جنرل حمید گل کی روشن یادیں

اسلم خان  پير 17 اگست 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

جنرل حمید گل چل بسے، وہ اچانک سفر آخرت پرروانہ ہوئے۔ بیمار وہ نہیں،اُن کی اہلیہ تھیں جن کی تیمارداری وہ گذشتہ کئی برسوں سے دل وجان سے کررہے تھے۔ بے رحم اورسفاک حقیقت یہ ہے کہ بیمار رہ گیا اور تیماردار چل بسا۔وہ پاکستان کی عسکری تاریخ کا منفرد کردارتھے، اُن کی روشن یادیں اور باتیں اُمڈ آرہی ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کے رضاکارپیادے اور نامور جرنیل سے تعلق خاطر کی تین دہائیوں پر محیط داستان، ایسی کہا نی جس میں بڑے اُتار چڑھاؤ آئے لیکن جرنیل کی محبت اور شفقت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی،کمی نہیں ،اس میں اضافہ ہوتا رہا۔

یہ 90کی دہائی کا آغاز تھا ،جنرل صاحب وردی اتارنے اور سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کی تیاریاں کررہے تھے کہ یہ کالم نگار ایک شام بلا اطلاع وہاں جا پہنچا ۔پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ نے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بیان دے کر بھونچال پیدا کردیا تھا کہ نیک نام محمد خاں جونیجو کی حکومت کی بحالی رکوانے کے لیے انھوں نے سپریم کورٹ کو پیغام بھجوایا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ضیاء مرحوم کے جونیجوحکومت کی برطرفی کے اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کی تھی کہ اب چونکہ عام انتخابات سر پر ہیں اس لیے قوم کو نئے نمایندے چننے کا موقع دیاجانا چاہیے۔

وفاقی دارالحکومت کے تمام بڑے بڑے نامہ نگار جنرل اسلم بیگ کے پیغامبر کے بارے میں قیافوں اور قیاس آرائی کی پتنگیں اُڑا رہے تھے اُس وقت سیاسی اور قانونی میدان کی بعض نامور ہستیوں کا چرچا زبان زدعام تھا۔

لاہور سے نوارد اور نو آموز، یہ کالم نگاررپورٹر کی حیثیت سے اپنی شناخت کرانے اور سکہ منوانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا کہ شہر اقتدار میں اس وقت وقایع نگاروں کی محدود سی دنیا میں یہ جاں جوکھوں کام تھا۔ ہمارے مدیر شہیر ،ہم دم دیرینہ قدرت اللہ چوہدری جنرل اسلم بیگ کے اس پیغامبرکو تلاش کرنے کے لیے خاکسار کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔

اسلام آبادکے نامور، آزمودہ کار، نرم و گرم چشیدہ اورگرگ باراں دیدہ، نامہ نگاروں کی موجودگی میں اس طفل مکتب کی کیا اوقات ،بساط تھی اُنہی دنوں ایک اُداس شام، اس رضاکار پیادے سپاہی کو اچانک اپنا رہبرورہنما جرنیل یاد آیا،جنرل حمید گل ،جن کی محبتیں اور بے پایاں عنایات، زمانے گذرنے،حالات و واقعات بدلنے کے باوجود خاکسار کے لیے بے شمار اور بے کراں تھیں۔

کامل 25برس گذرنے کے باوجود وہ مناظر فلم کی طرح ذہن میں چل رہے ہیں۔ شدید انفلوئنزا کا شکار جنرل حمید گل نے بڑی وارفتگی اور والہانہ طریقے سے اس کوخوش آمد ید کہا، سوال کناں مہمان کی گذارشات سن کر جنرل صاحب نے راز داری کے حلف کی نزاکتیں اور اپنے مقام و مرتبے کے تقاضوں کے بارے میں مجبوریوں سے آگاہ کیا۔لیکن ناآموز ،نوجوان نامہ نگار اپنی دھن میں مبتلا،جنرل اسلم بیگ کے پیغام برکا نام جاننے پر اصرار کیے جا رہا تھا، آخر زچ ہوکر جنرل صاحب نے تجویز کیا کہ میں چارنام لوں اگر ان میں پیغام لے جانے والے صاحب کا نام آگیا تو وہ اثبات میں سر سے اشارہ کردیں گے جونہی اس کالم نگار نے جناب وسیم سجاد کانام لیا تو شناخت کا یہ مشکل مرحلہ آسان ہوگا۔جنرل اسلم بیگ نے جونیجو حکومت کی بحالی رکوانے کے لیے وسیم سجادکو پیغام دے کر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس بھیجا تھا اگلے دن یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوئی جس کے بعد وفاقی دارالحکومت کے بلند وبالا ایوانوں میں مدتوں اس خبر کا چرچا ہوتارہا اورجس کی صدائے باز گشت آج بھی کبھی کبھارسنائی دیتی ہے۔ یہ سب جنرل صاحب کے دست شفقت کا اعجاز تھا کہ رپورٹنگ کے میدان خارزارمیں برسوں کا جان جوکھوں سفر چند لمحات میں طے کرادیا۔

جنرل صاحب کی محبتوں اور عنایات کا کیا کیا ذکر کروں جب بھی اپنی شوریدہ سری کے سبب کسی آزمائش سے دوچار ہوا انھوں نے شجرسایہ دار بن کر مصائب کی کڑی دھوپ سے بچا لیا،جب مرحوم اظہر سہیل نے اپنی اُفتادہ طبع کے ہاتھوں مجبور ہوکر آصف زرداری کے ذریعے ریاستی جبرکا شکار کرنا چاہا تو ہماری پہلی پناہ گاہ ان کاگھر تھا،ہماری دل جوئی کا یہ عالم تھا کہ دو تین روزہ قیام کے دوران جنرل صاحب بالا التزام خود انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرے ہوئے طشت اٹھائے آتے اور پھر اپنے ایک ممدوح جرنیل، کورکمانڈرمنگلاکے پاس بھجوانے کے انتظامات کر لیے تھے لیکن ہمیں تو لاہور میں دوست احباب، متنوع اوررنگین مجالس اپنی طرف کھینچ رہی تھیں سب سے بڑھ کر پیارے شاہ جی، جناب عباس اطہر ہمارے لیے بے چین تھے۔ ہم نے منگلا کے کور کمانڈر کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کے بجائے لاہور کو ترجیح دی، دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ وہ کور کمانڈر منگلا کوئی اور نہیں جنرل پرویز مشرف تھے۔ جنرل حمید گل اس وقت اُن کے لیے رول ماڈل تھے بعدازاں حکمران پرویز مشرف نے امریکی اتحادی بن کر جنرل صاحب سے محبت اور الفت کے سارے رشتے ناطے توڑ لیے، نئے زمینی حقائق کی روشنی میں ایک دہائی تک عالمی اور علاقائی سیاست کے نئے ابواب پڑھتے اور پڑھاتے رہے۔

بولتا پاکستان سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے نصرت جاوید کی انگریزی نثر نگاری کا 90کی دہائی کے آغاز پر چہارعالم چرچا تھا۔ یہ کالم نگاربھی ان کی انگریزی نثرنگاری کاایساعاشق زار تھا کہ نوائے وقت لاہور کے نیوز روم میں ان کے نثرپاروں کو اُردو میں ڈھالنے کامرحلہ درپیش ہوتا تومیرے پیارے شاہ جی یہ توشہ خاص میرے لیے مخصوص کردیا کرتے تھے۔

ناموربیوروکریٹ ایس کے محمود کی ریٹائرمنٹ پر ان کا تعارفی خاکہ ،خاصے کی چیز تھا جس کارواں ترجمہ کرنے کااعزاز اس طالب علم کے حصے میں آیا تھا۔مدتوں بعد جنرل صاحب انگریزی نثر کے حسن و جمال کا ذکر کرتے کرتے اچانک ایس کے محمود اسی پروفائل کا ذکر لے بیٹھے، پھر کیا تھا اس خاکسار نے نصرت جاوید سے اپنے تعلق خاطر کا افسانہ بڑے فخرسے سنادیا ۔جنرل حمید گل نے نصرت جاوید کو کھانے پر مدعو کرنے اور گھر لانے کا حکم دیا، شاہ جی، یہ نصرت جاوید حلقہ خواص میں شاہ جی ہی کہلاتے ہیں بلا توقف آمادہ و تیار تھے۔وہ جنرل کے علم و فضل اور جاہ وجلال دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے اب شائد انھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

تین دہائیوں پر محیط اس سفر کے آخری سالوں میں یہ کالم نگار اصرار کرتا رہا کہ آپ اپنی یادداشتیں مرتب کریں ۔افغان جہاد کے دنوں میں تو امریکی پبلشرز لاکھوں کروڑوں ڈالر قربان کرنے پرآمادہ وتیار تھے لیکن جنرل صاحب نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس اہم معاملے کو التوا میں ڈالے رہے، مدتوں پہلے تواتر سے اُن کے ہاں باقاعدگی سے حاضری دیتا اور ان کے علم وفضل اور دانائی سے استفادہ کرتا رہا ہے، وہ بلند پایہ عسکری حکمت کار اور عالم اسلام کے غم خوار تھے جواُمت مسلمہ کی زبوں حالی پر تادم آخربے چین کڑھتے رہے پھر زمانے بدلے اور لگ بھگ ایک دہائی تک یہ کالم نگار شوق جہاں نواردی میں ایسا گرفتار ہوا کہ سارے رشتے ناطے پس منظر میں چلے گئے لیکن جنرل صاحب نے آس اور اُمید کا چراغ روشن رکھااورواپسی پر اس مسافر کو اُسی والہانہ طریقے سے خوش آمدید کہا جو اُن کی ذات بابرکات کا خاصہ تھی ۔

انکل نسیم بیگ کا فیصل ایونیوپرواقع عالی شان گھر، اختر آنٹی جنت نصیب کی میز ہمارا مرکز و محور تھی۔ جنرل صاحب اس مجلس میں ہمیشہ میرمحفل ہوتے۔ ٹیلی کام، مواصلات کی جدتوں کو پاکستان میں روشناس کرانے والے میاں جاوید، دھیمے مزاج اور نرم گو ڈاکٹر شعیب سڈل کے بعد یہ کالم نگار بھی اس چشمہ فیض سے بہرمند ہوتا رہا ،نیب کے موجودہ چیئرمین جناب قمرالزمان، نامور بیوروکریٹ انورزاہد اور نجانے کون کون جرنیل کرنیل اور ان سے تعلقات بنانے کے خوگر وہاں ڈیرے جماتے انکل نسیم بیگ کی رخصتی کے بعد یہ ڈیرہ اجڑگیا اور ملاقاتوں میں تعطل آگیا ویسے بھی گذشتہ کئی برس سے ان کی اہلیہ ناسازی طبع کا شکار رہیں اور جنرل صاحب نے اپنے آپ کو ان کی خدمت کے لیے وقف کررکھا تھالیکن یہ کیا الم ناک حقیقت ہے کہ بیمارموجود ہے لیکن تیماردار چلاگیا۔

اُمت کا غم خوار ،منفرد عسکری کردار جنرل حمید گل سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔