ہم اپنے مریض خود ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 18 اگست 2015

اگرآپ انتہائی مشکلات سے دو چارہیں نا امیدی نے چاروں طرف سے آپ کوگھیرلیا ہے،آپ کے سارے سیدھے کام خودبخود ٹیڑھے ہوتے جارہے ہیں احباب اور رشتے دار آپ کا ساتھ چھوڑچکے ہیں مشکلات اور مسائل ہیں کہ کم ہونے کے بجائے تیزی سے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور آپ اپنے علاوہ باقی سب کو برابھلا کہنے میں مصروف ہیں اور سب کو اپنی تباہی اوربربادی کا خالق سمجھنے لگے ہیں تو پھر آپ دیر نہ کیجیے کسی ایک روز آپ اپنے آپ کو اپنے کمرے میں بند کرلیجیے اورگھر والوں سے کہہ دیجیے کہ جب تک میں خود کمرے سے باہر نہ آؤں کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے ۔

پھر آپ اپنے فون بند کردیجیے اور آرام سے اپنے بستر پر لیٹ جائیے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پی کر اپنے ذہن اور دل کو تمام غم وغصے ، پریشانیوں، تفکر ات اور ناامیدی سے خالی کردیجیے اور انتہائی سچائی،ایمانداری اوردیانتداری سے اس روز سے لے کر آج تک جب کہ آپ نے ہوش سنبھالا تھا اپنے رویے، اپنے خیالات،اپنے احساسات اور واقعات کاانتہائی بے رحمی کے ساتھ آپریشن شروع کردیجیے۔

جب آپ یہ عمل کرنا شروع کردیں گے تو صرف چندگھنٹوں بعد آپ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہوں گے کہ آپ کی تباہی، بربادی، مشکلات اور مسائل کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ خود آپ کو اپنا چہر ہ ہنستا ہوا ملے گا آپ اپنے مسائل، پریشانیوں اور مشکلات کے اکلوتے ذمے دار ہیں باقی سب تو آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرنا چاہتے تھے ۔

لیکن آپ کی مرضی ان کی خواہشات کے بالکل برعکس تھی یاد رکھیں کسی بھی انسان کا اپنے علاوہ کوئی دوسرا دشمن ہو ہی نہیں سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور اس کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچاسکتا ہے اگر وہ انسان خود اپنا دوست ہو تو اور ساتھ ہی اس کی زندگی میں کوئی مشکل کوئی مسئلہ خود اس کی اپنی اجازت کے بغیر داخل ہوہی نہیں سکتا ہے۔

ہم صرف وہ ہی ہیں جو ہم سوچتے ہیں ہم میں سے ہر ایک کی اپنی دنیا ہے اور وہ اس دنیا کو اپنے ذہن سے بناتا ہے۔ انسان بنیادی طورپر ایک جسمانی ڈھانچے کے ساتھ ایک دماغ ہے اس کے گوشت ہڈیوں اور پٹھوں میں 80 فیصد پانی اور چندکیمیکل ہیں لیکن اس کا ذہن اور اس کی سو چ اس کی ذات کا تعین کرتی ہے حتیٰ کہ جب وہ سورہا ہوتا ہے تب بھی اس کے لاشعور میں خیالات کاایک طو فان برپا ہوتا ہے جب آپ سوچنا چھوڑ دیتے ہیں تو آپ جینا چھوڑدیتے ہیں اور آپ ذہنی طورپر مر جاتے ہیں ۔کچھ نفسیات دان کہتے ہیں کہ اگر آپ پانچ سال تک روزانہ ایک گھنٹے کسی بھی مضمون کا مطالعہ گہرائی سے کریں تو پانچ سال بعد آپ اس شعبہ علم کے ماہر ہوجائیں گے ہر شخص مثبت اور منفی سو چ یا تخریبی سوچ اپنانے میں آزاد ہے۔

بدقسمتی سے ہم سب ایک نہیں بلکہ کئی حوالوں سے منفی سوچ اپنانے کا رحجان اپنائے ہو ئے ہوتے ہیں، سیموئیل جانسن نے کہا تھا کہ عام طورپر یہ زنجیریں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ انھیں محسوس نہیں کیا جاسکتا لیکن جب انھیں توڑنے کاارادہ کیاجائے تو وہ بہت مضبوط معلوم ہوتی ہیں۔ ہم سب اپنے آپ کو ایسے ہی خیالات کے چنگل میں قیدکرچکے ہوتے ہیں جو ہمارے حافظے کی تختی پر نقش ہوچکے ہوتے ہیں ۔

اصل میں ایک خوشگوار،خوشحال اور خوشیوں سے بھری زندگی گذارنے کا سیدھا سادہ سا فا رمولا ہے اور ہم سب اسی سیدھے سادے فارمولے سے اچھی طرح سے آگاہ اور واقف ہیں وہ فارمولا ہمارے ہوش سنبھالنے کے پہلے ہی روز ہمارے سامنے آکرکھڑا ہوجاتا ہے اور چیخ چیخ کرکہتا رہتا ہے میںیہاں ہوں، میں یہاں ہوں جس کے نصیب اچھے ہوتے ہیں تو وہ آگے بڑھ کر اسے تھام لیتا ہے اور زندگی بھر پھر کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا ہے اور جو بہرہ اور اندھا بن جاتا ہے تو پھر وہ ساری زندگی دوسر وں کو کوستا رہتا ہے وہ ہی سیدھا سادہ سا فار مولا ہر آسمانی کتاب میں درج ہے کہ آپ اپنی زندگی صبر، شکر ، محنت، ایمانداری، دیانت داری کے ساتھ گذاریں سب کا بھلا سوچیں سب کے کام آئیں جلن، حسد ، حرص، منافقت اور دوسروں کی ٹوہ سے کوسو ں دور رہیں اعتدال کے ساتھ زندگی گذاریں۔

اپنے عقیدے کا احترام کریں اور ساتھ ساتھ ساتھ دوسروں کے عقیدوں کا بھی احترام کریں،کیونکہ خدا ایک ہے اور اس تک جانے کے کئی راستے ہیں اور ہر راستہ سچا ہے۔ یاد رکھیں زندگی کی تمام چیزیں آپ کے حساب سے کبھی آگے نہیں بڑھتیں ہیںکیونکہ ، تمام کے تمام اختیارات وہ جو اوپر بیٹھا ہوا ہے اس نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں آپ جیسا عمل کرتے ہیں بالکل ویسا ہی نتیجہ پاتے ہیں، اگر آپ کا عمل اچھا ہوگا تو آپ کو نتیجہ بھی اچھا ملے گا اور اگر آپ برا عمل کریں گے تو نتیجہ بھی برا نکلے گا۔ آپ ایک چھو ٹا سا تجر بہ کرکے دیکھ لیں آپ اپنے احباب،رشتے داروں میں جن کی زندگی اطمینا ن ،سکون،چین اور خوشگوار طریقے سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

ان کی زندگی کے طور طریقے،ان کے رویے ان کے اعمال کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں تو آپ فورا اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ وہ سب اسی سیدھے سادے سے فارمولے کے مطابق اپنی زندگی گذارنے کی کوشش کررہے ہیں ۔

ذہن نشین رہے کہ پوری دنیا کے ڈاکٹرز، دانشور، فلسفی ،سائنس دان اور ادویات مل کر بھی آپ میں مثبت تبدیلی نہیں لاسکتے لیکن یہ کام آپ اکیلے با آسانی کرسکتے ہیں یعنی آپ اپنے مریض خود ہیں اگر آپ چاہیں گے تو آپ تندرست ہونگے اگر آپ چاہیں گے تو آپ ایک خو شگوار ، سکون بخش زندگی گذاریں گے کیونکہ آپ اپنی زندگی کے تن تنہا سو فیصد ذمے دار ہیں کوئی دوسرا شخص نہ تو آپ کی زندگی کے فیصلے کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے بسرکرسکتا ہے آپ کی زندگی میں وہ ہی کچھ ہو گا جو آپ چاہیں گے ترقی یا تنزلی ، پستی یابلندی ، کامیانی یاناکامی، ہار یاجیت ، اطمینان و سکون یا پھر مسائل ہی مسائل اور مشکلات ہی مشکلات۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔