ایک اہم تقریب اور ایک اہم کتاب

نسیم انجم  اتوار 16 اگست 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

حسب معمول اس ہفتے بھی بذریعہ ڈاک بہت سی کتابیں اور رسائل موصول ہوئے، لیکن فی الحال میں ایک کتاب کا ہی تذکرہ کرسکوں گی۔ پہلے میں ایک اہم تقریب کا احوال بیان کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ ہمارے شہر میں ہر روز ادبی مجالس و سیمینار کا انعقاد ہوتا ہے ان محفلوں میں کتابوں کی تقریب اجرا اور تنقیدی گفتگو کی جاتی ہے، شرکا محفل میں اکثر لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں علم و ادب کی الف ب سے بھی واقفیت نہیں ہوتی لیکن بولتے ضرور ہیں کہ وہ اپنا نام اخبارات میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں، ان حضرات کے علاوہ وہ قلمکار بھی تشریف فرما ہوتے ہیں جن کا حقیقتاً گلستان ادب میں اہم مقام اور ان کی تحریروں کو اعتبار حاصل ہے لیکن اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اقربا پروری اور گروہ بندی کو پروان چڑھایا جاتا ہے، اپنے دوست احباب کی حمایت میں اچھی اور معیاری تحریروں کو رد کرنے میں اس قسم کے قلمکاروں کا کوئی ثانی نہیں۔ بہرحال ایسا رویہ آج سے نہیں سالہا سال سے دیکھنے میں آرہا ہے، اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ بہت اچھے، مخلص، بے غرض اور وسیع النظر لوگوں کی کمی نہیں ہے۔

انعام و ایوارڈ کے حوالے سے بھی اگر گزرے دنوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بھی اپنوں اپنوں کو نوازنے کا چلن برقرار ہے۔ اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا ہے کہ کب کتابوں کا انتخاب عمل میں آیا؟ یا ایوارڈ دینے اور کتابوں کے حصول کا اعلان کیا گیا، بس کامیاب ہونے والوں کے نام اور انھیں ملنے والی مخصوص رقم اور تقسیم ایوارڈ کی روداد اخبارات کی زینت بن جاتی ہے۔ اسی بے انصافی کو مدنظر رکھتے ہوئے مماثلات اسرار کی میٹنگ شاعر و ادیب قمر افضل قمر کی رہائش گاہ پر ہوئی، اس تقریب میں یہ طے پایا گیا کہ بغیر کسی تعصب اور گروہ بندی کے ان لوگوں کو ایوارڈ دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا جن کا ادب میں ایک خاص مقام ہے اور انھوں نے کوچہ ادب میں اپنی زیست کے قیمتی ماہ و سال گزارے ہیں، لہٰذا پہلا ایوارڈ دینے کا قرعہ باہمی مشاورت کے بعد فہیم الاسلام انصاری کے نام کا نکلا۔

یقیناً فہیم انصاری نے علم و ادب کے اعتبار سے بہت کام کیا ہے۔ وہ صحافیانہ ذمے داریوں کو بخوبی انجام دیتے رہے ہیں اور کئی اہم پرچوں میں خدمات انجام دی ہیں، کئی سال سے وہ سہ ماہی اجمال نکال رہے ہیں بغیر کسی صلہ اور ستائش کی پرواہ کیے بغیر۔ آج کل کاغذ اور چھپائی مہنگی ہوچکی ہے اور بھی اخراجات ہیں، پھر بھاگ دوڑ ہے، ان حالات میں انھوں نے کسی قسم کے تعاون کے لیے اہل قلم حضرات سے درخواست نہیں کی۔ وہ ماہانہ یا سالانہ رقم تک کا مطالبہ نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی پرچے کی سرپرستی کے لیے اہل ثروت کی سرپرستی حاصل کی اور یہ یقیناً بڑی بات ہے۔ پھر ترجمے کے حوالے سے بھی ان کا علیحدہ مقام ہے، گاہے بہ گاہے اداریہ اور مضامین لکھتے ہیں اور اہل ہنر سے داد وصول کرتے ہیں۔

انعام و ایوارڈ کے حوالے سے منصوبہ بندی کے تحت پچھلے دنوں انجمن ’’مماثلات اسرار‘‘ کی جانب سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ صدارت راقم السطور کی اور مہمان خصوصی فراست رضوی اور زیب اذکار حسین تھے، جب کہ نظامت کے فرائض مجید رحمانی نے انجام دیے۔ اس بات کی بھی وضاحت کرتی چلوں کہ ’’مماثلات اسرار‘‘ کے بانیان میں ممتاز صحافی و افسانہ و ناول نگار زیب اذکار حسین، جمیل احمد، حنیف عمر، مجید رحمانی کے نام قابل ذکر ہیں۔

سفرنامہ نگار جمیل احمد نے اپنے کلیدی خطبے میں اسرار حسین کی ادبی خدمات اور سرکاری و نجی طور پر ادبی ایوارڈ نوازنے کی مفصل تاریخ بیان کی، انھوں نے بتایا کہ 1965 میں پہلا ادبی ایوارڈ شوکت صدیقی کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘ کو دیا گیا تھا۔ انھوں نے زبانوں کے ارتقا اور ان کے فروغ پر بھی روشنی ڈالی اور فہیم انصاری کے ادبی کاموں کو سراہا اور ایوارڈ کا مستحق قرار دیا۔ فراست رضوی نے کہا کہ اسرار حسین ادب میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ زیب اذکار حسین نے اپنی عالمانہ گفتگو سے بہت سی معلومات کے در وا کیے۔ فراست رضوی کے ساتھ ساتھ انھوں نے بھی فہیم السلام کو خراج عقیدت پیش کیا۔ واضح رہے کہ فہیم انصاری نے انگریزی ناول کا “and never said word” کا ترجمہ ’’زبان سے کچھ نہ کہا‘‘ کے عنوان سے کیا تھا۔ جسے ادبی حلقوں نے بے حد پسند کیا تھا۔ نیز یہ کہ یہ تقریب مشہور آرٹسٹ مختار حیدر کے حوالے سے بھی تھی۔ ان کے فن پر حاضرین محفل نے روشنی ڈالی، انھوں نے اپنے فن پاروں کی رونمائی کی جسے قلمکاروں اور شرکا مجلس نے بے حد پسند کیا۔جرمنی سے ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ کے عنوان سے کتاب موصول ہوئی۔ اس کے مرتب شعیب حیدر ہیں، جو مبارکہ حیدر قریشی کے صاحبزادے ہیں۔ اگر فہرست پر نگاہ ڈالیں تو انتساب اور خطوط کو ملا کر 17 مضامین شامل کتاب ہیں۔

حیدر قریشی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، ان کا خاص حوالہ علم و ادب ہے، ادب کی تمام تقریبات پر انھوں نے قلم اٹھایا اور کامیاب ہوئے۔ ان کی تحریروں کے قارئین و نقاد انھیں سکہ بند ادیب تسلیم کرنے میں قطعی طور پر عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کے گزرے برسوں میں وہ تخلیقی سفر پر برہنہ پا نکلے اور تجربات و مشاہدات کے گوہر نایاب سے اپنا دامن بھرلیا۔ مذکورہ کتاب ایک تخلیق کار کی اپنی ہم سفر سے محبت کے نتیجے میں اشاعت کے مرحلے سے گزری ہے۔ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں میاں بیوی محبت کے بے مثال و بے لوث رشتے سے ازل سے ہی منسلک ہیں۔ حیدر قریشی جن آزمائشوں سے گزرے ہیں ان کی بیگم مبارکہ حیدر ان کے شانہ بہ شانہ چلی ہیں۔ حیدر قریشی نے ان کا تذکرہ اپنی تحریروں میں بے حد چاہت اور قدردانی کے ساتھ کیا ہے۔ انھوں نے خاکے بھی لکھے ہیں اور افسانے اور نظمیں بھی۔ حیدرقریشی کی تحریروں میں ماضی کے دھندلکے اور حال کی روشن باتیں بھی شامل ہیں، بچپن کے دنوں اور سوئے حجاز اور سفر حجاز کے مواقعوں پر بھی وہ اپنی بیگم سے بچھڑنے کا ذکر اس قدر دردمندی سے کرتے ہیں کہ قاری ان کی آنکھوں کی نمی بھی محسوس کرسکتا ہے اور فراق کی کیفیت بھی۔

اس کتاب کی اشاعت سے قبل میں نے بھی مبارکہ حیدر کے حوالے سے پاکیزہ ڈائجسٹ کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور جب لیاقت لائبریری اور صفیہ ملک صاحبہ رابطہ کیا اور ان سے تعاون کی درخواست کی تو انھوں نے دونوں میاں بیوی کی والہانہ محبت کے قصے سے سرشار ہوکر مکمل طور پر مدد کرنے کی کوشش کی۔ میں صفیہ ملک کی بے حد شکرگزار ہوں، یقیناً وہ بے حد مخلص اور نیک اطوار کی مالک ہیں۔ لیاقت لائبریری کی خواتین جن کا اتفاق سے مجھے نام یاد نہیں رہا، وہ خود بھی پاکیزہ 1991 شمارہ مئی یا جون کو تلاش کرانے میں ساتھ ساتھ رہیں۔ لیکن تلاش بسیار کے بعد بھی مطلوبہ پرچہ نہ مل سکا۔ بہرحال ’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘ یقیناً پڑھی جانے والی کتاب ایک محبت کرنیوالے شوہر کا اپنی چہیتی بیوی کو خراج تحسین بھی ہے اور نئے لیلیٰ و مجنوں کا قصہ بھی۔ بے شک مبارکہ صاحبہ ان گنت ایسی خوبیوں کی مالک ہیں کہ انھیں چاہا جائے اور قدر کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔