مذاق یا حقیقت؟ قومی دن پر پاکستانیت پامال!

محمد حسان  منگل 18 اگست 2015
پاکستانی پرچم میں ملبوس یہ رذیل انسان، سر پر اپنی اصلیت کے شیطانی سینگ سجائے ہمارے قومی دن پر ہماری پاکستانیت کو چیلنج کر رہا تھا۔

پاکستانی پرچم میں ملبوس یہ رذیل انسان، سر پر اپنی اصلیت کے شیطانی سینگ سجائے ہمارے قومی دن پر ہماری پاکستانیت کو چیلنج کر رہا تھا۔

آئے دن ٹیلی ویژن پر دیکھنے اور سننے میں آتا ہے کہ ”ہم تو وہ دکھاتے ہیں جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے، ہم تو وہ دکھاتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے، ہمارا میڈیا ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے“۔  وغیرہ وغیرہ۔ یہ خرافات دیکھ اور سن کر ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ شاید واقعی ہمارا معاشرہ اب ایسا ہی ہوگیا ہے۔ میرا سوال ہے کہ جب تک صرف قومی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا یا جب سماجی رابطے کی ویب سائٹس نہیں ہوا کرتی تھیں تو اس وقت ہمارا معاشرہ ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا جیسا کہ آج کل پیش کیا جاتا ہے؟
ایسا ٹی وی چینلز کی بھرمار اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کے آنے کے بعد ہی کیوں ہوا کہ ہمارا معاشرہ اپنے مذہبی، قومی اور معاشرتی اقدار سے کنّی کاٹتا ہوا کسی تیسری مخلوق جیسا ہوگیا ہے جس کا نہ کوئی دین نہ ایمان، بس جب جدھر دل کیا منہ اٹھا کر چل دیئے، تھالی کے بینگن کی طرح جس طرف چاہا لڑھک گئے؟ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو نظر سے گذری جس میں قومی دن پر پاکستانیت کا لبادہ اوڑھے دو ’’شیطان نما‘‘ بگڑی اولادیں ایک سڑک پر بے غیرتی اور ذلالت کے تمام ریکارڈ توڑتی پائی گئیں۔ ایک برقعہ پوش خاتون جو کہ 13 یا 14 سالہ لڑکے کے ہمراہ بائیک پر سوارہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، آپ لوگ مذکورہ منسلک ویڈیو اس تحریر کے ساتھ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
پاکستانی پرچم میں ملبوس یہ رذیل انسان، سر پر اپنی اصلیت کے شیطانی سینگ سجائے ہمارے قومی دن پر نہ صرف ہماری پاکستانیت کو چیلنج کر رہا تھا بلکہ ہمارے پاکستانی چہرے پر بدنما داغ بھی لگا رہا تھا اور بدقسمتی دیکھیے کہ اُن کو روکنے کی کسی نے جسارت نہیں کی۔ روکنا تو دور کی بات کوئی منہ سے ’’بھاپ‘‘ تک نکالنے کو راضی نہیں تھا۔ مجھے وقار ذکاء سے کئی اختلافات ہیں لیکن یہاں میں کھل کر یہ بات کہوں گا کہ وقار ذکاء وہ پہلا شخص ہے جس نے اس بے غیرتی کے خلاف آواز بلند کی اور ہمیں ان کی آواز میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین کی حد درجہ عزت کی جاتی ہے، گوکہ خواتین کو دیکھنا بُرا نہیں سمجھا جاتا لیکن کم از کم پردہ دار خواتین کا احترام ضرور ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے لیکن یہاں تو حد ہی ہوگئی کہ اگر اس طرح باپردہ خواتین کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو ڈوب مرنے کا مقام ایک انتہائی ہلکا استعارہ ہوگا۔ ویسے اس طرح کے واقعات کی صرف مذمت کرنا انتہائی درجے کی بزدلی ہوگی، ایسے واقعات میں ملوث افراد کو مذمت نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انتہائی ڈھٹائی سے اس قسم کی حرکتیں کرکے اپنے والدین کا نام ’’روشن‘‘ کرتے ہیں۔
ایسی ویڈیوز دراصل ترغیبات کے زمرے میں آتی ہیں جو اس قسم کے بے ضمیر لوگوں کو اپنے اندر کی ذلالت باہر نکالنے پر ابھارتی ہیں، جس رفتار سے ہمارے میڈیا پر بے حیائی دکھائی جارہی ہے اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ہمارا سوشل میڈیا اس بے حیائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ جس طرح ہمارے میڈیا پر پیمرا کی صورت میں جیسا بھی ہے مگر ایک چیک اینڈ بیلینس تو ہے نا با لکل اسی طرح ہمارے سوشل میڈیا پر بھی ایک مؤثر نظر کی ضرورت ہے۔
جیسے ہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو طرح طرح کی باتیں بھی سامنے آنا شروع ہوئی جیسے کہ یہ ایک ’’پرانک‘‘ یا ’’پلانٹڈ وڈیو‘‘ ہے۔ یہ وڈیو سچی ہو یا جھوٹی ہمیں اس سے غرض نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ہمارا قومی وقار اور تشخص کس قدر مجروح ہوا ہے، جس طرح قابیل کے نامہ اعمال میں قیامت تک ہونے والے ہر قتل کا عذاب درج ہو رہا ہے۔ بالکل اسی طرح اس ترغیب کے نتیجے میں اگر خدا نخواستہ مزید ایسا کوئی واقعہ ہوا تو وہ بھی ان انسان نما شیطانوں کے بائیں کاندھے پر موجود فرشتے کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاغذات کی زینت بنے گا۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسی حرکت کرنے والے کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے؟

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔