قصہ ایک خط کا

انتظار حسین  جمعرات 20 اگست 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

مسعود اشعر کا تازہ کالم برائے نام مسعود اشعر کا کالم ہے۔ اصل میں یہ ایک خط ہے جو مسعود اشعر کی معرفت ہمارے نئے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی خدمت میں روانہ کیا گیا ہے۔ مکتوب نگار ہیں انوار احمد‘ اردو کے جانے مانے ادیب کہ اس زبان کے معتبر ادبی نقاد ہیں۔ افسانہ نگار کے طور پر بھی نام پیدا کیا ہے۔

عمر اردو کی درس و تدریس میں گزری۔ ادھر سے فارغ ہوئے تو مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین بنے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خط لکھنے والا کوئی ایرا غیرا نہیں ہے۔ اگر اس نے اردو زبان کے مسئلہ پر چیف جسٹس صاحب کو یہ سوچ کر خط لکھا ہے کہ وہ قومی زبان کے مسئلہ کو ایک سنجیدہ مسئلہ جان کر اسے حل کرنے میں کوشاں ہیں‘ لہذا کیا مضائقہ ہے کہ اس ضمن میں چند باتیں ان کے گوش گزار کی جائیں۔ مگر لگتا ہے کہ وہ کب سے بھرے بیٹھے تھے۔ موقعہ ملا تو ابل پڑے اور ابلتے ہی چلے گئے؎

لکھتے نامہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

اے بھائی انوار احمد‘ یہ تو سوچا ہوتا کہ ہمارے محترم چیف جسٹس صاحب کے پاس صرف تیئس دن ہیں خط تم نے اتنا لمبا لکھا ہے کہ اسے پڑھتے پڑھتے ہی تئیس دن ہیں گزر جائیں گے لیکن شاید انوار احمد کے پیش نظر فراقؔ کا یہ شعر تھا؎

یہ مانا زندگی ہے چار دن کی
بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی

جنھیں کچھ نہیں کرنا ہوتا وہ عمر خضر بھی لے کر آئیں تب بھی کوتاہی عمر کا عذر کرتے کرتے ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ جنھیں کچھ کر گزرنے کی چیٹک ہوتی ہے وہ اس تھوڑے وقت میں بھی جو بخیل زمانے نے انھیں مشکل سے دیا ہوتا ہے وہ کیا کچھ کر جاتے ہیں۔ تو بہت ہوتے ہیں یارو چار دن بھی اور تئیس دن بھی۔

ارے بھائی ہم تو اسی پر خوش تھے کہ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ حلف برداری کی مبارک رسم قومی زبان میں ادا ہوئی۔ اور ہاں ایک چھوٹا سا کام اور ہوا کہ چیف جسٹس صاحب کے دفتر کے باہر ان کے نام کی تختی اردو میں لگائی گئی۔ ایسے کام بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بہت چھوٹے نظر آتے ہیں۔ مگر ان کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔

ہاں انوار احمد نے محترم چیف جسٹس کو خط لکھا اور بہت کچھ گوش گزار کیا۔ اچھا کیا۔ مگر خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ اب اس چٹھی سے حوصلہ پا کر کتنے یار و اغیار لمبے لمبے خط جسٹس موصوف کو لکھیں گے۔ ایسے بھی ہوں گے جو بتائیں گے کہ ہمارے تو سب وزیر امیر سفیر ماشاء اللہ گلوبل زباں میں رواں ہیں۔ اس سرخاب کے پر کے ہوتے ہوئے ہم اردو کو اپنی قومی زبان بنا کر اپنی عزت میں کونسا اضافہ کریں گے۔

خیر یہ تو یوں ہی سی بات تھی کہ بیچ میں آ گئی۔ ہم اصل میں اس خط پر انوار احمد کو داد بھی تو دینا چاہتے تھے۔ بظاہر یہ خط طویل ہے لیکن جس طرح انھوں نے بحوالہ پاکستان اردو کی رام کہانی کو سمیٹا ہے تو وہ تو یوں سمجھئے کہ کوزے میں دریا کو بند کیا ہے۔ سب کچھ تو گوش گزار کر دیا۔ اب کونسی بات کہنے کے لیے رہ گئی۔ آخر میں وہ بات بھی کہہ دی جس کے لیے لمبی چوڑی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔ تئیس دنوں میں اسے بخیر و خوبی نبٹایا جا سکتا ہے۔

یعنی یہ جو اردو لغت بورڈ اور مقتدرہ قومی زبان ایسے اداروں میں سربراہوں کی کرسی کتنے سالوں سے خالی پڑی ہے۔ آخر کیوں۔ ارے یہی تو طریقے ہیں علمی ادبی اداروں سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے۔ ایسے نسخے اب سے پہلے آزمائے جا چکے ہیں۔ کہ ایسے کسی ادارے کا سربراہ جو اپنی علمی ادبی حیثیت کی وجہ سے صدر نشین بنا بیٹھا تھا وہ کسی جائز یا ناجائز وجہ سے وہاں سے رخصت ہو گیا۔

سال گزرا‘ دو سال گزرے۔ سربراہ کی کرسی خالی پڑی ہے۔ ادارے میں جو بھی کام ہوتا آیا تھا اسے تو رکنا ہی تھا۔ تب سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس ادارے کی کارکردگی کیا ہے۔ رپورٹ دی جاتی ہے کہ کارکردگی صفر ہے۔ پھر یہ ادارہ کیوں گھسٹ رہا ہے‘ کس مد میں ایسے گرانٹ دی جا رہی ہے۔ پھر اسے بند کر دیا جائے یا پھر کسی دوسرے ادارے میں جس کا کام اس سے چلتا چلتا ہے اس میں ضم کر دیا جائے۔ ایسی تجویزیں پیش ہوئیں اور ادارے کا بستر لپیٹ دیا گیا۔

ہاں اس خط میں مقتدرہ قومی زبان کا جو ذکر ہوا ہے اس کے سلسلہ میں یہ بھی سن لیجیے کہ یہ ادارہ اب مقتدرہ قومی زبان نہیں ہے۔ اس کا نام بدل دیا گیا۔ اس کا نیا نام رکھا گیا ادارہ فروغ قومی زبان۔ اس خط میں ادارے کا ابتدائی اصل نام لکھ کر جو منسوخ ہو چکا ہے بریکٹ میں یہی نام لکھا گیا ہے یعنی ادارہ فروغ قومی زبان۔ اسی کالم میں یہ پوچھا گیا تھا کہ ادارے کا ایک مستقل نام چلا آ رہا تھا۔ اسے کس خوشی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں یہاں صدر نشین تھے انوار احمد۔ انھوں نے وضاحت کی کہ نام کی اس تبدیلی کا ذمے دار میں نہیں ہوں۔ پتہ چلا کہ کسی بیوروکریٹ کو یہ سوجھی کہ ادارے کا نام بدل دیا جائے۔

آخر کیوں‘ وجہ کوئی نہیں۔ بس بدل دیا جائے۔ اور ہم اس لیے چونکے کہ ایک ادارہ اسی عمل میں بند ہوا تھا کہ ایک مرتبہ اس کا نام بدلا تو پھر بدلتا ہی چلا گیا۔ بالآخر اس کا نام ہی مٹ گیا۔ یہ تھا وہ ادارہ جو صدر ایوب کے زمانے میں پاکستان کونسل کے نام سے قائم ہوا تھا۔ تجویز کچھ اس قسم کی تھی کہ جس طرح انگلستان نے ملک ملک اپنی برٹش کونسل قائم کر رکھی ہے کہ سفیروں سے بڑھ کر علمی سطح پر سفارتی فریضہ انجام دیتی ہے ویسے ہی یہ ادارہ بھی کام کرے گا۔ تھوڑے دنوں بعد جب مشرقی پاکستان کے آرٹسٹ اور دانشور اسی وسیلہ سے مغربی پاکستان آنے جانے لگے۔

تو سوچا کہ اس نام میں برائے قومی یکجہتی کا اضافہ کر دیا جائے۔ اس چکر میں اس کا نام ٹھہرا‘ پاکستان سینٹر برائے قومی یکجہتی۔ مگر جب مشرقی پاکستان سے قطع تعلق ہوا اور وہ بنگلہ دیش بن گیا تو ’برائے قومی یکجہتی‘ کا پھندنا اس نام سے منہا ہو گیا۔ مطلب یہ کہ اب تو وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا اور جس کی وجہ سے قومی یکجہتی کا سوال کھڑا ہوا تھا۔ وہ مسئلہ تو خود بخود حل ہو گیا۔ اس کے بعد بھی شاید نام میں کچھ ترمیم ہوئی تھی۔ بس اسی روز روز کی ترمیم تنسیخ میں ایک ایسا وقت آیا کہ خود ادارہ ہی منسوخ ہو گیا۔

ایسے کتنے ہی ادارے کسی نہ کسی بہانے پہلے ویران ہوئے۔ پھر نوبت یہ آئی کہ ع

آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

شاید ان اداروں کے بارے میں جس کا خط میں ذکر ہوا ہے کچھ ایسے ہی اندیشے ہیں کہ انوار احمد نے ان کی طرف توجہ دلائی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔