کتاب اللہ ہی آئین

اوریا مقبول جان  جمعرات 20 اگست 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

جب کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم کو مملکت خداداد پاکستان کا اساسی آئین مان لیا جائے اور یہ مثال بھی دی جاتی ہے کہ اس دنیا کے نقشے پر ایک ملک اسرائیل ہے جس نے اپنی الہامی کتابوں کو اساسی آئین کا درجہ دے رکھا ہے اور وہ آج تک امور مملکت بحسن و خوبی چلا رہا ہے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت اور سیکولر طرز زندگی کے دلدادہ طرح طرح کی دلیلیں لے کر سامنے آتے ہیں۔

سب سے پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرآن حکیم کی تعبیر اور تشریح پر سو طرح کے اختلافات ہیں تو پھر کون سی تعبیر نافذ العمل ہو گی۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ وہ لوگ کہتے ہیں جو اس آئین پر یقین رکھتے ہیں جس کی تشریح اور تعبیر میں بہتر فرقوں سے بھی زیادہ اختلاف موجود ہے۔ مسلمانوں میں کوئی فرقہ ایسا نہیں جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ قرآن کو نہیں مانتا یا پھر یہ کہے کہ قرآن ہمارے مسائل کا حل نہیں جب کہ آئین پاکستان کو نہ ماننے والے یا اس کے بارے میں یہ دعویٰ کرنے والے کہ یہ ہمارے مسائل کا حل نہیں پیش کرتا‘ بے شمار ہیں‘ اور کئی ایک تو وزارت اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔

اس آئین پاکستان کی سو طرح کی تعبیریں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں پارلیمنٹ ججوں کی بحالی کی ایک طرح تعبیر کرتی اور سپریم کورٹ کی بحالی والے وکلا کوئی اور۔ جماعت اسلامی کی تشریح ایم کیو ایم سے مختلف ہے اور اے این پی کی پی ٹی آئی سے۔ یہاں تک کہ آئین پاکستان کی تشریح کا واحد آئینی ادارہ سپریم کورٹ ہے۔ یہ سپریم کورٹ چند سال پہلے یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اس آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے اور اس کے مخالف کوئی ترمیم پارلیمنٹ نہیں کر سکتی‘ لیکن موجودہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے  برعکس یہ تشریح اور تعبیر کی کہ قرار داد مقاصد سمیت اس آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ہے اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ جب جو چاہے کر سکتی ہے۔

ایک سپریم کورٹ اسے اسلامی قرار دیتی ہے اور دوسری اسے بالکل سیکولر جمہوریت کی طرز کا حق دے دیتی ہے۔ لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود‘ ان ہزارہا لا یعنی تشریحات کے باوصف یہ آئین گزشتہ 42 سال سے نافذ ہے اور کوئی دانشور یہ اعتراض نہیں کرتا کہ کونسی تشریح نافذ کریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کو اساسی آئین کا درجہ دے کر ماڈرن ریاست کیسے چلائی جا سکتی ہے۔ دنیا کی موجودہ ماڈرن قومی ریاستوں میں دو طرح کے قوانین ہیں۔

ایک اساسی آئین جو رہنما اصول مرتب کرتا ہے اور دوسری اس کی تابع (Sabordinate) قانون سازی۔ اساسی آئین ہمیشہ مختصر اور ملک کے اساسی نظریے کی تشریح کرتے ہیں جیسے جمہوریت‘ سیکولرزم‘ انسانی حقوق‘ آزادی‘ مساوات وغیرہ۔ جب کہ تابع قانون سازی ان اصولوں کے نفاذ کے طریق کار کو وضع کرتی ہے۔ اسرائیل نے یہی کیا ہے۔ انھوں نے اساسی آئین کی حیثیت تورات اور تالمود کو دی اور پھر کاروبار مملکت چلانے کے لیے تابع قانون سازی کر لی۔

ان قوانین میں پارلیمنٹ‘ انتخابات‘ صدارت‘ معاشی معاملات‘ سزا وجزا وغیرہ سب شامل ہیں‘ حتیٰ کہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت کہنا بھی ایک تابع قانون ہے‘ بنیادی آئین نہیں ہے۔ برطانیہ میں یہی حیثیت اقدار و روایات کو حاصل ہے۔ اسی لیے انھوں نے کوئی تحریری آئین مرتب نہیں کیا۔ قرآن پاک کو ملک کا اساسی آئین ماننے کے بعد آپ کو صرف ایک آئینی عدالت بنانے کی ضرورت ہے جس میں ہرفقہہ اور ہر تعبیر کے علما جنھیں آپ موجودہ زبان میں مسلم جیورسٹ کہتے ہیں‘ وہ ممبران ہوں اور وہ ہر تابع قانون کو جانچ پرکھ کر بنا سکیں کہ یہ کس حد تک بنیادی اساسی آئین یعنی قرآن حکیم سے مختلف ہے اور دوسرا یہ کہ قرآن حکیم کی فلاں آیت کا کیا مفہوم ہے جس پر قانون بنایا جائے۔

یہاں برطانیہ کے نظام میں اقدار و روایات کی طریق کار بھی تعبیر و تشریح کے لیے اپنائی جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم کی تعبیر و تشریح صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار ہے اور قرآن ہی اطاعت رسول کو واجب قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں جو اقدار و روایات کا ایک تسلسل ہے وہ احادیث اور سنت رسول ﷺ کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے بعد اس کی مزید آنے والے حالات کے مطابق تشریح ہے۔

اسلام کے اس نظام حکومت کی ترتیب خودرسول اکرمؐ نے اس وقت بیان فرمائی جب حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا۔ ’’آپؐ نے پوچھا ’’اگر کوئی قضیہ پیش ہوا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟ انھوں نے کہا ’’قرآن مجید میں پائے جانے والے احکام کے ذریعے۔ آپ نے دریافت فرمایا ’’اگر قرآن میں نہ پاؤ‘‘ معاذ نے کہا ان فرمودات کے ذریعے جو رسول ﷺ کی سنت میں ہوں‘ آپؐ نے دریافت فرمایا اگر رسول کے فیصلوں میں ایسا کوئی حکم نہ ملا تو؟ معاذؓ نے کہا ’’میں اپنی سوچ اور رائے کام میں لاؤں گا اور کوتاہی ہرگز نہ کروں گا‘‘۔ آپؐ نے ان کا سینہ تھپک کر فرمایا ’’شکر ہے اللہ کا جس نے رسول اللہؐ کے رسول کو اس بات کی توفیق دی جو رسول اللہؐ کو پسند ہے۔ (ابو داؤد‘ ترمذی)۔ یہ ہے اسلام کا اساسی دستور اور آئین جو صرف قرآن و سنت ہے۔

اس کے ساتھ کسی دوسری تحریرکو نتھی کر کے یا اسے کسی آئینی دستاویز میں تحفظ دینا مقصود نہیں بلکہ اسے مکمل طور پر ایک اساسی آئین تسلیم کرنا ہے۔ اس کے بعد باقی تمام تابع قوانین اس کی تشریحات کی بنیاد پر مرتب کیے جاتے ہیں۔ یار لوگوں نے میثاق مدینہ کو موجودہ مغربی سیکولر جمہوری قومی ریاستوں کے تحریری آئین کا ماخذ قرار دیا ہے حالانکہ اس کی حیثیت ایک آئین نہیں بلکہ ایک تابع حکم نامے کی ہے۔

اس کی پہلی شق ہی اس کی تشریح کرتی ہے۔ ’’یہ ایک حکم نامہ ہے نبی اور اللہ کے رسولﷺ کا قریش اور اہل یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور ان کے ہمراہ جنگ کریں‘‘۔ یہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کو تابع کہا گیا اور پھر دوسری شق میں یہ اعلان کیا گیا ’’تمام دنیا کے لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (امت) ہو گی‘‘۔ یعنی امت کا تصور میں ایک ایسی سیاسی وحدت ہے جس میں مسلمان حکمران ہوں اور دیگر مذاہب کے لوگ تابع ہوں۔ اس حکم نامے کی پہلی 23 شقیں مسلمانوں کے متعلق ہیں جنھیں ’’فی کتابہ للمھا جر بن و انصار‘‘ کہا گیا اور 24 سے 47 شقیں یہودیوں سے متعلق ہیں جنھیں ’’ووقع می کتاب رسول اللہ صلعم لیھود‘‘۔ یہاں واضح کیا گیا کہ یہ یہود کے نام رسولﷺ کا حکم نامہ ہے۔

اس حکم نامے کے تحت تمام عدالتی‘ تشریحی‘ فوجی اور دیگر انتظامی اختیارات رسول ﷺ کی ذات میں مرکوز تھے جو وحی الٰہی سے فیصلہ کرتے تھے۔ اس حکم نامے کو صرف وحی الٰہی منسوخ کر سکتی تھی۔ کسی پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہ تھا۔ اسی لیے جب یہ حکم آیا کہ حرم کی حدود سے تمام غیر مسلموں کو نکال دو تو کیا آج کسی میں جرات ہے کہ میثاق مدینہ کو دلیل بنا کر دوبارہ ان کو مکہ اور مدینہ میں آباد کرے اور ویسا ہی طرز حکومت اختیار کرے۔

اس کا مطلب ہے کہ مسلم امہ کے لیے اساسی آئین قرآن ہے جس کی تشریح و تعبیر سنت رسول اللہ ہے۔ مثالیں دی جاتی ہیں کہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کے کہنے پر کتاب الخراج لکھی اور محاصل کا نظام وضع کیا۔ کیا ایسی کسی بھی قسم کی کوشش کو آئین کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ کیا دنیا کے کسی بھی آئین میں اس کے ٹیکس کے قوانین درج کیے جاتے ہیں۔

موجودہ ریاستوں کا آئین یہ طے کرتا ہے کہ ہمارا معاشی نظام سودی معیشت اور آزادانہ منڈیوں کی تجارت پر مبنی ہے اور اس کے زیر سایہ قوانین بنتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے ہمارا نظام معیشت غیر سودی ہے اوراس تجارت آزادانہ نہیں اسلامی اخلاقیات کی پابند ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن وہ تمام اصول اور پالیسی گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے جو آج کے موجودہ آئین کی ضرورت ہے تو پھر اس کو آئین کیوں نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہی وہ مقام اختلاف ہے۔

اس لیے کہ مروجہ آئین کی مقدس کتاب کی خلاف ورزی کی سزا موت بھی رکھ دیں پھر بھی اسے توڑا‘ بدلا اور معطل کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا آئین اور یہ طرز زندگی خود مرتب کریں۔ لیکن اگر ایک دفعہ قرآن کو اساسی دستور مان لیا گیا تو اسے صرف وحی الٰہی ہی تبدیل کرسکتی ہے اور وحی کا دروازہ خاتم النبینؐ کی رسالت کے ساتھ بند ہو چکا۔ یہ اللہ کی بادشاہت اور حاکمیت کے ساتھ عوام کی بادشاہت اور حاکمیت کی جنگ ہے۔

میرا ان تمام فقہیان ملت اور علمائے امت سے سوال ہے جو خلافت علیٰ منہاج البنوہ پر یقین رکھتے ہیں یا پھر رسول اللہ کی بشارت کے مطابق حضرت مہدی کی خلاف یا پھر غیبت کیبریٰ کے بعد صاحب الزمان امام مہدی کی آمد پر یقین رکھتے ہیں اور تمام سنی اور شیعہ فقہیان اس پر متفق ہیں۔ کیا امام مہدی کی حکومت موجودہ مغربی استعمار کی بنائی گئی اقوام متحدہ کی ممبر ہو گی‘ کیا وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سودی نظام کی محتاج ہو گی۔

کیا وہ عالمی قوانین حقوق نسواں اور مذہبی آزدی کی تابع ہو گی‘ کیا اس کا عدالتی نظام رومن لاء کی پیوند کاری ہو گی۔ تمام علماء و فقہا اس کا جواب یقیناً نفی میں دیں گے۔ اس لیے کہ رسول ﷺ کی دعوت کا ایک مقصد ایسے آئین کی بادشاہی ہے جو صرف اور صرف قرآن اور سنت رسول اللہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔