کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں

نصرت جاوید  جمعرات 18 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بطور صحافی ’’لفافے‘‘ لینے میں نے بہت بعد میں شروع کیے۔

2005ء تک میری ’’رشوت‘‘ کا اصل سامان وہ غیر ملکی دورے ہوا کرتے تھے جو میں اپنے صحافتی ادارے کی جانب سے دیے گئے ٹکٹ اور شرمندگی کی حد تک محدود ڈیلی الاؤنس کے ذریعے کیا کرتا تھا۔ کم پیسوں سے کہیں زیادہ مصیبت کا باعث یہ حقیقت بھی ہوا کرتی تھی کہ مجھے بھارت ان دنوں بھیجا جاتا جب ہمارے اس ازلی دشمن کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہوتے۔ میں2000ء کی وہ رات کبھی نہیں بھول سکتا کہ جب باقاعدہ پاسپورٹ اور ویزے کے ساتھ 20 گھنٹوں کے بذریعہ ریل سفر کے بعد کلکتہ پہنچا تو وہاں کوئی بھی ہوٹل مجھے کمرہ دینے کو تیار نہیں ہورہا تھا۔

مغربی بنگال میں ان دنوں چین کے مارکسی نظام سے متاثر ہونے والے کمیونسٹوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ ان سے وابستہ لوگ جب کبھی سیمیناروں میں ملتے تو پاک و ہند دوستی کی سب سے بلند آواز سنائی دیتی۔ لیکن دوسری طرف کلکتہ میں چھوٹے بڑے تمام ہوٹلوں کو واضح ہدایات ہوتیں کہ کسی بھی پاکستانی مسافر کو شب بسری کے لیے کمرہ نہ فراہم کیا جائے۔ بڑی تگ و دو کے بعد بالآخر 180 امریکی ڈالر کی نقد ادائیگی کے بعد مجھے کلکتہ کے ایک انتہائی جعلی ’’پنج ستارہ‘‘ ہوٹل میں بستر پر لیٹنا نصیب ہوا۔ بھارت میں پیش آنے والی روزمرہ کی مشکلات کے علاوہ مجھے اکثر افغانستان بھی بھیج دیا جاتا اور پھر میری ’’مشکل حالات‘‘ میں رپورٹنگ کرنے کی نام نہاد صلاحیتوں کو ’’سراہتے‘‘ ہوئے عراق اور لبنان کی جنگوں پر لکھنے کی ذمے داری بھی ڈالی جاتی رہی۔

میں وہ دعوتیں بڑی خوشی سے قبول کر لیتا جو اسلام آباد میں مقیم سفارتکار اپنے ملکوں کے تفصیلی دورے یا وہاں ہونے والی کسی عالمی نوعیت کی کانفرنس میں شرکت کے نام پر دیا کرتے تھے۔ میرے سیر سپاٹے کی انتہا کے دن وہ تھے جب مجھے پانچ سال کے لیے جاری شدہ پاسپورٹ کو تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہی دوبارہ بنوانا پڑتا۔

اکثر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ میں لکھنے کے معاملے میں کافی بودا ہوں۔ تخلیقی ذہن کے مالک لوگ تو کسی غیر ملک میں دو ایک روز گزار لینے کے بعد بڑے مزے کے سفر نامے لکھ ڈالتے ہیں۔ انھیں اپنے سفر کے دوران بڑی حسین اور خلیق عورتیں بھی مل جاتی ہیں اور بعض اوقات ایسے افراد بھی جو صرف ایک فقرہ ادا کرنے کے بعد ان کے تخلیقی ذہنوں کو کسی بڑے ہی گمبھیر مسئلے کو ایک نئے انداز سے سمجھ لینے میں فیصلہ کن امداد فراہم کر دیتے ۔

بطور رپورٹر میری سب سے بڑی خامی یہ بھی رہی ہے کہ میں ’’نوٹس‘‘ نہیں لیتا۔ اپنی یادداشت پر بھروسہ کرتا ہوں۔ کاش اپنے غیر ملک قیام کے دنوں میں ایک ڈائری اپنے ساتھ رکھ لی ہوتی۔ جب کبھی کالم لکھنے میں دقت محسوس ہوتی، میں ان ڈائریوں کو کھول لیتا اور کوئی مصرعہ اُٹھا کر پوری غزل لکھ ڈالتا۔ آج کا کالم لکھتے ہوئے مجھے اپنے اندر ایک سفر نگار کی صلاحیت نہ پائے جانے کا قلق کچھ اس لیے بھی زیادہ شدت سے محسوس ہو رہا ہے کہ ملالہ کا ذکر کرنے والے معتوب ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ ملالہ کے ضمن میں ہی کچھ ’’سلام و دُعا والے پیغامات‘‘ مجھے بھی ملے ہیں اور میں گیدڑ ہوں شیر نہیں جو بڑھک لگائے اور فارغ ہو جائے۔ زندگی سے پیار کرتا ہوں۔ مرنے سے ڈرتا ہوں۔ آخرت سے زیادہ خوف تو قبر کے عذاب کا رہتا ہے۔

جنوبی بیروت کے سنسان بازاروں اور محلوںمیں اسرائیل اور حزب اﷲ کی لڑائی کے دنوں میں اکثر گزرتے ہوئے میں نے آسمانوں پر ڈرون طیارے ضرور دیکھے ہیں۔ میں ان کی ساخت اور گھن گرج سے خاصا واقف ہوں تاہم شمالی وزیرستان جانے کا موقع نہیں ملا۔ عمران خان صاحب کی قیادت میں چند دن پہلے جنوبی وزیرستان جانے کا ایک موقع ملا تھا۔ صبح سویرے اُٹھ کر اسلام آباد سے ان کے کاروان کا حصہ بنا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک ہوٹل میں بڑے ہی ’’صاف اور آرام دہ‘‘ بستر پر رات گزاری اور عمران خان صاحب کے بیدار ہو کر عوام میں گھل مل جانے سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ہتھیال کے اس فارم ہائوس بھی پہنچ گیا۔

جہاں سے انھیں جنوبی وزیرستان روانہ ہونا تھا۔ میری بدنصیبی کہ جب خان صاحب کو جنوبی وزیرستان کی سرحد سے ذرا پہلے بتایا گیا کہ ’’آگے خطرہ ہے‘‘ تو انھوں نے اپنی سواری واپسی کے لیے موڑ لی اور میں ڈرون حملوں کا نشانہ بنے معصوم اور بے گناہ شہریوں سے نہ مل پایا۔ کاش خان صاحب خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے اور میں ابھی تک قبائلی علاقوں کے وہ سارے حقائق آپ کو بتا رہا ہوتا جو میڈیا میں بیٹھے سی آئی اے، موساد اور را کے ایجنٹ آپ تک پہنچانا نہیں چاہتے۔

اب تو خود کو ’’آزاد اور بے باک صحافی‘‘ ثابت کرنے کا ایک ذریعہ ہی باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے اس CCTV Footage کا مسلسل ذکر جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی بیٹی ایک بیکری والے کی دھنائی کا سبب بنتی نظر آ رہی ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے، میرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کالم چھپنے سے دو دن پہلے لکھ کر ای میل کرنا ہوتا ہے۔ ٹی وی پر بیکری کا ذکر تو کر دیا ہے۔ مگر اخبارات کے حوالے سے مجھ سے کہیں زیادہ ’’آزاد اور بے باک‘‘ کالم نگار بازی لے جا چکے ہیں۔ محض یہ ثابت کرنے کو کہ مجھے رائے ونڈ سے لفافے نہیں ملتے، کب تک اس معاملے کو دہراتا رہوں؟ خلقت شہر کو تو تازہ مال درکار ہوتا ہے۔

دوسروں کا اُگلا چبانے میں مجھے ویسے بھی مشکل پیش آتی ہے۔ اسی لیے بڑی سوچ بچار کے بعد تمنا ہے کہ میں اپنے میں سے ایک سفر نگار پیدا کر سکوں۔ مجھے اپنے غیر ملکی دوروں میں حسین عورتیں کم ہی ملی ہیں اور خلیق بھی شاذ و نادر ہوا کرتی تھیں۔ انھیں ایجاد کرنے کی صلاحیت مجھ میں نہیں اور ایسے افراد بھی اچانک نہیں ملے جو محض ایک فقرہ ادا کرنے کے بعد کچھ گمبھیر معاملات کے بارے میں میرا ذہن صاف کر دیں۔ کوشش کرنے میں پھر بھی کوئی حرج نہیں۔

مثال کے طور پر آج کل شام کا بہت ذکر ہو رہا ہے۔ میں اس ملک میں تقریباً پانچ مرتبہ گیا ہوں اور ملا جلا کر وہاں تین مہینوں سے زیادہ وقت بھی گزارا ہے۔ دو مرتبہ میں نے ایک کار کرائے پر لے کر شام سے لبنان اور لبنان سے شام تک کا سفر بھی کیا ہے۔ ایک مرتبہ یہ سفر اُردن کے ذریعے بھی ہوا۔1998ء میں دس دن انقرہ اور استنبول میں رہ کر وہاں کے عام انتخابات کا مشاہدہ کیا ہے اور بعدازاں استنبول میرا سب سے پسندیدہ غیر ملکی شہر ہو گیا۔ میں 2005ء تک وہاں چند گھنٹے رکنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔

زیادہ بہتر ہے کہ ملالہ یا ڈرون حملوں کے بجائے نیٹو کے ایک باقاعدہ اور قدیمی رکن، ترکی میں ’’مغربی نظام جمہوریت‘‘کے ذریعے قائم ہونے والی ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کی یاد دلانے والی موجودہ حکومت کے ذریعے شام میں بشار الاسد کی حکومت کو ہٹا کر ’’حقیقی اسلام کے نفاذ‘‘ کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کا اور اپنا ایمان تازہ کروں۔ ایسے کالم لکھنے سے پہلے مگر مجھے عبدالحلیم شرر اور نسیم حجازی کے چند ناول پڑھنے کی شدید ضرورت ہے۔ آج سے کم از کم ان ناولوں کی تلاش کا وعدہ ضرور کرتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔