دکھیاروں کا دیس

منظور ملاح  منگل 18 اگست 2015
mallahmanzoor73@gmail.com

[email protected]

سندھ کا صحرا تھر،جو ڈھٹ، وٹ، امرانو، مہرانو، ونگو جیسے طبعی علاقوں پر مشتمل ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہ نام قدیم زمانے میں اسی صحرا کے شمال مغرب میں ساتھ ساتھ بہنے والے دریا ہاکڑوکے بہاؤ کے مطابق دیے گئے ہیں۔ جہاں گرمی کے موسم میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ جھکڑ چلتے ہیں ، دھول اڑتی رہتی ہے۔ جہاں کے لوگ پانی کی بوند بوند کے لیے ترستے ہیں، صاف پانی پینا تو دور کی بات ہے، بارش کا پانی انسان اور جانوراکٹھے پیے تو بھی شکر کرتے ہیں۔ جہاں لکڑیوں اور تنکوں کے بنے گھر سورج کی تپش کو روکتے ہیں۔ جہاں کے لوگ مال مویشی پر گذارا کرتے ہیں۔ جہاں ننگے پاؤں کو ریت کی تپش برداشت کرناپڑتا ہے۔ جسے شاہ لطیف نے سر عمر مارئی ، سارنگ اور ملہاری میں گایا ہے۔ اگر بارش نہ برسے تو انسانی زندگی بقول لطیف سائیں ’’ آج بھی آنکھوں نے برسنے کی ٹھان لی ہے‘‘ کے مصداق ہے۔

80 کی دہائی تک یہ تھر ملکی اور غیر ملکی اداروں کی آنکھوں سے اوجھل تھا، جہاں مرنے والا اپنا درد صرف بڑے بڑے سفید ٹیلوں ہی کو بتاتا تھا اور گدھ vulturesاس کا شکارکرنے کو تیار بیٹھتے تھے ۔( ویسے بھی آ ج کل مردار خوروں کی نسل زوال پذیر ہے، کہا جاتا ہے کہ آج بھی گدھوں کا سب سے بڑا مسکن یہی تھر ہے) لیکن جب اسی تھر کے بیٹے پاکستان کے نامور ڈرامہ نگار عبدالقادر جونیجو کا تحریر کردہ ڈرامہ ’’کارواں ‘‘جس میں پہلے روحی بانو نے مرکزی کردار ادا کیا لیکن روحی روٹھ گئی تو ہما اکبرنے جگہ لے لی، جب پی ٹی وی پر نشر ہوا تو سب کی آنکھیں کھل گئیں، تھر پہلی بار اس وقت کے طاقتورملکی چینل پرگلیمرائز ہوا تو ہر کسی نے اس طرف کان دھرے۔ وہی تھر، ساون کے موسم میں کھل اٹھا ہے، اس کے لوگ، جانور، حشرات، پودے یہاں تک کہ مٹی بھی مہک اٹھی ہے۔

سندھ کے کلاسیکل شاعروں شاہ عبدالطیف اور شیخ ایاز سے لے کر جدید شاعروں حسن درس اور خلیل کنبھار تک نے اپنی شاعری میں اسی تھر کی دکھی زندگی اور ساون کی خوشیوں کا خوبصورت اظہار کیا ہے، ساون کے موسم میں جب شمال مشرق کے بادل اٹھتے ہیں، تو آسمان کے ساتھ تھریوں کی بھی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں، دل اور دماغ جھوم اٹھتے ہیں ۔گرج چمک کو وہ بادلوں کا کھیل سمجھتے ہیں۔ اس موسم میں جو تھر کے خاندان سندھ کے بیراجی علاقوں میں پھٹی چننے جاتے ہیں، جب اپنے ملک کی طرف کالی گھٹائیں اٹھتے دیکھتے ہیں تو ایک لمحہ گذارنے کے بغیر تھر کا رخ کرتے ہیں۔

آپ کو اس موسم میں کئی قافلے سڑکوں پر رواںدواں ہوتے ہوئے ملیں گے۔ یہ شاید ان کی نسلوں سے اپنی مٹی سے محبت ہے، جسے لطیف سائیں نے ماروی کے حب الوطنی کے کردار کے حوالہ سے پرکشش تخلیقی انداز میں اپنی شاعری میں بیان کیا ہے، یہی تھری قحط کے موسم میں اپنے مال مویشی لے کر پیدل سندھ کے جنوبی خطے ’’لاڑ‘‘کی طرف جاتے ہیں، وہی لاڑ جس کے بارے میں آجکل ایک لوک گیت اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بجلی کی کمی کے موقعے پر قومی اسمبلی میں اس طرح بیان کیا تھا کہ ’’ اے میرے محبوب تو ان گرمیوں میں لاڑ کی سمندری ٹھنڈی ہواؤں کی طرف مجھے چھوڑ کر مت جا، میں تمہیں یہیں اپنے ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دیتی ہوں۔‘‘ وہی لاڑ، جسے سندھی افسانے کے ایک بڑے نام علی بابا نے اپنے لفظوں میں بیان کیا، جسے سندھ کی سریلی آواز جیجی زرینہ بلوچ نے گایا ’’ہم لاڑ کے لوگ، دریا کے آخری سرے کے لوگ، جہاں شمال کی ٹھنڈی ہوائیں ہمارے جسم کو پرسکون بنا دیتی ہیں۔‘‘

جب یہ تھری لوگ بادلوں کی قطاریں آسمان پر اٹھتی دیکھتے ہیں، تو ان کے دل باغ و بہار ہوجاتے ہیں۔ اور وہ بھی اپنی دھرتی کی طرف نکل پڑتے ہیں۔گایوں، بکریوں، بھیڑوں، اونٹوں کے بڑے بڑے ریوڑ، گدھوں پر لدے برتن اورکپڑے ،کندھے پر اٹھائی پانی کی بوتلیں، ہاتھ میں لاٹھی مال کو ہانکتے ہوئے قافلوں کی شکل میں نکلتے ہیں، کہیں کہیں ان کے ساتھ عورتیں، جن کی گود میں اٹھائے ہوئے شیرخوار بچے بھی برستی برسات میں پیدل جاتے ہوئے ملیں گے۔ یہ اپنی زندگی کے دشوار ترین دن گزارتے ہیں، ہر وقت سفر میں، لیکن کمال کے صحت مند لوگ، ان کی عمریں باقی لوگوں کی عمروں سے زیادہ لمبی بھی ہوتی ہیں۔ جن کا راز اونٹنی کے دودھ، کٹھن زندگی اور چلتے پاؤں ہیں۔ یوں ساون کی برساتوں میں تھر کی زندگی جگمگا اٹھتی ہے۔ سوکھے درخت، خشک آنکھیں، نم ہو جاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ تھر کی زندگی ریتی کے ٹیلوں کے آغوش سے پھوٹ نکلی ہے۔

زمین سے نکلتی ہری بھری گھاس اور ان کے درمیان ناچتے مور ایک طرف تو ، ٹیلوں کے بیچ موجود زمین پر گدھوں اور اونٹوں کے ذریعے زمین فصل بونے کے لیے تیار ہوتی ہے۔گوار، باجرہ، مونگ، تل، تربوز، خربوزہ بارش کے موسم میں بوئے جاتے ہیں اور اسی بارش کے پانی سے بڑے ہوکر پھل دیتے ہیں۔

32 امراض کا اکسیر اونٹنی کا دودھ کے پیالے بھر بھر کے پیے جاتے ہیں۔ کنبھٹ کے درخت سے گوند نکال کر 500 سے 800 فی کلوبیچا جاتا ہے، جو کئی دواؤں میں استعمال ہوتا ہے۔ یوں ساون برکھا میں یہی دکھیاروں کا دیس جھوم اٹھتا ہے ۔ پانی کے گھونٹ کے لیے ترستے لوگ ٹیلوں کے بیچ جمع شدھ پانی انسان اور مویشی ملکر پیتے ہیں جسے مقامی زبان میں ترائی کہتے ہیں ۔مگر اسی موسم میں کمزور جسم اور اداس آنکھوں والے پر امن تھری ساون میں زمین کے ایک فٹ پر بھی ایک دوسرے کے سامنے کلہاڑیاں لے کے کھڑے ہوجاتے ہیں یوں پنچایتیں حرکت میں آجاتی ہیں اور پھر آپس میں بھائی بھائی ہو جاتے ہیں ۔اسی ساون میں تھر کے انسان جانور، حشرات، پودے اور خوشبودار ریتی سب متحرک ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔