اگر…

مقتدا منصور  جمعرات 20 اگست 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

تاریخ میں ’’اگر‘‘ کو بہت اہم مقام حاصل ہے ۔اگر اور لیکن یعنیifاور butکی بنیاد پرتاریخ  کے حوالے سے ان گنت مفروضے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً اگر شیر شاہ سوری بارودی ذخیرہ پھٹنے سے جاں بحق نہ ہوتا؟ اگر ہمایوں کو ایرانی حکومت سپاہ فراہم نہ کرتی؟ اگردارا شکوہ ہندوستان کا بادشاہ بن جاتا؟اگر احمد شاہ ابدالی ہندوستان پر حملہ آور نہ ہوتا؟اگر انگریز ہندوستان پر قابض نہ ہوا ہوتا؟تو ہندوستان کا نقشہ کیا ہوتا؟ وغیرہ وغیرہ اسی طرح پاکستان میں بھی ’’اگر‘‘  قائد اعظم جلد وفات نہ پا جاتے۔لیاقت علی خان کو شہید نہ کردیا جاتا۔ ملک غلام محمد نے1954 میں دستور ساز اسمبلی  کو تحلیل نہ کیا ہوتا۔

1955 میں ون یونٹ نہ بنا ہوتا۔1958 میں ایوب خان نے مارشل لاء نہ لگایا ہوتا۔فروری1971 میں بھٹو مرحوم نے ڈھاکا میں ہونے والے سیشن میں شمولیت سے انکار نہ کیا ہوتا۔ حکومت پاکستان نے26مارچ1971ء سے سابقہ مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع نہ کیا ہوتا۔ تو شاید ملک ایسا نہ ہوتا جیسا کہ آج ہے۔ لیکن یہ’’اگر‘‘  اور’’ مگر‘‘ اتنے زیادہ ہیں کہ ان پر درجنوں کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں۔ لیکن آج  کے اظہاریے میں صرف پاکستانی سیاست کی ایک خاص شخصیت  معراج محمد خان کی سیاست اور سیاسی فیصلوں کو نمونے کے طور پر ’’اگر‘‘ کی ترازو میں تولنے کی کوشش کریں گے۔

معراج محمد خان پاکستان کی سیاست میں وہ نیک نام شخصیت ہیں، جنہوں نے طلبہ سیاست سے قومی سیاست تک قومی منظرنامے میں اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال صرف کیے ہیں۔ وہ ملک کے ان معدوے چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، جن کے دامن پر کرپشن اور بدعنوانی کا داغ تو کجا کوئی ایک چھینٹا تک نہیں ہے۔

انھوں نے نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط اپنی سرگرم سیاسی زندگی کے دوران بعض ایسے فیصلے کیے، جنھیں ایک طرف تجزیہ نگار ان کی اصول پرستی قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ناقدین ان فیصلوں کو ان کی سیاسی غلطی سمجھتے ہیں۔ معروضی حالات میں کوئی سیاست دان جو فیصلے کرتا ہے، ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ انھوں نے سیاسی غلطی کی تھی یا ان کی حکمت عملی درست تھی۔ البتہ یہ طے ہے کہ ان کے فیصلوں کے ملک میں بائیں بازو کی سیاست اور قومی سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں۔

1970 کے انتخابات کے موقعے پر کہا جاتا ہے کہ بھٹو مرحوم نے معراج بھائی سمیت بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے17ساتھیوں کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔ان میں سے شیخ محمد رشید مرحوم اور مختار رانا مرحوم سمیت بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چند ساتھیوں نے تو ٹکٹ قبول کرلیے۔مگرمعراج بھائی، ڈاکٹر شمیم زین الدین خان اورطارق عزیزوغیرہ نے انتخابات میں حصہ لینے سے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ تبدیلی کے لیے ’’پرچی نہیں برچھی‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’اگر‘‘  معراج بھائی لیاقت آباد اور ڈاکٹر شمیم زین الدین ناظم آباد کی نشست پر انتخابات لڑنے پر آمادہ ہوجاتے، تو یہ دونوں نشستیں بھاری اکثریت کے ساتھ پیپلز پارٹی کو مل سکتی تھیں۔ یوںکراچی میں 1953 سے سیاست کا جو انداز شروع ہوا تھا، اس کے جاری رہنے کا قوی امکان ہو سکتا تھا۔

چند روز پہلے سینئرصحافی اورقومی محاذآزادی کی جانب سے MRDکے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رہنے والے علمدارحیدر سے ماضی کی سیاست پر گفتگو ہو رہی تھی۔انھوں نے اس خبر کی تصدیق کی جو ہمیں ایک دوست نے دو دہائی قبل بتائی تھی۔خبر یہ تھی کہ جنرل ضیا کے ہاتھوں حکومت کی معزولی اور مری میں دو ہفتوں کی قید سے رہائی کے بعد جب بھٹومرحوم کراچی تشریف لائے ، تو انھوں نے الفتح کے چیف ایڈیٹرارشاد راؤ سے کہا کہ وہ معراج محمد خان (جو اس وقت جیل میں تھے)سے رابطہ کر کے ان سے کہیں کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر پارٹی کی قیادت اس شرط پر سنبھال لیں کہ بلوچستان میں جاری آپریشن سے لاتعلق رہیں گے۔

علمدار حیدر کے مطابق ارشاد راؤ نے ان سے رابطہ کر کے کہا کہ وہ یہ پیغام معراج محمد خان کو پہنچائیں۔علمدار حیدر NSFکے زمانے سے معراج محمد خان کے بہت قریب رہے تھے۔پیپلز پارٹی چھوڑنے کے بعد جب معراج بھائی نے قومی محاذ آزادی بنائی تو علمدار حیدر اس کے بانی اراکین میں بھی شامل  تھے۔ علمدار حیدر کہتے ہیں کہ انھوں نے معراج بھائی سے ملنے سے پہلے ان کے بڑے بھائی منہاج برنا سے ملنے کو ترجیح دی۔ برنا مرحوم نے علمدار حیدر کو مشورہ دیا کہ معراج کسی طوریہ آفر قبول نہیں کرے گا۔ تمہارے خالی ہاتھ واپس آنے پر بھٹو تم پر شک کریگا جب کہ دوسری طرف معراج تمہیں بھٹو کا آدمی سمجھیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ کچھ دن کے لیے شہر سے غائب ہوجاؤ۔ علمدار کہتے ہیں کہ وہ کچھ دنوں کے لیے غائب ہوگئے۔

’’اگر‘‘ بھٹو مرحوم کا پیغام معراج محمد خان تک پہنچ جاتا اور وہ اسے قبول کرلیتے تو شاید پیپلز پارٹی کا آج یہ حشر نہ ہوتا، جس کا وہ شکار ہوچکی ہے۔

کم از کم یہ امید کی جاسکتی تھی کہ اس کی سیاست اپنے ابتدائی نظریات سے نہیں ہٹ پاتی اور اس کا روشن خیال رخ زیادہ نمایاں ہوتا۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور پیپلز پارٹی وقت گذرنے کے ساتھ اپنے ابتدائی نظریات سے ہٹتی چلی گئی اور اس پر فیوڈل گرفت بھی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے قیام کے ابتدائی دنوں میں جب ایک بانی رکن حق نواز گنڈاپور قتل کیے گئے تو بھٹو مرحوم کو بھی یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کچھ نادیدہ قوتیں انھیں بھی سیاسی منظر نامے سے ہٹا سکتی ہیں۔

اس لیے انھوں نے وصیت کی تھی کہ اگر انھیں کچھ ہوجائے تو تین رہنماء ترتیب وار پارٹی کے سربراہی سنبھال لیں۔ان میں احمد رضا قصوری، معراج محمد خان اور غلام مصطفیٰ کھر شامل تھے۔ لیکن 28فروری1971 کومینار پاکستان کے جلسے کے بعد جب احمد رضا قصوری اور مختار رانا کے بھٹو مرحوم سے اختلافات ہوئے تو انھوں نے احمد رضا قصوری کا نام جاں نشینوں کی فہرست سے خارج کردیا  لیکن معراج محمد خان کے لیے ان کا نرم گوشہ برقرار رہا۔ 1974 میں وزارت سے علیحدگی اور پیپلزپارٹی سے مستعفی ہونے کے بعد جب معراج محمد خان نے قومی محاذ آزادی کی بنیاد رکھی تو اس میں ترقی پسند اور روشن خیال سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد کراچی سے خیبر اور بولان سے گلگت و بلتستان تک شامل ہوگئی۔

یہ کوئی بڑی جماعت نہیں تھی، لیکن بائیں بازو کی نمایندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ قومی محاذ آزادی نے 1981ء میں بننے والے اتحاد تحریک برائے بحالی جمہوریت(MRD)میں بھرپور کردار ادا کیا۔14 اگست 1983 سے شروع ہونے والی تحریک میں چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود سب سے زیادہ اس کے کارکن گرفتار ہوئے اور انھوں نے بدترین سزائیں بھگتیں۔ جب کہ فاضل راہو شہید کی زیر قیادت عوامی تحریک نے سندھ بھر میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔

1997 میں جب قومی محاذ آزادی کے عمران خان کی تحریک انصاف میں انضمام کی بات چل رہی تھی۔ راقم کی اپنے قریبی دوست بصیر نوید کے ساتھ معراج محمد خان سے ان کی رہائش گاہ پر طویل ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں  نے معراج بھائی کے سامنے اپنے تحفظات رکھے اور کوشش کی کہ وہ اپنی جماعت کو تحریک انصاف میںضم نہ کریں۔ راقم کا کہنا تھا کہ قومی محاذ آزادی کا بائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے اپنا ایک تشخص اور شناخت ہے۔جب کہ تحریک انصاف کوئی واضح نظریہ نہ رکھنے کے سبب ایک بے سمت مسافر ہے۔ اس لیے وہ ان کے سیاسی کیرئیر پر ایک بوجھ بن سکتی ہے۔

مگر معراج بھائی نے قلم کے مزدوروں کے مشورے کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی جماعت کے تحریک انصاف میں انضمام کا فیصلہ کرلیا۔ مگر یہ عقد بمشکل پانچ برس چل سکا اوراپریل2003 میں علیحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد معراج بھائی کی بڑھتی ہوئی عمر اور بیماری کی وجہ سے وہ اپنے کارکنوں کو دوبارہ مجتمع نہیں کرپائے۔یوں قومی محاذ آزادی بحال نہ ہوسکی۔ آج اس جماعت سے فکری اور نظریاتی وابستگی رکھنے والے سیکڑوں کارکن مایوسی کے عالم میں یا تو گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں یا پھر ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔

ہم گزشتہ بیس برس سے ایک ایسی جماعت کی تشکیل کے منتظر ہیں، جو اپنی سرشت میں جمہوری، سیکولر اور روشن خیال ہو جوسرد جنگ کے دور میں جنم لینے والے تنازعات کا آج کی دنیا کی حقیقتوں کے مطابق حل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہو جو اسٹبلشمنٹ کے ناجائز مطالبات کے آگے سرجھکانے کے بجائے اقتدار کو لات مارنے کی جرأت رکھتی ہو۔

پاکستانی عوام بھی ایک ایسی سیاسی جماعت کی خواہش رکھتے ہیں جس کی قیادت انھی کے درمیان سے ابھرے اور انھی جیسی ہو۔تاکہ اسے ان کے مسائل کا واضح ادراک ہو جن سے عوام گذر رہے ہیں ۔ معراج محمد خان ایک ایسے ہی عوامی رہنما ہیں۔ مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر اور بیماری کے سبب ان میں وہ توانائیاں نہیں ہیں، کہ ایک بار پھر ملک گیر جماعت کو منظم کرسکیں۔ وطن عزیز میں طلبہ سیاست پر پابندی کے باعث ایسا قحط الرجال پیدا ہوگیا  ہے کہ ہمارا معاشرہ کوئی دوسرا معراج محمد خان پیدا نہیں کر پایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔