اَفلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

رحمت علی رازی  اتوار 16 اگست 2015
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں ہماری ایک پرانی ساتھی ڈاکٹر شائستہ نزہت ہمیں ملنے آ گئیں‘ باتوں باتوں میں انھوں نے اپنی دُکھ بھری کہانی سنائی کہ ہم سے رہا نہیں گیا، ہم ان کی دُکھ بھری کہانی اسلیے لکھنے پر مجبور ہوئے کہ شاید حکمران ان کی داستانِ ظلم سن کر ہی انصاف دیدیں۔ 2002ء کے الیکشن ہونے سے ذرا پہلے تک ڈاکٹر شائستہ نزہت لاہور کے بڑے اخبار میں ہفتہ وار ایڈیشن کی انچارج تھیں۔ الیکشن کے سلسلے میں ان کی خدمات ایک سیاسی پارٹی کے وضع دار سیاستدانوں نے مستعار لے لیں‘ تندہی سے کام کرتے ہوئے سیاسی پارٹی اور سیاستدانوں کی ’’امیج بلڈنگ‘‘ میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔ کامیاب الیکشن کے بعد انھوں نے شکریے کے ساتھ چھوڑنا چاہا مگر وضع دار سیاستدانوں نے پنجابی زبان و ادب و کلچر کے فروغ کا کام سونپتے ہوئے انھیں سرکاری نوکری میں داخل ہونے کی دعوت دی۔ تمام سرکاری ضابطے، آئین اور قوانین کے عین مطابق انھیں پنجاب انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ 19 کی ریگولر نوکری پر منتخب کر لیا گیا۔

پنجابی زبان و ادب و کلچر کے حوالے سے 62 سال میں اُس وقت تک کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا تھا، مگر خوش قسمتی سے 2003ء سے لے کر 2006ء تک ڈاکٹر صاحبہ کی دن رات کی کاوشوں اور حکومتی سرپرستی کے باعث نہ صرف لاہور میں ایک بڑی اور خوبصورت عمارت (پنجابی کمپلیکس) تعمیر کی گئی بلکہ پنجاب کے ہر خطے اور علاقے کے نمائندوں کو شامل کرتے ہوئے انتظامیہ مقرر کر دی گئی۔ دُنیا بھر میں اِس ادارے کے قیام کو بے حد اور بے پناہ سراہا گیا کیونکہ پاکستان بننے کے بعد چاروں صوبوں میں سے صرف پنجاب ہی کی زبان کو سرکاری سطح پر کوئی اپنانے کو تیار نہیں تھا۔ پنجابی ادارے کے قیام سے ہی اِسکی زبان کے فروغ کے لیے عملی اقدامات پر بھی کام شروع کر دیا گیا۔ تین چار سال تک الفاظ کی تعمیر و ترتیب اور پنجابی ڈکشنری کے حوالے سے طلبہ و طالبات اور سینئر پنجابی اسکالرز کی سرپرستی میں گروپس متعین کر کے کام شروع کیے گئے۔ اُن ہی دنوں پنجاب کی ہر ڈویژن میں پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے کمیونٹی ریڈیو پر بھی کام شروع کیا گیا۔

اِس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحبہ پیمرا سے لڑ کر 9 فریکونسی الاٹ کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔ 9 فریکونسی کی الاٹمنٹ میں حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر لاہور میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا پنجابی ایف ایم ریڈیو 95 لگا دیا گیا، مگر ڈاکٹر صاحبہ کے بعد آنیوالی پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی انتظامیہ نے مفت میں مل جانیوالی باقی 8 فریکونسیز کو ضایع کر دیا۔ حالانکہ حکومت وقت کوئی بھی ہو‘ ایف ایم ریڈیوز کمیونٹی کی خیر خبر رکھنے اور حکومت کے پبلک سروس میسیج کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایف ایم ریڈیوز مضافات میں بیٹھے عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شائستہ نزہت نہ صرف ان سارے امور میں کوآرڈینیٹر کا کام کرتی رہی بلکہ بحیثیت ڈائریکٹر پلاک اور منیجنگ ڈائریکٹر ایف ایم ریڈیو پنجابی زبان و ادب کلچر کی ’’مارکیٹنگ‘‘ کے لیے ہر لہجے اور علاقے کے لوگوں سے روابط بڑھاتی رہیں۔

غالباً یہ پنجابی زبان کی مخالفت تھی یا ڈاکٹر صاحبہ کی، 2008ء میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ادارے پر سے حکومتی سرپرستی کا ہاتھ اُٹھا لیا گیا اور ڈاکٹر صاحبہ کی مخالفت میں ادبی اور غیر ادبی تمام تنظیموں نے زمین آسمان ایک کر دیا۔ حکومت وقت نے ان کی سرکاری نوکری پر سوالات اُٹھائے اُسے نوکری سے نکالنے کی سر توڑ کوشش کی۔ ڈاکٹر صاحبہ روایتی سیاسی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بھی بنتی رہیں مگر چونکہ سرکار کی نوکری کرتے ہوئے ضابطے کی تمام تر کاروائیاں مکمل کی گئی تھیں۔ لہٰذا جب دشمن اُس نہج پر کامیاب نہ ہو سکے تو چھوٹے صحافتی پلیٹ فارمز کا سہارا لیتے ہوئے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی گئی۔ ڈر کے مارے ڈاکٹر صاحبہ میدان چھوڑ کے ڈیپوٹیشن پر وفاقی حکومت میں وزارت اطلاعات و نشریات کی ڈپٹی سیکریٹری لگ گئیں۔ وہ ساڑھے چار سال تک نہ پنجاب، نہ پنجابی نہ زبان و کلچر بلکہ صرف ایک ’’سینئر کلرک‘‘ کی حیثیت سے فائلوں اور سمریوں پر کام کرتی رہیں۔ اچانک ایک روز نیکٹا سے ڈاکٹر صاحبہ کی ریکوزیشن اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو موصول ہوئی اور کارروائی مکمل کرتے ہوئے نیکٹا میں بطور ڈائریکٹر کاؤنٹر ٹیررازم تعینات کر دیا گیا۔

اُس وقت کے ہیڈ آف نیکٹا نے کاؤنٹر ٹیررازم کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ملکر ایک پالیسی وضع کی مگر تعیناتی کے تقریباً چوتھے ہی روز ڈاکٹر کو اسٹیبلشمنٹ واپس رپورٹ واپس کرنا پڑا۔ استفسار پر ڈاکٹر صاحبہ کو بتایا گیا کہ پرائم منسٹر آفس کے حال ہی میں طاقتور میرٹ کے زور پر گریڈ 21 میں ترقی پانے والے اعلیٰ افسر کی مداخلت پر آپ کو اسٹیبلشمنٹ واپس بھیجا جا رہا ہے۔ وفاقی محتسب میں ڈائریکٹر انویسٹی گیشن کے طور پر فرائض کی ادائیگی کے دوران نیب کے ایک ڈائریکٹر جنرل نے انٹرویو کے لیے بلایا اور نیب کے لیے انتہائی موزوں قرار دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ڈاکٹر صاحبہ کی تعیناتی کے لیے ریکوزیشن بھیج دی۔ دوبارہ ضابطے کی کاروائی مکمل کرتے ہوئے ان کو ڈیپوٹیشن پر نیب میں تعینات کر دیا گیا۔ ٹھیک سوا دو مہینے بعد ان کی تعیناتی ختم کرتے ہوئے اُسے دوبارہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے انتہائی اہم دو عہدیداروں نے استفسار پر بتایا کہ پرائم منسٹر آفس کے اعلیٰ افسر کی مداخلت پر آپ کو وہاں سے ہٹا کر پنجاب واپس بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر قانون کے مطابق ابھی ان کا ڈیپوٹیشن وقت مکمل نہیںہوا تھا لہٰذا عدالت کے ذریعے حکم امتناعی کے ساتھ ان کو نیب نے دوبارہ رکھ لیا۔ ایک سیکشن میں کام کرتے ہوئے ابھی چند ہی ماہ ہوئے تھے کہ دوسرے سیکشن میں لگا دیا گیا۔ دوسرے سے تیسرے اور پھر تیسرے سے چوتھے ایک ایسے سیکشن میں مقرر کیا گیا جہاں کی خاتون ڈی جی اے اینڈ پی عالیہ رشید نیب میں گزشتہ بارہ سال سے تعینات ہیں۔ متذکرہ خاتون کی تعیناتی کی کہانیاں اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے در و دیواروں کو بھی اَزبر ہیں۔ صحافتی حلقے بھی حکام بالا کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہے ہیں مگر ڈی جی اے اینڈ پی صرف 12 سال میں گریڈ16 سے لے کر آج کل 21 گریڈ کا اعلیٰ عہدہ ڈی جی انجوائے کر رہی ہیں۔ وہ ایم اے ہسٹری تھرڈ ڈویژن ہونے کے علاوہ کوئی خاص تعلیمی کارکردگی اپنے ساتھ نہیں رکھتیں مگر اِسکے باوجود وہ نیب کی سب سے طاقتور ڈی جی ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر صاحبہ کو ڈی جی اے اینڈ پی کے سیکشن میں تعینات کیا گیا۔ متذکرہ ڈی جی ہمیشہ سے خواتین اہلکاروں اور خصوصی طور پر جن کا تعلق سیکریٹریٹ سے ہو‘ ہمیشہ سے خوفزدہ رہی ہیں۔

شائستہ نزہت کی ڈیڑھ دو ماہ کی تعیناتی کے دوران ہر روز متذکرہ خاتون ڈی جی کی کوشش یہی رہی کہ ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات واپس لے لی جائیں‘ بڑی مشکل سے ایک شاندار ڈرامہ اُن کے ہاتھ لگا۔ ہوا یوں کہ ڈاکٹر صاحبہ کو نیب کی جانب سے سہالہ ٹریننگ کیمپس میں تعینات کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کو اپنی بیٹی کی فکر تھی جو اسلام آباد کے ایک اسکول میں زیر تعلیم ہے۔ انھوں نے ڈی جی ایچ آر سے تبادلہ خیال کیا کہ ایسی صورت میں کیا میں اپنی بیٹی کو سہالہ ساتھ رکھ سکتی ہوں اور کیا سات ماہ کی اِس ٹریننگ کے دوران ان کی بیٹی کو سہالہ سے اسکول لانے اور لے جانے کا بندوبست ہو جائے گا۔ ڈی جی ایچ آر نے یقین دہانی کرائی کہ چیئرمین نیب کبھی کسی بھی شخص کے ساتھ زیادتی ہونے نہیں دیتے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ ایک درخواست کے ذریعے چیئرمین نیب کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ ابھی سوچ و بچار جاری ہی تھی کہ اگست کے پہلے ہفتے میں سہالہ ٹریننگ کیمپس کے سلسلہ میں ہونے والی بریفنگ کے دوران جب چیئرمین نے ڈی جی اے اینڈ پی سے پوچھا کہ کیا ڈاکٹر صاحبہ سہالہ ٹریننگ کیمپس میں بطور کورس کوآرڈینٹر اینڈ ہاسٹل وارڈن رپورٹ کر رہی ہیں یا نہیں تو انھوں نے بلاتوقف میٹنگ کو آگاہ کیا کہ ڈاکٹر صاحبہ گزشتہ 25 روز سے بغیر اطلاع دفتر سے غیر حاضر ہیں اور اس سلسلے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں‘ اس کے علاوہ وہ سہالہ والی پوسٹنگ سے بھی انکاری ہیں جسکے بعد ڈاکٹر صاحبہ کو نیب سے فارغ کر دیا گیا۔

اِس موقع پر ڈی جی ایچ آر نے ضروری نہیں جانا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی حاضری یا غیر حاضری کے بارے میں متعلقہ شعبوں سے تصدیق کر لی جائے۔ لگتا یوں ہے کہ عجلت میں کیا گیا یہ اقدام نادانستہ نہیں بلکہ دانستہ تھا کیونکہ نیب جیسے انویسٹی گیشن کے ادارے میں (جہاں تمام اہلکاروں کی موجودگی یا غیر موجودگی کوئی 6 سے زیادہ ذرائع کے تحت مانیٹر کی جاتی ہے) چیئرمین کے حکم پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کا نیب سے واپس بھیجنے کے خلاف کیس ابھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں حکم امتناعی پر ہے اور نیب نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کو جب پتہ چلا کہ نیب سے اُنکے ریلیو کرنے کا نوٹیفکیشن تیار ہو گیا ہے تو وہ ڈی جی ایچ آر کے پاس گئیں جس پر انھوں نے اس بات کی تصدیق کر دی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ڈی جی ایچ آر سے بحث کی کہ صورتحال اس کے برعکس ہے اور ڈی جی اے اینڈ پی نے چیئرمین نیب کو نہ صرف غلط اطلاع دی بلکہ چیئرمین نیب کو غلط اطلاع دیکر اصل حقائق سے پوشیدہ رکھا۔

ڈاکٹر صاحبہ نے ڈی جی اے اینڈ پی کو خط کے ذریعے نہ صرف پوزیشن واضح کرنے کے لیے درخواست کی بلکہ اپنی حاضری اور مسلسل موجودگی کے ثبوت بھی درخواست کے ساتھ لگائے اور بڑے ادب سے ان کے دفتر میں فائل جمع کروا دی۔ صورتحال چونکہ ڈی جی اے اینڈ پی کے بیان کردہ موقف سے بالکل برعکس تھی لہٰذا انھوں نے برا منایا اور ڈاکٹر صاحبہ کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی۔ پھر متذکرہ خاتون ڈی جی نے ڈاکٹر صاحبہ کے کمرے میں پہنچ کر وہ فائل ان کے منہ پر دے ماری اور کہا کہ تمہارا نیب میں کوئی کام نہیں کسی انفارمیشن جیسی وزارت میں جائو اور نوکری کرو۔ اِس دوران ڈی جی اے اینڈ پی کی انتہائی اونچی آواز سن کر پورے فلور کے آفیسرز اور چھوٹا عملہ موقع پر پہنچ گئے اور سارا کھیل تماشا انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر طاہر ا ور ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد ڈی جی اے اینڈ پی کو ڈاکٹر صاحبہ کے کمرے سے باہر لیجانے کی کوشش کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس پوری صورتحال کے دوران خاموشی اختیار کیے رکھی اور ادب کے ساتھ ڈی جی اے اینڈ پی کے رویے کا سامنا کیا۔ (کیونکہ یہ سارا حادثہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ریکارڈ کا حصہ بن رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحبہ نے آخر میں صرف دو جملے ڈی جی اے اینڈ پی کو کہے: ’’میڈم اگر آپ کو سرکاری فائلوں پر کام کرنا آتا ہوتا تو آپ کو کمرے سے یہاں تک آنے کی زحمت نہ کرنا پڑتی بلکہ جس طرح میں نے اپنی درخواست لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کی، صورتحال کی وضاحت کے لیے آپ بھی مجھے لکھ کر جواب مانگ لیتیں‘‘۔ اس موقع پر حادثہ، ڈرامہ، غلط بیانی، غلط اطلاع، جو کچھ بھی ہوا، نیب کے ایچ آر سیکشن نے انتہائی خاموشی اختیار کیے رکھی اور چپکے سے ڈاکٹر صاحبہ کی تعیناتی ختم کر دی۔ اس واقعہ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ نے فوری طور پر اپنے انٹیلی جنس شعبہ کے ڈائریکٹر کو اطلاع کی۔ اُسکے بعد چیئرمین کے نام درخواست بنا کر پیش ہونے کی خواہش کی مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ ڈی جی اے اینڈ پی کے اِس رویے، فائل منہ پر مارنا اور پورے دفتر کی موجودگی میں گالی گلوچ والے واقعے کے خلاف درخواست چیئرمین نیب کے دفتر میں جمع کروا دی گئی مگر تاحال اس پر کوئی عملی اقدامات کیے گئے نہ ہی ڈاکٹر صاحبہ کی تعیناتی ختم کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لیا گیا ہے۔ قانون کی زبان میں مقررہ وقت سے پہلے ڈیپوٹیشن ختم کرنے پر سپریم کورٹ کے مشہور ’’انتیا تُراب کیس‘‘ کی رولنگ اپلائی ہو سکتی ہے مگر انتہائی متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر صاحبہ کے پاس اِتنے مالی وسائل بھی نہیں کہ قانون کے ایوانوں سے اپنا حق اور انصاف مانگ سکیں۔

مسئلہ پنجاب واپس آنے سے اجتناب یا انکار نہیں بلکہ اُن گھمبیر مسائل سے ڈاکٹر صاحبہ پنجاب میں نوکری سے خوفزدہ ہیں جہاں ماضی میں صرف انتقامی کارروائی کے طور پر اِسکے اوپر مقدمات بنائے گئے۔ او ایس ڈی کے وقت کی تنخواہ آج تک ادا نہیں کی گئی۔ گھر میں 2 ڈکیتیاں، شوہر کو راستے میں روک کر بلاوجہ کی مار پیٹ، چھوٹی سی ذاتی گاڑی کی چوری اور صحافتی بلیک میلنگ جیسے مسائل میں سے بھاگ کر اسلام آباد بسیرا کرنیوالی ڈاکٹر صاحبہ اب کریں تو کیا کریں۔ ڈاکٹر صاحبہ پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ ریسرچ کی 12 اور شاعری کی 2 کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ اُس نے پاکستان کے سب سے بڑے صحافتی ادارے میں بطور سب ایڈیٹر 15 سال تک کام کیا اور پھر سرکار کی نوکری اختیار کی۔ 2 سال پہلے نیپا لاہور سے ترقی کا کورس ایس ایم سی کرنے کے باوجود ترقی بھی نہیں ملی۔ 2008ء کے دوران تین ماہ تک او ایس ڈی رہنے کی پنجاب انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے تنخواہ بھی ادا نہیں کی۔ سرکار کی جانب سے کوئی اضافی امداد بھی نہیں ملی۔

پاکستان کے کسی بھی شہر میں نہ کوئی اپنا گھر نہ پلاٹ، ایسی صورتحال میں پنجاب کے بعض سیاسی، سماجی، صحافتی اور کسی حد تک بیوروکریسی کے حلقوں کی جانب سے مخالفتوں، دشمنیوں اور سیاسی انتقامی کاروائیوں کا مسلسل شکار رہنے والی یہ خاتون حکومتِ وقت اور اعلیٰ عدلیہ سے انصاف کی طلبگار ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکمران‘ اعلیٰ عدلیہ اور غیرجانبدارانہ احتساب کے دعویدار چیئرمین نیب نے اس لاوارث، بے سہارا اور مظلوم لڑکی کو انصاف دینے میں کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر۔

اب گورنمنٹ کالج برائے ایلیمنٹری ٹیچرز بہاولپور کے ریٹائرڈ پرنسپل مشتاق احمد سیال کا خط جو حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ وہ لکھتے ہیں‘ محترم رازی صاحب! 5 جولائی کا آپ کا کالم پڑھا‘ جب سے آپ نے ایکسپریس اخبا ر جوائن کیا ہے آپ کا کا لم بھی ’’ایکسپریس‘‘ ہو گیا ہے۔ کالم میں آپ نے حاضر ملازمین کی تنخواہوں میں معمولی اضافے کے حوالے سے حکومت وقت کے خو ب خوب لتے لیے ہیں۔ خصوصاً اراکین اسمبلی جیسے مساکین و مستحقین زکوٰۃ کے ماہانہ اعزازیہ میں چپکے چپکے 33 فیصد اضافے کا ذکر کر کے اور ملازمین کے صرف 7.5 فیصد اضافے کی نوید پر معرکہ آراء قلم آرائی کی ہے۔ مجھے اس کالم میں یہ پڑھ کر انتہائی دُکھ ہوا کہ حاضر ملازمین کے مقابلہ میں ریٹائرڈ ملازمین کے مقابلے میں اس طبقے کا کرب صرف ایک سطر میں جگہ پا سکا ہے۔ شاید اس لیے کہ آ پ خود ابھی اس کرب سے نہیں گزرے اور آپ کو اس کا  اندازہ نہیں ہے کہ اس طبقے کے کیا مسائل ہوتے ہیں، یہ کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ کہ حکومت وقت ان کے ساتھ کس قدر ظلم و ستم ڈھاتی ہے۔

اس مظلوم طبقہ کی اوّل تو کوئی آواز ہے ہی نہیں اور اگر کہیں دُور سے آواز سنائی بھی دے تو حکومت اسے درخوراعتناء نہیں سمجھتی، خصوصاً خادم اعلیٰ پنجاب نے 75 سالہ ناتواں پنشنرز کے ساتھ جو افسوسناک رویہ اپنا رکھا ہے کہ سالہاسال کی جدوجہد کے بعد عدالت عظمیٰ سے ڈبل پنشن کے احکامات حاصل کرنے کے باوجود عرصہ ڈیڑھ سال سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور اپنا جائز حق وصول کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ عدالت عالیہ میں توہین عدالت کا کیس بھی التواء میں پڑا ہے۔ باوجود بار ہا عدالتی حکم کے وہ اپنے حق سے محروم چلے آ رہے ہیں‘ وزیر اعلیٰ پنجاب کو نہ جانے ان مظلوموں سے کیوں نفرت ہے، وہ انصاف کرنے کی بجائے جونہی ڈبل پنشن کی فائل ان کی میز پر آتی ہے، وہ غصے سے اس فائل کو میز سے نیچے پھینک دیتے ہیں۔ کیا ان لوگوں نے خدا کے حضور پیش نہیں ہونا۔ کیا انھیں کسی کا ڈر یا خوف نہیں۔ کیا ان کی بادشاہت ہمیشہ قائم رہنی ہے؟ اس کے علاوہ بھی پنشنرز کے درجنوں مسائل ہیں لیکن سردست مجھے حالیہ بجٹ مین پنشنر ز جو پرانے ہیں‘ ان کے ساتھ جو بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے، کا ذکر کرنا ہے۔

حالیہ بجٹ میں تاریخ کا سب سے کم ترین اضافہ یعنی ساڑھے سات فیصد حاضر ملازمین و ریٹائرڈ حضرات کے حصے میں آیا ہے ورنہ بیشتر ازیں پچاس فیصد تک اضافہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ نئے اسکیل مرتب کیے گئے ہیں جن سے حاضر سروس ملازمین فیضیاب ہونگے۔ یہ اسکیل اس طرح تشکیل دیے گئے ہیں کہ ان میں 2011ء میں دیا گیا 15 فیصد اور 2012ء  میں دیا گیا 20 فیصد مہنگائی الائونس ضم کر دیا گیا ہے‘ مابعد کہ دو مہنگائی الائونسز 10 فیصد علی الترتیب 2013ء اور 2014ء بحساب 50 فیصد اسکیلز 2008ء کی بنیاد پر فریز کر دیے گئے ہیں۔ جون 2015ء سے پہلے ریٹائر ہونیوالے حضرات کو سابقہ اسکیلز 2011ء کی بنیاد پر 2010ء سے 2014ء تک کے اضافے منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان کی 2011ء کے اسکیلز پر پنشن بنائی گئی ہے جب کہ  یکم جولائی 2015ء کے بعد ریٹائر ہونیوالے ملازمین نئے پے اسکیلز مجریہ 2015ء کے مطابق پنشن کے حقدار قرار دیے گئے ہیں‘ ہر دو ملازمین خواہ وہ حاضر سروس ہیں یا ریٹائرڈ انھیں یکم جولائی سے 7.5 فیصد مہنگائی الائونس نئے اسکیلز یا نیٹ پنشن کی بنیاد پر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی جو 30 فیصد جون 2015ء کو میڈیکل الائونس وصول کر رہے تھے‘ اسے منجمد کر کے اس پر 25 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اسکیلز اور دیگر مراعات مرتب کرنیوالے بیوروکریسی سے تعلق رکھتے ہیں جو ہمیشہ شودروں اور مظلوموں کا بھلا کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کو عزیز جانتے ہیں۔ ابتداء ہی سے 22 خاندان کے ہم وزن 22 اسکیل بھی اسی کا شاخسانہ ہے جن کے درمیان ایک اور 10 کا وسیع تر فر ق جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ کیا اسکیل ایک کے ملازم کی بنیادی ضروریات اسکیل 22 کے ملازم سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس قدر وسیع بعد کو ختم کرنے کی آج تک کسی نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالیہ ملازمین کے لیے مراعا ت میں بھی اسی بیوروکریسی نے ایسا ہی ہاتھ کھیلا ہے۔ لگتا ہے وزارت خزانہ سے تعلق رکھنے والے چند ایسے ہی افراد نے اس سال ریٹائرمنٹ پر چلے جانا ہے، سو جاتے جاتے اپنے آپ کو اور اپنے جیسے دیگر افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سابقہ پنشنرز اور نئے پنشنرز کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل کرنے کی ظالمانہ کوشش کی گئی حالانکہ قبل ازیں پرانے پنشنرز کو زیادہ فائدہ دیا جا تا تھا، جیسا کہ 2011ء میں اسکیل پر نظر ثانی ہوئی تو 2002ء سے پہلے پنشنرز کو 20 فیصد اور 2002ء کے بعد کے پنشنرز کو 15 فیصد مہنگائی الائونس دیا گیا ہے۔

یہ ظلم اس طرح کیا گیا کہ 2015ء کے نئے گریڈز میں ایک طرف 2011ء اور 2012ء کے مہنگائی الائونسز علی الترتیب 15فیصد اور 20 فیصد ضم کر دیے گئے تو دوسری طرف یکم جولائی 2015ء سے جانے والے نئے پنشنرز کو ڈبل مراعات کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ اُصولاً ان دو سالوں کے مہنگائی الائونسز کو نئے پنشنرز کے لیے ختم کر دیا جانا چاہیے تھا مگر بقول شاعر ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘‘۔ ایک طرف نئے اسکیل میں اضافہ ختم کر کے فائدہ پہنچایا گیا تو دوسری طرف نئے پنشنرز کا صرف 2012ء کا 20 فیصد اضافہ منقطع کر دیا گیا جب کہ  2011ء کا 15 فیصد اضافہ تاحال بحال رہنے دیا گیا ہے۔ کیا ایک ہی ملازم یا پنشنرز ایک ہی مفاد دوبار لینے کا حقدار ہو سکتا ہے۔ اس سے جون 2015ء میں ریٹائر ہونیوالے ملازمین اور جولائی 2015ء میں ریٹائر ہونیوالے ملازمین کی مراعات میں زمین آسمان کا فرق پیدا کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ گریڈ10 کا ایک ملازم جو جون 2015ء میں ریٹائر ہوا‘ اسکی اصل تنخواہ اس اسکیل کی آخری اسٹیج پر 19000روپے تھی‘ 30 سال کی سروس پر اس کا  70 فیصد پنشن و کموٹیشن کا حق بنتا ہے جو کہ 13300 روپے بنتی ہے۔

اس رقم کا 35 فیصد کو 12 سال کے لیے حکومت کو کمیوٹ کرا دیگا اور یکمشت 690,888 روپے وصول پائے جب کہ تمام اضافوں کے ساتھ باقی ماندہ 65 فیصد کے عوض حکومت کے موجودہ 7-1/2 فیصد اضافی مہنگائی الائونس و میڈیکل سمیت 19923 روپے ماہانہ پنشن لے گا۔ اسے ایک سال کی ’’لیو ان کیشمنٹ‘‘ جو بارہ ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے‘ مبلغ 228000 روپے علاوہ ملیں گے۔ اس کے برعکس یکم جولائی 2015ء کے بعد اگر یہی ملازم گریڈ10 ریٹائرڈ ہوتا ہے تو نئے گریڈ کے مطابق اس کی تنخواہ 24595 روپے بنتی ہے‘ اس کا  70 فیصد اس کی مراعات مبلغ 17217 روپے بنتی ہے‘ جسکا 35 فیصد 12 سال کے لیے کمیوٹ کرانے کے عوض اسے 8,94,492 روپے کمیوٹیشن کے مبلغ 295140 روپے ’’لیو ان کیشنمنٹ‘‘ کے ملیں گے‘ اس کی ماہانہ پنشن مع 7-1/2 فیصد اضافہ مبلغ 22470 روپے ماہانہ بنے گی۔ سوال یہ کہ حکومت نے تو محض ساڑھے 7 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے‘ نئے پنشنرز کو کمیوٹیشن کی مد میں 203604 روپے اضافی لیو ان کشیمنٹ کی مد میں 67140 روپے زائد اور ماہانہ پنشن میں 2547 روپے زیادہ رقم کس طرح ملے گی جو کمیوٹیشن میں 30 فیصد اور پنشن میں 13 فیصد اضافی بنتے ہیں۔

یہ اضافہ محض ڈنڈی مارنے سے ہوا ہے جو 2011ء کا 15 فیصد مہنگائی الائونس ایک طرف محض اسکیل میں ضم کرنے سے اور دوسری طرف پنشنرز کے لیے اسے بحال رکھنے سے پہنچایا گیا ہے۔ جو انسانی بنیادی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ دونوں طرح کے پنشنرز کے لیے برابر مراعات عین انصاف کا تقاضا ہے‘ اس کی نہ صرف تحقیق کی جانی چاہیے بلکہ ذمے داران کو بے نقاب کر کے حکومت کو مالی نقصان پہنچانے والوں کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے‘ بصورت دیگر 15 فیصد کا مزید مفاد 2010ء سے 2015ء کے درمیان ریٹائر ہونیوالے ملازمین کو دیا جانا عین انصاف کا تقاضا ہے۔ وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کے فنانس ڈیپارٹمنٹ ’’اناملی ونگ‘‘ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ اب آپ کو اصل تصویر دکھانا مطلوب ہے جسکے مطا بق 2011ء کا 15 فیصد اضافی مہنگائی الائونس نئے پنشنرز کو نہ دیا جائے تو اس صورت میں کسی گریڈ10 کے ملازم کی تنخواہ نئے پے اسکیل میں مبلغ 24595 روپے ماہانہ کے عوض گریجوٹی اور ’’لیو ان کیشمنٹ‘‘ اس ملازم کو بعینہٖ وہی ملیں گی مگر 2011ء کا مہنگائی الائونس ختم ہونے سے اس کی ماہانہ پنشن 19212 روپے بنے گی جو جون 2015ء میں ریٹائرڈ ہونیوالے ملازم کی نسبت 711 روپے زیادہ ہے‘ اصل میں وہ اسی کا حقدار ہے۔

اسی طرح ایک اور زیادتی 2010ء سے 2014ء تک کے درمیان ریٹائرڈ ہونیوالے ملازمین کے ساتھ یہ روا رکھی گئی تھی کہ 2010ء میں 2008ء کے اسکیلز کے بنیاد پر وہ 50 فیصد زائد الائونس لے رہے تھے جسے ریٹائرمنٹ پر محض 15 فیصد تک محدود کر دیا گیا حالانکہ یہ 2011ء کے اسکیل کی بنیاد پر 31.5 فیصد بنتا ہے۔ انھیں مسلسل 16.5 فیصد کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘ حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور ریٹائرڈ ملازمین کے حق کی تلافی کی جانی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران مظلوموں اور بے سہارا ریٹائرڈ ملازمین کی بددعائیں لینے کی بجائے دعائیں لینے کے لیے ان کے جائز مسائل فوری حل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔