تخلیق کائنات کی وجہ دریافت ہو گئی تو۔۔۔ ؟

غلام محی الدین  اتوار 23 اگست 2015
’’سرن‘‘ کی ایسوسی ایٹ رکنیت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پاکستان کی قابل فخر کارکردگی کے باعث ممکن ہوئی ۔  فوٹو : فائل

’’سرن‘‘ کی ایسوسی ایٹ رکنیت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پاکستان کی قابل فخر کارکردگی کے باعث ممکن ہوئی ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  گذشتہ سال جب یہ خبر گرم ہوئی کہ پاکستان کوآئندہ سال جون تک سائنس کی تنظیم سرن میں ایسوسی ایٹ ممبر کی حیثیت مل سکتی ہے، تو فزکس میں دل چسپی رکھنے والوں اور خاص طور پر بھارت نے ایک نمائشی لیکن معنی خیز مسکراہٹ  کے بعد خاموشی اختیار کرلی تھی۔

اس کا ایک ہی مطلب تھا ’’ ہمارے ہوتے ہوئے ۔۔۔۔۔ کیسے ممکن ہے‘‘ لیکن یکم اگست 2015 کو جب یہ خبر شائع ہوئی کہ ممبر شپ مل چکی ہے تو اس سنگل کالم خبر نے حاسدین کی معنی خیز مسکراہٹوں کوغم و اضطراب میں بدل دیا۔ پاک چین راہداری معاہدے کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کی یہ دوسری کام یابی ہے، جس نے بھارت کی نیند حرام کر دی ہے۔

خبر یہ تھی کہ پاکستان یورپی یونین جوہری تحقیقی تنظیم (سرن: (Conseil Européen pour la Recherche Nucléaire))کا باضابطہ ایسوسی ایٹ رکن بن گیاہے۔ پاکستان رکن بننے والا،یورپی یونین سے باہر تیسرا اور ایشیا کا پہلاملک ہے۔ اس تنظیم کی رکنیت کے لیے پاکستان جوہری توانائی کمیشن (پی ای اے سی) قومی مرکز برائے طبعیات (این سی پی) اور وزارت خارجہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یادرہے کہ بھارت 1970سے اس تنظیم کی رکنیت کے لیے مسلسل کوشاں تھا مگر اس کے باوجود اُسے ایسوسی ایٹ رکنیت نہیں ملی۔ رواں سال بھی بھارت کی ہر کوشش ناکام ہوئی لیکن پاکستان کو یہ رکنیت مل گئی۔

اسی تنظیم کی رکنیت کے لیے روس ،چین جنوبی کوریا، ملیشیا اور جاپان بھی کئی سال سے کوشاں ہیں۔ بھارت سمیت دیگر ممالک کو یہ علم ہے کہ پاکستان کی رکنیت سائنسی ، جوہری اور اقتصادی میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کرے گی۔ممبر شپ مل جانے کے بعد ملک کو صنعتی، انسانی وسائل، ٹیکنالوجی اور دیگر اہم شعبوں میں قابلِ قدر فائدے ملیں گے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی ممکن ہوجائے گی۔

سوئیزرلینڈ اور فرانس کی سرحد کے درمیان واقع سینٹر فار نیوکلیئر ریسرچ ( سرن) ایٹم کے پر امن استعمال کا ایک بین الاقوامی کنسورشیم بھی ہے، جس میں درجن بھر سے زیادہ ممالک اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اب ان میں پاکستان بھی شامل ہوچکا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ اپنی درست ترین مینوفیکچرنگ (پرزہ جات)کے باعث پاکستان کو رکنیت کا حق دار قرار دیا گیاہے۔

سوئیٹزرلینڈ کا یورپی جوہری ریسرچ سنٹر سرن ’’ہگس بوسن‘‘(خدائی ذرے) کی دریافت کے بعد اب نئی سانئسی دریافتوں کی تیاری میں مصروف ہے اور اب’’ گرینڈ کولائڈر‘‘ کا ماڈل تیار کر کے اندھیرے سے جنم لینے والی توانائی کے راز پر پڑے پردے کو اٹھانے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ تجربہ تین سال تک جاری رہے گا اور اس پر14 ٹریلین ڈالر خرچ ہوں گے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس نئی تحقیق سے ایٹم کے چھے نئے پارٹیکل دریافت ہوں گے۔

یورپی یونین ذرائع کے مطابق پاکستان جوہری توانائی کمیشن ، قومی مرکز برائے طبعیات اور یورپی یونین جوہری تحقیقی تنظیم کے مابین 1994 میں مشاورت کا آغاز ہو تھا۔ 1997 میں باہمی تعاون کے فروغ کے لیے ایک پروٹوکول پر دستخط کیے گئے۔ پاکستان نے فروری2013 میں یورپی یونین جوہری تحقیقی تنظیم کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔ اکتوبر 2013  میں پاکستان کوایسوسی ایٹ کا رکن بننے کے مثبت اشارے ملے، جن کو قبل ازوقت ظاہر نہیں کیا گیا تھا۔

یورپی یونین جوہری تحقیقی تنظیم کی ایک چار رکنی اعلیٰ سطح کی تکنیکی ٹیم نے اپنے ڈائریکٹر تحقیق اور سائنسی اہداف کے انچارج ڈاکٹر سرگیو برٹولوسی کی قیادت میں10 تا 14 فروری 2015 کوپاکستان کاپانچ روزہ دورہ کیا اور پاکستان کی سائنسی صلاحیت ،ترقی،صنعتوں میں سائنسی کردار، تحقیق اور ترویج کابغور جائزہ لیا اور اِس سلسلے میں ایک مربوط رپورٹ سرن سیکرٹریٹ میں جمع کرائی ۔

سرن کی جنرل کونسل نے ابتدائی طور پر19جون 2014 کو ایسوسی ایٹ رکنیت کے لیے پاکستان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے تنظیم کی رکنیت فراہم کرنے کی حامی بھرلی تھی۔ ترکی اور سربیا کے بعد پاکستان یورپی یونین تنظیم سے باہر ممالک میں تیسرا اور یورپی یونین جوہری تحقیقی تنظیم (سرن)کی ایسوسی ایٹ رکنیت حاصل کرنے والاپہلا ایشیائی ملک ہے ۔

پاکستان میں نیشنل سنٹر فار فزکس کے سربراہ ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن حورانی نے اس موقع پر کہا تھاکہ ہمیں ایسوسی ایٹ ممبر کا درجہ اس لیے ملا کہ پاکستان اور ’’سرن‘‘ کے درمیان ایک معاہدہ 19دسمبر 2014 کو ہوا تھا ، اس پر ’’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘‘ کے چیئرمین اور ’’سرن‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل نے دستخط کیے تھے۔جینیوا میں پاکستان کے مستقل مندوب ضمیر اکرم کی طرف سے ’’سرن‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل کو ’’انسٹرومنٹ آف ریٹیفیکیشن‘‘ کی فراہمی کے بعد31 جولائی 2015 کو باقاعدہ طور پر ایسوسی ایٹ ممبر کا درجہ مل گیا ہے۔+

’’سرن‘‘ کی ایسوسی ایٹ رکنیت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پاکستان کی قابل فخر کارکردگی کے باعث ممکن ہوئی ۔ یہ ہماری’’جوہری توانائی‘‘ کے پرامن استعمال میں مثبت کردار کا اعتراف بھی ہے۔ پاکستان سرن کے ایک اہم ترین تجرباتی منصوبے ’’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘‘ ایل ایچ سی میں پہلے ہی قابل ذکر کردار ادا کر چکا ہے۔اب بطور تنظیم ایسوسی ایٹ رکن کے مزید فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس توقع کا اظہار بھی کیا گیا کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور سائنس کے شعبے میں ملنے والی کامیابیوں سے بالآخر پاکستانی عوام کو فائدہ پہنچے گا۔

ایسوسی ایٹ رکن بننے سے قبل بھی پاکستان ’’سرن‘‘ کے مختلف منصوبوں میں کام کرتا رہا ہے اور اس کے سائنس دان و انجنیئر وہاں جا کر اپنا کردار ادا کرتے رہے۔’’سرن‘‘ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی ایسوسی ایٹ ممبر شپ سے سرن اور پاکستان کے سائنس دانوں کے درمیان اشترک مضبوط ہو گا اور تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی۔ جوہری تحقیق کی یورپی تنظیم کے مطابق ایسوسی ایٹ رکن کی حیثیت ملنے سے پاکستان سرن کی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کر سکے گا۔ اب پاکستان کے سائنس دان سرن کے اسٹاف ممبر بن سکیں گے اور تنظیم کے تربیتی پروگراموں میں بھی حصہ لے سکیں گے۔

دنیا بھر میں درجنوں لوگ حیران ہیں کہ ، پس ماندہ اور بدعنوانی کے سیلاب میں ڈوبے اس ملک کو رکنیت کیے مل گئی؟ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی تکنیک،اس تکنیک میں ایک خاص طرح کی جدت،اس ٹیکنالوجی کا کامل تحفظ اور کئی ایک ترقی یافتہ ممالک سے بہتر نتائج نے سرن کے سانئس دانوں کوحیران کردیا تھا۔اپنی ایٹمی قوت کی حفاظت کے حوالے سے پاکستان آج بھی متعدد ممالک سے آگے ہے۔

ایٹمی نظام میں آج تک خرابی پیدا نہ ہونے سے لے کر دیگرمحرکات نے بھی پاکستان کی ساکھ کو سہارادیا جب کہ امریکا،روس،بھارت،چین ، فرانس اورجاپان کی کارکردگی اس حوالے سے مثالی تسلیم نہیں کی جاتی۔اس کے بعد جب 27 پاکستانی سائنس دانوں نے خدائی ذرے کے حالیہ تجربے میں حصہ لیا تو تب بھی ساتھی سائنس دان ان کی قابلیت سے مرعوب ہوئے۔

اس تجربے میں استعمال ہونے والے بیشتر پرزے اور سامان پاکستان نے تیار کیے تھے، جن کی مالیت دس ملین ڈالر،یعنی ایک کروڑ ڈالر کے برابر تھی۔ ہیوی میکینیکل کمپلیکس میں تیار کیے جانے والے اس سامان کا میعار اس قدر بہترین تھا کہ پاکستان کو ’’بیسٹ سپلائر ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ یہ محض چند ایک معروضات ہیں جب کہ اس کے علاوہ لیاقت اور قابلیت کی ایک لمبی کہانی ہے لیکن ہم آپ کو ایک اور کہانی سناتے ہیں،جس کو پڑھ کے انسان بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

سورج سے10 لاکھ گنا زیادہ حرارت پیداکی گئی تھی:۔
فرانس اور سوئیزرلینڈ کی سرحدوں پر زیر زمین واقع تجربہ گاہ سرن میں یہ منفرد تجربہ سات نومبر 2014 کو کیا گیاتھا، جس کے ذریعے ’’بگ بینگ‘‘ جیسے لمحات پیدا کیے گئے۔ منی بگ بینگ کے تجربے کے دوران پروٹون کے بجائے سیسے کے ایٹم کوآپس میں ٹکرایا گیا، اس سے سورج کے مرکز سے دس لاکھ گنا زیادہ حرارت پیدا ہوئی۔

اس تجربے کے دوران انجنیئرز نے ذرات کی ایک شعاع کو ستائیس کلو میٹر طویل زیر زمین سرنگ نما مشین سے گزارا ۔ پانچ ارب پاؤنڈ کی لاگت سے تیار ہونے والی اس مشین میں ذرارت کو انتہائی طاقت سے آپس میں ٹکرانے کے بعد کائنات کی تخلیق کے معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس طریقۂ کار سے سائنس دانوں کو امید بندھ چکی ہے کہ وہ یہ معلوم  گے کہ کس طرح تیرہ ارب ستر کروڑ سال پہلے بگ بینگ کے ایک سیکنڈ کے دس لاکھ ویں حصے میں کائنات نے ’’پلازمہ ‘‘ تیار کیا تھا۔ برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر اور تجربہ گاہ میں ریسرچر کے طور پر کام کرنے والے ڈیولاایوانز کا کہنا تھا کہ ذرات کو آپس میں ٹکرانے کے تجربے سے ہم بلند ترین درجۂ حرارت ، کثافت اور ٹھوس پن کی مقداریں حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کامیابی نے ہمیں پرجوش کردیا ہے۔

ایک سیکنڈ کے ایک کھربویں حصے میں:،
سائنس دانوں نے اس ذرے کو مرکز و محور قرار دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جب کائنات عدم سے وجود میں آئی تو بگ بینگ کے ایک سیکنڈ کے ایک کھربویں حصے میں یہ ذرہ معرض وجود میں آیا اور اس ذرے نے اسی عرصے میںتوانائی کے لامحدود سمندر کو مزید پھیلنے کی بجائے اپنی جانب سمیٹنا شروع کردیا تھا،ورنہ توانائی توانائی ہی رہتی اور موجودہ شکل اختیار نہ کرتی ، اگر آج بھی اس ذرے کا  اربوں سال پرانا کردار کسی وجہ سے ختم ہوجائے تو یہ کائنات ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے میں دوبارہ توانائی کا بے کراں سمندر بن جائے گی اور ہماری گلیکسی’’نظام شمسی‘‘ کے علاوہ دیگر شمسی نظام ہائے بھی تباہ و برباد ہوجائیں گے۔

یہ تصور حضرت جون ایلیا کے اس مصرعے کا غماز لگتا ہے کہ ’’ کُن کہا اور بن گئی دنیا‘‘ تو دوسری جانب صاحبان علم اس تصور کو سورہ فاطر کی آیت نمبر41 کے مفہوم سے بھی تعبیر کررہے ہیں جو یوں ہے’’خدا ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھتا ہے کہ ٹل نہ جائیں۔ اگر وہ ٹل جائیں تو خدا کے سوا کوئی ایسا نہیں جو ان کو تھام سکے۔ بے شک وہ بردبار (اور) بخشنے والا ہے‘‘۔

روشنی کی رفتار سے تیز تر :۔
اسی ذرے کی ایک دوسری خاصیت بھی سامنے آچکی ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے جب کہ اب تک ساری جدید سائنس کا دار و مدار ہی روشنی کی رفتار پر قائم ہے۔ اسی کی رفتار کو اکائی مان کر وقت کا تعین کیا گیا ہے۔ایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اب وقت کی نئی اکائی وضع کی جائے گی ؟ اگر ایسا ہوا تو پھر آنے والے وقتوں میں موجودہ عہد کی سائنسی ترقی پس ماندہ اور فرسودہ تصور ہوگی۔ وقت کی نئی اکائی کیا کیا جدت لائے گی اس کے متعلق ابھی صرف سوچا جا سکتا ہے کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا۔

اندھیرا بھی توانائی ہے؟ :۔
اس ذرے کی دریافت کے بعد اندھیرے کی توانائی بھی سوال بن چکی ہے ۔اس پر بھی سرن کے سائنس دان کام شروع کرچکے ہیں۔ صاحبان علم حیرت زدہ ہیں کی سورج کی روشنی جب خلا کی وسعتوں سے گزر کے زمین یا دیگر سیاروں اور ستاروں کی طرف سفر کر رہی ہوتی ہے تو خلائی وسعتیں مہیب اندھیرے میں ڈوبی رہتی ہیں لیکن جب یہ ہی روشنی کسی جامد شے سے ٹکراتی ہے تو اُسے روشن کر دیتی ہے، وہ نظروں کی گرفت میں آجاتی ہے۔ خلا میں روشنی توہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی،کیوں نظر نہیں آتی؟سائنس دان سوچ رہے ہیں؛ آپ بھی سوچیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔