اعزاز یافتگان دبدا میں ہیں

انتظار حسین  پير 17 اگست 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کب کا کہا ہوا ایک مصرعہ ہمیں یاد آ گیا

یہ قصہ ہے یا کچھ کہ افواہ ہے

یہ مصرعہ ہمیں اس تقریب سے یاد آیا کہ سول ایوارڈز کی خبر اس برس کچھ اس پراسرار انداز میں کچھ سننے میں کچھ پڑھنے میں آئی کہ کسی کسی کا نام تو یقین کے ساتھ لیا گیا۔ کسی کسی کے متعلق اس طرح ذکر کیا گیا کہ افواہ تو یہی ہے کہ ملا ہے۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔

قاعدے سے تو 14 اگست کی اخباری اشاعتوں میں یہ خبر قاعدے قرینے سے آجانی چاہیے تھی کہ کون کون شخص کون کون سے اعزاز کا مستحق ٹھہرا ہے مگر یہ خبر اردو کے ایک اخبار میں اس رنگ سے آئی کہ اس سے وابستہ پانچ صحافیوں کو ایوارڈ ملا ہے۔ باقی کسے کسے کون کون سا انعام ملا وہ جانیں ان کا خدا جانے۔ متعلقہ اخبار کا اس سے کیا تعلق۔ بہرحال ہم اتنی خبر بھی پڑھ کر اس اعتبار سے خوش ہو گئے کہ ہمارے یار عزیز مسعود اشعر بھی نوازے گئے کہ ہم تو انھیںصحافی سے بڑھ کر اردو کے ممتاز افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ضمنی طور پر وہ اچھے کالم نگار کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔

کسی نے ہمارے کان میں کہا کہ ارے ایک فکشن رائٹر کہ افسانہ نگار بھی ہے اور ناول نگار بھی اور خیر سے تمہارا دوست بھی ہے وہ بھی اعزاز پانے والوں میں ہے۔ ہم نے پوچھا کہ بھلا کون۔ جواب ملا‘ اکرام اللہ۔ تب ہم نے کتنے اخبار الٹ پلٹ کر دیکھے مگر ان کا نام نظر نہیں آیا۔ خود ان سے پوچھا تو جواب آیا کہ افواہ تو یہی ہے۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔

آج جب ہم یہ کالم لکھ رہے ہیں تو 15 اگست کی تاریخ میں شایع ہونے والے کتنے اخبارات کھلے پڑے ہیں۔ قومی اعزازات کی خبر صرف ایک انگریزی اخبار کے صفحہ کی زینت ہے۔ یہاں اعزاز یافتگان کے ناموں کو پیش کرتے ہوئے ادب کے ذیل میں جو نام دیے گئے ہیں وہ ہم پیش کیے دیتے ہیں۔ وہ نام یہ ہیں۔ مسعود اشعر‘ سحر انصاری‘ ڈاکٹر شہباز ملک‘ ڈاکٹر عطش درانی‘ اعجاز الحسن۔ یہ شرفا ستارہ امتیاز سے نوازے گئے ہیں مگر اکرام اللہ کا نام کسی فہرست میں نہیں ہے۔ مگر اس فہرست میں تو وجاہت مسعود کا بھی نام نہیں ہے۔ حالانکہ کل ان کا نام اعزاز یافتگان میں اس حیثیت سے نمایاں ہوا تھا کہ وہ ایک اخبار کے ان خوش قسمت کالم نگاروں میں شامل ہیں جو اس اعزاز کے مستحق ٹھہرے ہیں۔

ایک دوست نے ہمیں فون کیا کہ نہیں نہیں جس اخبار میں تم نے یہ خبر دیکھی ہے اس پر اعتبار مت کیجیے۔ دوسرے انگریزی اخبار کو دیکھئے۔ وہاں اکرام اللہ کا نام اعزاز یافتگان کی فہرست میں شامل ہے۔

وہ تو خیر اس اخبار میں ہم دیکھ لیں گے۔ اور نہ بھی دیکھیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ تم نے بتایا۔ ہم نے اعتبار کر لیا۔ مگر ہم تو اس پر ماتم کر رہے ہیں کہ جشن آزادی کے موقعہ پر حکومت وقت نے کتنی ممتاز شخصیتوں کو جنہوں نے اپنے اپنے شعبہ میں ناموری حاصل کی ہے اعزازات سے نوازا ہے۔ اس قومی اہمیت کی خبر کا کیا حشر ہوا ہے۔ اور اعزاز پانے والوں کی کیا گت بنی ہے۔ اس کے لیے ہم اپنے پریس کو مطعون کریں یا یہ تصور کریں کہ جس محکمہ کی طرف سے پریس ریلیز جاری ہوا ہے اس نے اپنی نالائقی کا مظاہرہ کیا ہے۔ قومی اعزازات پانے والوں کی یہ درگت۔ ارے محکمہ نے کچھ تو لیاقت دکھائی ہوتی اور کوشش کی ہوتی کہ یہ خبر سلیقہ سے اخباروں میں شایع ہو۔ آخر اس میں صدر پاکستان کی عزت کا بھی تو سوال ہے جنہوں نے ان ناموران پاکستان کے اعزازات کی منظوری دی ہے۔

یہ سول ایوارڈز ہیںجن کا یہ حشر ہوا ہے۔ ویسے ہم یہ عرض کریں کہ سول ایوارڈز کی قسمت ہی کچھ خراب ہے۔ یہ سلوک کچھ اس برس ہی نہیں ہوا ہے اس سے پہلے کی بھی سن لیجیے۔ آغاز کے برسوں میں تو جنھیں یہ اعزاز ملتا تھا وہ بہت عزت پاتے تھے۔ اخباروں میں بڑے اہتمام سے اعزاز یافتگان کے نام شایع ہوتے تھے۔ مگر پیپلز پارٹی کا عہد شروع ہوا تو انھوں نے کیا کیا۔ بھٹو صاحب نے یک قلم اعزازات کا دروازہ ہی بند کر دیا۔ مگر صرف سول ایوارڈز کا۔ فوجی ایوارڈ اسی اہتمام سے جاری رہے۔ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ جو غیر فوجی مخلوق ہے یہ تین میں نہ تیرہ میں۔ وہ کیسے سرکاری اعزازات کے مستحق قرار پائے۔

مگر عجب ہوا کہ جب یہ حکومت رخصت ہو گئی یا اسے رخصت کر دیا گیا تو اس مخلوق کی پھر بحالی ہو گئی سول ایوارڈز پھر جاری ہو گئے۔ یہ دور جرنیل ضیاء الحق کا تھا۔ وہ اپنے وقت کے حاتم نکلے۔ کیسے کیسے نگوں کو نوازا گیا۔ سب سے بڑھ کر درگت پرائڈ آف پرفارمنس کی بنی۔گودڑ میں سے کتنے لال کیسے کیسے برآمد کیے گئے اور انھیں نہال کیا گیا۔ ہاں جب جونیجو صاحب وزیراعظم بنے تو پھر دریا دلی میں تھوڑا فرق آیا۔ مگر کتنا۔

تب اسی حساب سے اخباروں نے بھی اپنی روش بدلی۔ ملٹری ایوارڈز کی تو پوری فہرست بڑے اہتمام سے شایع ہوتی تھی۔ اور ہونی چاہیے تھی۔ فوجی ایوارڈز تو اندھے کی ریوڑیاں نہیں بن سکتے۔ وہاں تو ہر فوجی کے متعلق احتیاط سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے کہ اس نے کونسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ اعزازات سے نوازتے وقت ان کے ریکارڈ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

مگر سول ایوارڈز تو ملا جلا کام ہوتا ہے۔ کچھ قدر شناسی کچھ ذرہ نوازی۔ تو ان کے اعزازات کی خبر کی اشاعت کو زیادہ لازم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ہر برس ہم نے یہی دیکھا کہ ہر اخبار نے اپنے حساب سے کچھ نام چنے اور خبر شایع کر دی۔ سو رفتہ رفتہ پتہ چلتا تھا کہ کس خوش نصیب کو کونسا سرخاب کا پر لگا ہے۔ بہر حال یاروں کی خوشی کا سامان تو ہو ہی جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔