقدمے کی سماعت ہی نہیں شروع ہوئی۔اس لیے ماہرین کے مطابق استغاثہ کے کیس میں جان نہیں رہے گی۔ دراصل، بعض مصلحتوں کے پیش نظر استغاثہ مقدمہ چلانے سے گریز کر رہا ہے۔

سب جانتے ہیں، اسانج کا اصل جرم یہ ہے کہ اس نے جھوٹ کا بیوپار کرنے والی، دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا کو ناراض کردیا ہے۔ اس نے سفاک امریکی اسٹیبلشمینٹ کے اہم رازوں سے پردہ اٹھایا ہے، جو ’’وکی لیکس‘‘ کے عنوان سے پوری دنیا میں دُھوم مچا رہے ہیں۔ اسی لیے امریکا اسانج کا تعاقب کر رہا ہے۔ جب تک وہ اسے سزا نہیں دے گا، اسے چین نہیں آئے گا۔ ادھر اسانج کے اعصاب غیرمعمولی حد تک مضبوط ہیں۔ حال ہی میں ’’وکی لیکس‘‘ کی ویب سائٹ پھر فعال ہوگئی ہے اور اس پر امریکی کارستانیوں کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں امریکی سام راج نے خوف ناک ترین مظالم کیے ہیں۔ ہزاروں شہریوں کی ہلاکت، ابوغریب سے گوانتا ناموبے تک جبر کی بے شمار داستانیں، بہت سارے گھناؤنے جرائم، اس کے کھاتے میں درج ہیں۔ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت اس خدائی فوج دار کا ’’حق‘‘ بن چکا ہے۔ اس نے بین الاقوامی قوانین کی جس طرح دھجیاں اڑائی ہیں، اس کی تصویر اس کے ان سفارتی کیبلز میں نمایاں ہے، جو اسانج کی ’’وکی لیکس‘‘ پیش کر رہی ہے۔ اور اب وکی لیکس میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی جاسوس فرانس اور جرمنی کے صدور اور یورپ کے داخلی سیاسی اور اقتصادی اُمور سے مُنسلک سینیر افسروں کی ذاتی فون کالیں تک ریکارڈ کرتے رہے ہیں۔

امریکا کی لُغت میں کوئی بھی دھاندلی غیرقانونی یا غیراخلاقی نہیں ہے۔ چیلسی میننگ امریکا کی جیل میں 35 سال کی سزا کاٹ رہی ہے۔ وہ عراق کے ایک آرمی یونٹ میں انٹیلی جینس انالسٹ تھی۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے وکی ولیکس کو سات لاکھ کلاسیفائیڈ اور اَن کلاسیفائیڈ دستاویزات دی تھیں۔ اس جرم میں چیلسی امریکی جیل میں 35 سال قید کی سزا بھگت رہی ہے، جب کہ مقدمے کی سماعت سے قبل نظر بندی کے عرصے میں اسے ٹارچر بھی کیا گیا تھا۔ (دل چسپ بات یہ ہے کہ سزا سننے کے بعد اگلے دن چیلسی نے جواب تک بریڈلے میننگ کے نام سے زندگی بسر کر رہی تھی، انکشاف کیا کہ در اصل وہ عورت ہے، اور اب اسے چیلسی میننگ کے نام سے پکارا جائے)

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/Julian-assange.jpg

چیلسی کی عبرت ناک سزا سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر خود اسانج امریکی حکام کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ اس کے ساتھ کیسا خوف ناک سلوک کریں گے۔ نائب صدر جوبائیڈن نے کسی مقدمے سے قبل ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ اسانج ’’سائبر ٹیررسٹ‘‘ ہے۔ کوئی شبہہ نہیں، اسانج کے ساتھ بدترین سلوک کیا جائے گا۔ 2013 میں بولیویا کے صدر کا طیارہ محض اس شبہے میں زبردستی نیچے اتارلیا گیا تھا کہ اس پر اسنوڈن سوار ہے۔ اسنوڈن بھی ایک مطلوب مجرم ہے۔ وہ سی آئی اے کا ایک سابق ملازم ہے، اس نے اہم رازوں پر مشتمل ہزاروں دستاویزات میڈیا کے حوالے کردی تھیں۔ انکل سام بھڑک اٹھا، اس کا تعاقب شروع کردیا۔ روس نے اس کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ اسانج کا کیس کچھ اسی نوعیت کا ہے۔

الیگزینڈر یا، ورجینیا، میں ایک گرانڈ جیوری پانچ سال تک اسانج کے خلاف کوئی ایسی قانونی شق تلاش کرتی رہی ہے جس کے تحت اسے سزا دی جاسکے۔ لیکن امریکا کے آئین میں کی جانے والی ’’پہلی ترمیم‘‘ کی رُو سے پبلشروں، جرنلسٹوں اور whistleblowers کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس آئینی دشواری کے باعث امریکی حکام نے اسانج کے خلاف مقدمہ ’’جاسوسی، جاسوسی کے لیے سازش، سرکاری املاک کی چوری، کمپیوٹر فراڈ اور ہیکنگ کے الزام میں مقدمہ تیار کیا ہے۔ انھوں نے اسانج کے کیس کو ایک ’’اسٹیٹ سیکریٹ‘‘ بھی قرار دیا ہے، اس لیے اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

اس مقدمے میں وائٹ ہاؤس کے معاون کا کردار سوئیڈن نے انجام دیا۔ ایک عام یورپی ضابطے کے مطابق سوئیڈن کی وکیل استغاثہ میریان این وائی کو لندن جاکر اسانج پر جرح کرنی چاہیے تھی، جب لندن کی پولیس نے اسانج کو پہلی بار گرفتار کیا تھا۔ اس طرح مقدمے میں پیش رفت کا سلسلہ رک گیا، گویا مقدمہ خلاء میں معلق ہوگیا۔ ان کی منشاء بھی یہی تھی۔ میریان نے ابھی تک وضاحت نہیں کی کہ اس نے لندن جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ اس سلسلے میں اسٹاک ہوم اور واشنگٹن کے درمیان پہلے سے سب کچھ طے ہوچکا تھا، اور اس ملی بھگت کے بارے میں ایک خبر دسمبر 2010 میں مشہور اخبار ’’انڈی پینڈنٹ‘‘ میں شایع ہوچکی ہے۔

2010 میں اسانج جنگ افغانستان کے بارے میں وکی لیکس کے انکشافات پر گفتگو کے لیے سوئیڈن گیا تھا، جب اسے دو لڑکیوں کے خلاف جنسی زیادتی کے الزام میں پکڑ لیا گیا۔ وکیل استغاثہ نے اب تک یہ مقدمہ التوا میں رکھا ہے۔ لیکن بدنیتی ثابت ہوچکی ہے۔ واقعے میں ملوث ایک لڑکی کے فون سے سوئیڈن پولیس سیکڑوں SMSحاصل کرچکی ہے، لیکن وکیل استغاثہ نے ابھی تک یہ پیغامات اسانج کے سوئیڈش وکلاء کو فراہم نہیں کیے۔ سوئیڈش سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے کہ میریان مذکورہ اہم پیغامات کو خفیہ رکھ سکتی ہے۔ دراصل یہ پیغامات استغاثہ کا کیس کم زور کرتے ہیِں، کیوں کہ ان میں اس لڑکی نے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ اسانج کے خلاف کسی مقدمے کے حق میں نہیں ہے۔ جب اسانج کو گرفتار کیا گیا تو وہ ششدر رہ گئی، کیوں کہ وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ اسانج ٹیسٹ (ایچ آئی وی) کرالے۔ اس نے کہا، سارے الزامات ’’پولیس کے وضع کردہ‘‘ ہیں۔ دونوں لڑکیوں نے انکار کیا ہے کہ ان کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا۔ دوسری لڑکی نے تو صاف صاف ٹوئیٹر پر یہ پیغام ارسال کیا کہ ’’میرے ساتھ زنا بالجبر نہیں کیا گیا۔‘‘

20 اگست 2010 کو سوئیڈش پولیس نے اسانج کے خلاف دونوں لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں تحقیقات شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ اس کے پاس اسانج کی گرفتاری کے وارنٹ موجود ہیں۔ یہ خبر واشنگٹن پہنچی تو ڈیفینس سیکریٹری رابرٹ گیٹس نے مسکراتے ہوئے رپورٹروں سے کہا، ’’مجھے یہ خبر اچھی لگ رہی ہے!‘‘ اسی دوران پینٹاگون سے منسلک ٹوئیٹر اکاؤنٹس میں اسانج کو “Rapist” اور ’’بھگوڑا‘‘ قرار دیا گیا۔

کم و بیش 24 گھنٹے کے بعد اسٹاک ہوم میں چیف پراسیکیوٹر، ایوافن نے اسانج کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے اعلان کیا، ’’میرے نزدیک یہ شک بے بنیاد ہے کہ اس نے Rape کیا تھا۔‘‘ چار دن کے بعد ایوا نے تحقیقات کا سلسلہ یک سر منقطع کردیا اور کہا کہ ’’کسی جرم کا شک کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔‘‘

اس اثناء میں سوئیڈن کا ایک مشہور سیاست دان کلیس بورگ اسٹروم جو وکیل بھی ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرچکا تھا، منظر عام پر آیا۔ اس نے خود ہی اعلان کردیا کہ دونوں لڑکیوں کا کیس اب اس کے پاس ہے اور وہ ان کی طرف سے دوسرا پراسیکیوٹر مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ نئی پراسیکیوٹر میریان این وائی ہی تھی۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/Julian-assange1.jpg

30 اگست کو اسانج نے ایک پولیس اسٹیشن پر رضاکارانہ طور پر جاکر تمام سوالات کے جواب دیے۔ اسے گمان تھا کہ اب کیس ختم ہوچکا ہے۔ لیکن دو دن کے بعد میریان نے اعلان کردیا کہ وہ کیس دوبارہ کھول رہی ہے۔ یہ ایک انوکھا تماشا تھا۔ بورگ اسٹروم کو جب بتایا گیا کہ دونوں میں سے ایک لڑکی نے بیان دیا ہے کہ اس کے ساتھ زنا بالجبر نہیں ہوا۔ تو اس نے کہا، ’’اوہ، لیکن وہ (لڑکی) قانون داں نہیں ہے ناں!‘‘جس روز میریان نے اسانج کا کیس دوبارہ کھولا اسی دن اپنے ایک مضمون میں سوئیڈش ملٹری انٹیلی جینس سروس کے سربراہ نے کھلم کھلا کہا کہ ’’وکی لیکس ہمارے فوجیوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘‘ کہا جاتا ہے، سوئیڈش ملٹری انٹیلی جینس سروس کو امریکی انٹیلی جینس سروس متنبہ کرچکی تھی کہ اگر سوئیڈن نے اسانج کو پناہ دی تو ہمارے درمیان انٹیلی جینس شیئر کرنے کے انتظامات منقطع کردیے جائیں گے۔

پانچ ہفتے تک اسانج سوئیڈن میں نئی تحقیقات شروع ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ پھر اس کے وکیل نے سرکاری پراسیکیوٹر میریان سے پوچھا کہ اگر اسانج سوئیڈن سے جانا چاہے تو اسے کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ میریان نے کہا، ’’وہ آزاد ہے، جہاں چاہے جاسکتا ہے۔‘‘ لیکن جب وہ سوئیڈن سے رخصت ہوا تو اس وقت وکی لیکس کے نئے انکشافات نے دنیا بھر میں دھوم مچا رکھی تھی۔ اس کے جاتے ہی میریان نے اسانج کے خلاف ’’یورپین اریسٹ وارنٹ‘‘ اور انٹرپول ’’ریڈ الرٹ‘‘ جاری کردیا، جو دہشت گردوں اور خوف ناک مجرموں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔اسانج کو لندن میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے دس دن جیل میں قیدتنہائی میں گزارے اور پھر تین لاکھ چالیس ہزار پاؤنڈ کی ضمانت پر رہا ہوا۔ اسے گھر میں نظر بند رکھا گیا اور روزانہ پولیس کے سامنے حاضری دینے کا پابند کیا گیا۔ یوں لندن میں مقدمے کا آغاز ہوا، جو اپیلوں کے طویل سفر کے بعد سپریم کورٹ تک جا پہنچا۔ اس پر ابھی تک باقاعدہ طور پر کوئی فرد جرم عاید نہیں کی گئی۔ اس کے وکلاء بار بار درخواست دیتے رہے کہ سوئیڈن کی پراسیکیوٹر لندن آکر اسانج پر جرح کرے، لیکن ابھی تک اس کی نوبت نہیں آئی۔

’’ویمن اگینسٹ ریپ‘‘ کی ارکان، کیتھرین ایکسل سن اور لیزا لونگ اسٹائن نے کہا ہے کہ اسانج کے خلاف الزامات من گھڑت ہیں اور اس کے پیچھے مختلف حکومتیں کارفرما ہیں، جو اس بات پر برافروختہ ہیں کہ وکی لیکس نے ان کے خفیہ جنگی منصوبوں کو عیاں کردیا ہے۔ انھوں نے کہا، عورتوں کے خلاف جرائم پر ان حکومتوں کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اسانج واضح طور پر اعلان کرچکا ہے کہ وہ جرح کے لیے دستیاب ہے، پھر اس سے گریز کیوں کیا جارہا ہے، جب کہ جرح تحقیقات کا ایک لازمی ابتدائی حصہ ہے، یہ ایک معما ہے کہ میریان نے اسانج کے خلاف ’’یورپین اریسٹ وارنٹ‘‘ کیوں جاری کیا، جب کہ یہ وارنٹ ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی پیداوار ہے، اور دہشت گردوں اور منظم مجرموں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ وہ ابھی تک لندن کیوں نہیں گئی۔

مئی 2012 میں اسانج کا مقدمہ برطانیہ کی سپریم کورٹ میں پہنچا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یورپی پراسیکیوٹر کسی کی بے دخلی کے لیے برطانیہ میں یورپی اریسٹ وارنٹ جاری کرسکتے ہیں۔ عدالت سے ایک غلطی یہ ہوئی کہ اس نے اس معاملے کو ’’ویانا کنونشن‘‘ سے جوڑدیا۔ اسانج کے وکیل نے اعتراض کیا تو اسے مسترد کردیا گیا، یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں یورپی اریسٹ وارنٹ کے خلاف ایک اور اپیل میں اس فاش غلطی کو تسلیم کرلیا گیا۔ لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ اسانج کے وکلاء کو سوئیڈش پراسیکیوٹر نے بتایا کہ برطانیہ سے بے دخلی کی صورت میں سوئیڈن کی چند بدنام زمانہ جیلیں اسانج کا انتظار کررہی ہیں!!

یہ ایک فیصلہ کن گھڑی تھی۔ اسانج کو بجا طور پر خدشہ لاحق تھا کہ سوئیڈن کی حکومت اسے امریکا کے حوالے کردے گی۔ اسے پناہ کی تلاش تھی اور لاطینی امریکا کے بیش تر ممالک اس کے ہم درد تھے۔ آخرکار ایکواڈور کی بہادر حکومت نے اسے لندن میں اپنے سفارت خانے میں پناہ دے دی، جہاں وہ پچھلے تین سال سے تنہا زندگی بسر کر رہا ہے۔ اسے بار بار متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر اسے امریکا لے جایا گیا تو غیرمعمولی ظالمانہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت ساری مثالیں اس کے سامنے ہیں کہ امریکا کی ’’شان‘‘ میں بٹا لگانے والے کوجینے نہیں دیا جاتا۔ وہ آسٹریلیا کا باشندہ ہے اور وہاں کی حکومت بھی واشنگٹن سے گٹھ جوڑ کیے بیٹھی ہے، بلکہ اس نے تو اسانج کا پاسپورٹ واپس لینے کی دھمکی بھی دی ہے۔

امریکا اور اس کے حواری بین الاقوامی قوانین کا مذاق اڑاتے ہوئے ایکواڈور کی حکومت کو بار بار دھمکانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لندن میں ایکواڈور کا سفارت خانہ پولیس کے سخت محاصرے میں ہے، ایکواڈور کی حکومت واضح الفاظ میں سوئیڈش پراسیکیوٹرز کو پیغام دے چکی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو لندن میں ہمارے سفارت خانے میں آکر اسانج سے سوالات کرسکتے ہیں۔ تین سال کا عرصہ گزرچکا ہے، ان کا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ در اصل، وہ جرح نہیں کرنا چاہتے۔وہ کسی طرح اسانج کو برطانیہ سے بے دخل کر کے سوئیڈن یا براہ راست واشنگٹن پہنچادیا جائے، تاکہ امریکی درندے اس کو سبق پڑھا سکیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں اچانک پراسیکیوٹر میریان نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ لندن جاکر اسانج سے جرح کرنے کو تیار ہے، اس کے باوجود وہ ابھی تک لندن نہیں پہنچی۔20 اگست قریب ہے، جب مقدمے کی فعالیت ختم ہوجائے گی۔ لیکن مبصرین کی رائے میں اس کے بعد یقینا ایک اور تماشا شروع ہوگا۔ شاید سوئیڈش پراسیکیوٹر کوئی نیا کرتب دکھائیں۔ سب کچھ ممکن ہے، کیوں کہ پردے کے پیچھے انکل سام کا خوف ناک چہرہ جھانک رہا ہے۔ عظیم امریکا کی شان میں گستاخی کرنے والے کے آسانی سے جینے نہیں دیا جائے گا۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/08/Julian-assange2.jpg

وکی لیکس کے پاس ایک کروڑ سے زاید دستاویزات ہیں، جولین اسانج

دنیا میں حالات حاضرہ سے باخبر رہنے والے بہت کم افراد ایسے ہوں گے جو جولین اسانج کے نام سے ناواقف ہوں۔ پانچ سال قبل وکی لیکس پر شایع ہونے والی امریکا کی خفیہ فوجی اور سفارتی معلومات نے دنیا بھر کے ایوانوں میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ دنیا کے ساتوں براعظم وکی لیکس کے بحران سے اب تک نہیں نکل پائے۔ جرمنی کے ایک ہفت روزہ spiegel نے کمپیوٹر ہیکنگ، پروگرامنگ کے ماہر اور وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے ساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جس میں امریکا کے خفیہ نگرانی کے منصوبوں، وکی لیکس کے مستقبل، ایڈورڈ اسنو ڈین سمیت دیگر اہم امور پر گفت گو کی گئی۔

٭اسپیگل: مسٹر اسانج! وکی لیکس سعودی سفارتی مراسلے اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے جرمن اور فرانسیسی حکومت کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی خفیہ دستاویزات جاری کرکے دوبارہ منظر عام پر آگئی ہے۔ دوبارہ منظر عام پر آنے کے اسباب کیا ہیں؟

٭ جولین اسانج: وکی لیکس نے گزشتہ چند ماہ میں بہت سارا مواد شایع کیا ہے۔ ہم خفیہ دستاویزات اکثر و بیشتر جاری کرتے رہتے ہیں، لیکن بعض اوقات یہ معلومات مغرب کے بارے میں نہیں ہوتیں۔ وکی لیکس نے شام کے متعلق بھی کافی خفیہ معلومات شایع کی ہیں۔ آپ کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ ہماری امریکی حکومت سے یہ لڑائی 2010 میں امریکی خفیہ دستاویزات شایع کرنے کے بعد سے اب تک جاری ہے۔

٭اسپیگل: وکی لیکس اور آپ کے لیے اس لڑائی کا کیا مطلب ہے؟

٭ جولین اسانج : خفیہ دستاویزات شایع کرنے کے بعد ہم پر کئی کیسز بنائے گئے، ہمارے کردار پر کیچڑ اچھالی گئی، بینک اکاؤنٹ اور اثاثے منجمد کردیے گئے۔ وکی لیکس کی نوے فیصد آمدنی کم ہو چکی ہے۔ ہماری راہ میں حائل کی گئی یہ تمام رکاوٹیں غیرقانونی طریقے سے لگائی گئیں۔ ہم امریکی حکومت کے ان غیرقانونی اور غیرعدالتی ہتھکنڈوں کے خلاف عدالتوں میں گئے، جہاں ہم فتح یاب ہوئے اور اب لوگ ہمیں دوبارہ امداد دے سکتے ہیں۔

٭ اسپیگل: اس پورے عرصے میں آپ نے کن کن مشکلات کا سامنا کیا؟

٭جولین اسانج: ہمارے ٹیکنیکل انفرااسٹرکچر پر حملے کیے گئے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ تمام تر مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود ہم نے اپنے کسی ملازم کو نوکری سے نہیں نکالا ، ہم نے اُن کی تنخواہوں میں 40فی صد تک کمی کی۔ ہمارا حال کیوبا جیسا ہوگیا۔ اس دوران ہمیں اپنے ملازمین اور بہت سے گروپس کی مدد بھی حاصل رہی۔ خاص طور پر جرمنی کی Wau ہولینڈ فاؤنڈیشن نے پابندی کے دوران ہمارے لیے بہت عطیات جمع کیے۔ ان عطیات کی بدولت ہمیں نیا انفرااسٹرکچر بنانے میں مدد ملی، جو بہت ضروری تھا۔ میں نیشنل سیکیوریٹی ایجنسی (این ایس اے) کے لیے تقریباً بیس سال اشاعت کا کام کرچکا ہوں تو مجھے این ایس اے اور گورنمنٹ کمیونی کیشن ہیڈ کوارٹرز (جی سی ایچ کیو) کی بڑے پیمانے پر نگرانی کا علم تھا۔ اب ہمیں اپنے ذرائع کو محفوظ بنانے کے لیے نیکسٹ جنریشن سبمشن سسٹم بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم چند ماہ قبل اس سسٹم کو متعارف اور اسے اپنی پبلی کیشنز کے ساتھ مربوط بھی کرچکے ہیں۔

٭ اسپیگل : یعنی اب ہم مزید اہم دستاویزات کے شایع ہونے کی امید کر سکتے ہیں؟

٭ جولین اسانج: ہمارے پاس بہت زیادہ مواد ہے، لیکن معاشی لحاظ سے وکی لیکس کے لیے سب سے بڑا چیلینج یہ ہے کہ ہم پروسس کیے جانے والے مواد کے تناسب سے اپنی آمدنی بڑھا سکیں۔

٭ اسپیگل: نو سال قبل جب وکی لیکس کی بنیاد رکھی گئی اُس وقت آپ اس ویب سائٹ پر یہ پڑھ سکتے تھے:’’مقصد انصاف، طریقہ کار شفاف۔‘‘ یہ اٹھارہویں صدی میں جنم لینے والی روشن خیالی کا پرانا تصور ہے، لیکن اگر آپ سفاک سیاسی حکومتوں اور بڑے بے رحم اداروں کو دیکھیں تو کیا یہ سلوگن بہت آئیڈیالسٹک نہیں دکھائی دیتا؟ کیا شفافیت کافی ہے؟

٭ جولین اسانج: ایمان داری کی بات یہ ہے کہ میں مجھے یہ لفظ ٹرانسپیرینسی(شفافیت) پسند نہیں ہے، بے جان سرد شیشہ ہی شفاف ہوتا ہے۔ اس لفظ کی جگہ میں تعلیم یا سمجھ داری کو ترجیح دوں گا۔ یہ لفظ زیادہ جان دار ہیں۔

٭اسپیگل : دکھائی یہ دے رہا ہے کہ وکی لیکس کا کام کرنے کا طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔ ابتدا میں صرف خفیہ دستاویزات شایع کی گئیں۔ حال میں شایع کی گئی دستاویزات میں آپ نے ان کا سیاق و سباق بھی فراہم کیا۔

٭ جولین اسانج: ہم یہ کام شروع سے کر رہے ہیں۔ ذاتی طور پر میں خود ہزاروں صفحات کا تجزیہ لکھ چکا ہوں۔ وکی لیکس دنیا کی سب سے زیادہ دِق کرنے والی دستاویزات پر مشتمل عظیم الحبثہ لائبریری ہے۔ ہم ان دستاویزات کو اپنی لائبریری میں پناہ دیتے ہیں، ان کا تجزیہ کرتے ہیں، انہیں پروموٹ کرتے اور مزید دستاویزات حاصل کرتے ہیں۔ وکی لیکس کے پاس ایک کروڑ سے زاید دستاویزات اور ان سے متعلق تجزیے موجود ہیں۔

٭اسپیگل: کیا امریکی حکومت اور فوج کی طرف سے وکی لیکس تک رسائی میں تیکنیکی رکاوٹیں حائل کی جارہی ہیں؟

٭ جولین اسانج: وکی لیکس امریکی حکومت کے لیے ابھی بھی ایک ٹیبو ہے۔ ویب سائٹ تک رسائی روکنے کے لیے فائر والز لگادی گئیں ہیں۔ ہر وفاقی ملازم اور کنٹریکٹر کو انتباہی ای میلز بھیجی جاتی ہیں کہ اگر انہوں نے وکی لیکس یا نیو یارک ٹائمز کے ذریعے بھی کچھ پڑھا ہے تو اسے اپنے کمپیوٹر سے ہٹائیں اور فوراً اپنی صفائی میں رپورٹ پیش کریں۔ یہ ایک نیا ’میک کارتھی ہسٹریا‘ ہے۔

٭اسپیگل: آپ اپنے قارئین کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

٭جولین اسانج: بہت زیادہ نہیں ، کیوں کہ ہم اُن کی جاسوسی نہیں کرتے۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہمارے زیادہ تر قارئین کا تعلق انڈیا سے ہے، جو امریکا کے بہت قریب ہے۔ ہمارے کچھ قاری ایسے بھی ہیں جو کسی فرد کی تلاش کرتے ہیں۔ بہن کی شادی ہورہی ہے اور کوئی دلہا کو چیک کرنا چاہتا ہے۔ یا کوئی کاروباری شخص بزنس ڈیل کرنے سے قبل اپنے ممکنہ شراکت دار یا بیوروکریٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔

٭اسپیگل: کیا وکی لیکس نے چند سالوں میں میڈیا ہاؤسز اور اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کے طریقہ کار کو تبدیل کیا ہے؟

٭جولین اسانج: کچھ تلخ تجربات کی وجہ سے اب ہم زیادہ معاہدے کر رہے ہیں۔ اب ہمارے دنیا بھر کی سو سے زاید میڈیا آرگنائزیشنز کے ساتھ معاہدے ہیں۔ گلو بل میڈیا کے لیے ہمارے پاس اچھوتا نظریہ ہے۔ ہم صحافیوں کی مختلف انجمنوں اور میڈیا آرگنائزیشنز کی درجہ بندی اور اپنے ذرایع کے اثر کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب ہمارے پاس مغربی یورپی میڈیا، امریکی میڈیا، بھارتی میڈیا اورعرب میڈیا کے ساتھ کام کرنے کا چھے سالہ تجربہ ہے، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک ہی مواد کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ ان کے نتائج ناقابل یقین حد تک مختلف ہیں۔

٭اسپیگل: ایڈورڈ اسنوڈین کا کہنا ہے کہ اُ س کے پاس موجود دستاویزات سے اسٹوریز بنانے میں تو بہت سے صحافی دل چسپی لے رہے تھے، لیکن صرف وکی لیکس وہ واحد ادارہ تھا، جس نے میرا خیال رکھا اور مجھے ہانگ کانگ سے فرار میں مدد دی۔

٭جولین اسانج زیادہ تر میڈیا آرگنائزیشنز اپنے ذرایع کو ضایع کردیتی ہیں۔ ایڈوڑ اسنوڈین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، خصوصاً گارجین نے اُس کی ایکسکلوسیو اسٹوریز شایع کر کے ہانگ کانگ میں بے یا ر و مددگار چھوڑ دیا، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایڈورڈ جیسے انتہائی قیمتی ذریعے کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔

٭اسپیگل: اب ہم سیاست دانوں کی بات کرتے ہیں، جنہیں وکی لیکس اور ایڈورڈ اسنوڈین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی بدولت انہیں پتا چلا کہ انگریزی بولنے والے جاسوس اُن کی ٹیلی فون کالز اور ای میلز ٹریپ کر رہے ہیں، لیکن ان سیاست دانوں نے اتنے بڑے انکشاف پر بھی بہت ہی بودا اور مہمل ردِعمل ظاہر کیا؟

٭جولین اسانج: یہ سیاست داں نیچے کی طرف کیوں کھیل رہے ہیں؟ اینجیلا مرکل کو بہت سخت ردِ عمل ظاہر کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ اُنہیں کم زور لیڈر نہیں دِکھنا چاہیے، لیکن مجھے حیرت ہوئی جب وہ اس نتیجے پر پہنچیںکہ ’امریکی تبدیل نہیں ہورہے۔‘ یہ تمام امریکی خفیہ معلومات جرمنی کی فارن انٹیلی جنس ایجنسی Bundesnachrichtendienst کے لیے بہت قیمتی ہیں، صرف ایک لمحے کے لیے سوچیے جرمنی کی حکومت امریکیوں سے جاسوسی کرنے کی شکایت کرے اوروہ محض یہ کہے’’ اوکے، ہم آپ کو مزید سامان دیں گے جو ہم نے فرانس سے چُرایا ہے۔ اور یہی جواب جاسوسی کی شکایت کرنے پر فرانس کو دیا جائے۔‘‘ این ایس اے نے معلومات حاصل کرنے کے لیے بے تحاشا وسائل استعمال کیے ہیں۔ لیکن فرانس اور جرمنی کے شکایت کرنے پر کچھ ٹکڑے اُن کے سامنے پھینک دیے ہیں۔ متاثرین اور ڈیجیٹل کاپیوں کی کاسٹ کچھ بھی نہیں ہے۔ بہ ظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ جرمن سیاست داں سوچ رہے ہیں کہ اس معاملے پر بحث ہمیں کم زور ظاہر کرے گی اور امریکیوں کے ساتھ تنازعہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کئی دہائیوں تک جرمنی کے 125ٹاپ لیول سیاست دانوں کی معلومات حاصل کیں۔

٭اسپیگل: کیا آپ کسی ممکنہ بلیک میلنگ کی صورت حال کو دیکھ رہے ہیں؟

٭ جولین اسانج: وہ (امریکی) ٹیپ کی گئی فون کالز کی ٹرانسکرپٹ (آواز کو تحریر کی شکل میں ڈھالنا) کبھی بھی لیک نہیں کریں گے۔ انٹیلی جنس اہل کاروں کا فون کالز ریکارڈ کرنے کا مقصد گفت گو کے دوران کی گئی اہم باتوں کے نکات حاصل کرنا ہوتا ہے۔

٭اسپیگل: کیا آپ کو کوئی ایسا دستاویزی نمونہ ملا ہے جس میں اس طرح کی تیکنیک استعمال کی گئی ہو؟ اور یہ طریقہ کار کون استعمال کرتا ہے؟

٭ جولین اسانج: ہم نے جرمن سیاست دانوں کی اس طرح کی ایک بھی دستاویز شایع نہیں کی ہے، لیکن مختلف مسلمان ملکوں کے بہت سے ممتاز علمائے دین کی مثالیں موجود ہیں، جو فحش ویب سائٹس پر براؤزنگ کرتے ہیں۔ برطانیہ کے کمیونی کیشن ہیڈ کوارٹر) (GCHQمیں اس طریقہ کار کے لیے ایک علحیدہ شعبہ ہے۔ JTRIG(جوائنٹ تھریٹ ریسرچ انٹیلی جنس گروپ) نامی یہ شعبہ بلیک میلنگ کے لیے بڑے پیمانے پر جعلی وڈیوز، جعلی SMS اور جعلی کاروبار تخلیق کرتا ہے۔ GHCQکی اس حرکت کا انکشاف ایڈورڈ اسنوڈین بھی اپنی دستاویزات میں کرچکا ہے۔

٭اسپیگل: اسنوڈین ماسکو میں پھنسا ہوا ہے، وکی لیکس کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کے الزام میں چیلسیا میننگ (سابق بریڈ میننگ) کو 35سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ کیا یہ سب کسی اور فرد کے whistleblowers بننے کے امکانات کو روک دے گا؟

٭ جولین اسانج: یہ سب کسی اور فرد کو راز افشاء کرنے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یقیناً کسی کو 35سال قید کی سزا سنانے سے دوسروں پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکی حکومت نے مجھ پر بھی مختلف الزامات عاید کررکھے ہیں ، جن میں جاسوسی، سائبر فراڈ، خفیہ معلومات کی چوری، اور سازش جیسے الزامات شامل ہیں۔ اس میں کم سے کم سزا بھی 45سال قید کی ہے۔ جب ہم نے سعودی حکومت کے سفارتی کیبلز (خفیہ معلومات پر مشتمل سفارتی ٹیلی گرام) شایع کرنے شروع کیے تو سعودی حکام نے مجھ سے کہا کہ سرکاری معلومات ظاہر کرنے پر بیس سال قید کی سزا ہے۔ صرف بیس سال، لہذا اگر مجھے سزا کے لیے امریکا یا سعودی عرب کی چوائس دی گئی تو میں سعودی عرب جانا پسند کروں گا، جو اپنے انصاف کی بدولت جانا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔