شاہ

جاوید قاضی  ہفتہ 22 اگست 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

عجیب تھے ہمارے شاہ لطیف سائیں۔ گو انھیں صوفی شاعر کہتے ہیں، میں انھیں ماڈرن شاعر سمجھتا ہوں، سمے (وقت) کی باریکیوں کو جتنا آپ نے چھوا شاید ہی برصغیر کے کسی شاعر نے چھوا ہو۔ وہ مولانا جلال الدین رومی اور بھگت کبیر کا ملاپ تھے۔ مگر محقق نے اس کے کبیر والے پہلو کو کم کردیا ہے، بہت سے اشعار تو ان کے ایسے ہیں جو ہو بہو جیسے رومی کا ترجمہ ہوں۔ چونکہ آج کا موضوع ’’شاہ‘‘ پر نہیں ہے، اس کے کسی زاویے پر یا نکتے پر نہیں ہے۔

بس ایک حوالہ ہے سمے کے حوالے سے اور بات ہے میرے پیارے پاکستان کی جس کی Narrative میں فہم و فراست کا فقدان ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’سردی ہو یا گرمی، تم چلتے رہو، کہیں پھر ایسا نہ ہو کہ محبوب کے پاؤں کے نشانوں کا پتہ نہ پاسکو۔‘‘ یہ جو ’’پیر نہ لہین  سپریں جو‘‘ کا کوئی ترجمہ نہیں ہوسکتا، جو اوپر بیان کیے ہوئے شعر میں آخر میں آتا ہے۔ جس کا ترجمہ پیش کرنے کی میں نے جرأت تو کی ہے لیکن یہ تب ہی سمجھ آئے گا جب آپ سسی داستان کے پس منظر سے واقف ہوں، سندھ کی تاریخ و ثقافت سے آشنائی رکھتے ہوں، صوفی مزاج کو سمجھتے ہوں، رمز و نیاز (Passion) سے انسیت رکھتے ہوں۔

کوئی خیال ہوں، کسی جستجو کی امنگ کی ترنگ میں غلطاں ہوں۔ کیونکہ مجھ جیسے بندے کے لیے ’’شاہ‘‘ کو سمجھنا اہم نہیں، اس کو محسوس کرنا یا اس کی باریکیوں کو چھو لینا اہم ہے۔ تبھی تو سندھ کے شعور میں ’’شاہ‘‘ لاشعور ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سندھ کا موجودہ طریقہ پیداوار پسماندہ ہے، جاگیرداری و زرعی ہے، لیکن ایک دن سندھ نے اس جاگیرداری کو شکست دینی ہے جس کی دیوار کو پاکستان کے مخصوص نظام نے سنبھالے رکھا ہوا ہے اور آج کل یہ فرسودہ نظام آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کے جاگیرداری مفادات کے مرہون منت قائم ہے اور جب یہ شکست آئے گی ’’شاہ‘‘ اور بنیادیں پکڑے گا اور گایا جائے گا۔

’’شاہ‘‘ بنجارہ تھا، زمین کی کشش ثقل ہے اوپر بھلے اس کے پاؤں زمین پر تھے، مگر اپنے زماں و مکاں کے شکنجوں سے لاپرواہ یا یوں کہیے آزاد یا بڑا تھا۔ اس کا ذہن کسی کشکول کی مانند تھا، جس میں ہر خیال بے حجاب، بے خطر آن پڑتا تھا۔ آپ بنیادی طور پر سیلانی تھے۔ بادشاہوں میں ایسی صفت روس کے بادشاہ پیٹر دی گریٹ میں پائی گئی۔ یہ روس کے وہ بادشاہ تھے جس کے نانا نے کسی خانہ بدوش لڑکی جو ہندوستان کے راجستھان سے کئی صدیاں پہلے بمعہ مویشی اور اپنے جھونپڑوں کے ساتھ ہجرت کی تھی، نے شادی کی تھی، اس لیے پیٹر دی گریٹ کا رنگ کچھ کچھ ایشیائی یا یوں کہیے سندھی تھا۔ بارہ سال کی عمر میں اکبر بادشاہ کی طرح تخت پہ بیٹھا۔ وہ اکبر بادشاہ جس کی پہلی بیوی ’’جودا بائی‘‘ راجستھانی تھی۔

’’شاہ‘‘ کو میرا بائی کا راجستھان موہ لیتا ہے، اس کو گجرات کا شہر کھمبات اپنے اندر سما لیتا ہے کہ اس کے کلیات ’’شاہ جو رسالو‘‘ میں ایک باب’’سُر کھمبات‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ اور یہ باب شاہ کے ’’پارکھو‘‘ (محقق) کہتے ہیں کہ جمالیات یا حسن پر مبنی ہے۔ عجیب تھے ’’شاہ‘‘، عام تھے، عوام تھے، کہاں تھی سندھی زبان اس وقت شرفاؤں کی زبان۔ وہ لوگ تو فارسی پڑھتے تھے، خوش نصیبی سے شاہ نے کیونکہ شرفا خاندان سے تھے فارسی پڑھی۔ ان کے بڑے قندھار سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔

لیکن شاہ جو تھا وہ ریت و رسموں کا کہاں تھا۔ فارسی پڑھنے سے اسے رومی پڑھنے کو ملی، عربی پڑھنے سے اسے قرآن پڑھنے کو ملا اور یہ دو کتابیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے، مگر کیسے ممکن ہے وہ میرا بائی سے ناآشنا ہوں، وہ کبیر سے تو بالکل ہی ناآشنا نہیں تھا کیونکہ بہت سے ان کے اشعار میں کبیر کا رنگ کھلا نمایاں ہوتا ہے۔ شاہ نے اپنی شاعری کو عام لوگوں کی زبان میں کہا۔

کبھی مچھیروں کو قریب سے دیکھا، تو کبھی سمندر کی ایال تھامے کشتیوں کو لنگر انداز ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ وہ وقت ہے جب یورپ سے بڑی بڑی کشتیاں لنگر انداز کے ٹی بندر وغیرہ کے ساحلوں پر ہوئی تھیں، جب ٹھٹھہ اپنے عروج پر تھا۔ ایک طرف سندھ اب نئے طریقے سے دریافت ہورہا تھا۔ وہ جو بیوپار و تجارت کے پرانے راستے جو قندھار سے سینٹرل ایشیا کو جاتے تھے اس کے ساتھ اس سمندر سے یورپ کے لوگ بھی آنے لگے۔ ’’شاہ‘‘ نے اس منظر کو بھی رقم کیا ہے۔

اس کا ’’سرما مرنڈی‘‘ اسی پس منظر میں ہے۔ شاہ ہندوؤں کو تیزی سے اقلیت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اسے ریاست اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ چلنا کچھ اچھا نہیں لگا تھا۔ ’’شاہ‘‘ کا زمانہ سندھ کی آزاد ریاست ابھر کے آنے والے زمانے ہیں۔ آپ بیس سال سے بھی چھوٹے تھے جب دہلی میں اورنگزیب اختتام کو پہنچتے ہیں، تیس سال کے تھے جب شاہ عنایت صوفی نے دہلی کی ریاست کو چیلنج کیا۔ یہ پہلی دہقانوں کی تحریک تھی۔ آپ پچاس کی عمر کے قریب تھے جب نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کیا تھا۔ سندھ کے حاکم دہلی کے سندھ کے گورنر نور محمد شاہ کلہوڑو بھی آخر اپنے آپ کو سندھ کا بادشاہ صادر کرتے ہیں۔

میرے لیے ’’شاہ‘‘ آیندہ وقتوں کے شاعر تھے، وہ مستقبل میں دیکھنے کی وسعت رکھتے تھے۔ وہ تجارت کے فہم سے بخوبی واقف تھے۔ وہ مارکیٹ میں “Recession” کے زمانوں کو بھی بخوبی موضوع بحث لاتے تھے۔

وہ دریا کی موجوں سے محبت کرتے تھے۔ وہ اس عظیم Indus کے اپنے زمانوں میں راوی تھے۔ وہ انڈس جس نے سکندر اعظم کو آگے بڑھنے سے روک کے رکھا، ہڑپہ، موئن جو دڑو کی وارث وادی سندھ۔ وہ موئن جو دڑو جس کے بارے میں محقق کہتا ہے جہاں عورت سماج تھا، یعنی عورت کا راج تھا۔ اس لیے انتہائی امن کا متوالا تھا، ورنہ اتنی ترقی یافتہ ریاست موئن جو دڑو کا بھی اپنا ایک بہت بڑا فوجی لشکر ہوتا۔ ’’شاہ‘‘ نے اس وادی سندھ کے عورت راج سے اپنے آپ کو بہت قریب پایا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ کی بہت ساری سورما عورتیں ہیں۔

غور سے دیکھا جائے تو یہ پورا پاکستان وادی سندھ ہی تو ہے۔ بلھا، باہو، فرید ہی تو ہے، سچل، سامی، شیخ ایاز، خوشحال خان خٹک ہی تو ہے۔ لداخ کے آبشاروں سے شروع ہوتی ہوئی دریائے سندھ کی طنابیں جب ایک دریا بن کے تربیلا سے یا اٹک سے شروع ہوتی ہیں تو اس میں دریائے کابل جذب ہوتا ہے، پھر راوی، جہلم، چناب، ستلج، بیاس اور ان سارے دریاؤں میں ایک دریا ہے جو بالآخر سمندر میں پڑتا ہے۔ جس کی اپنی ایک ڈیلٹا ہے جو پاکستان میں کسی بھی دریا کی نہیں۔ ’’شاہ‘‘ ان Mangrove جنگلات پر بھی لکھتے ہیں جو ڈیلٹا میں پائے جاتے ہیں، اور کس طرح سمندر کو یہ جنگلات اندر آنے سے روکتے ہیں۔

مجھے یہ ساری باتیں تب یاد آئیں جب ہمارے مودی صاحب دبئی میں 75 ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ ان کے ساتھ کرتے ہیں۔ تو کوئی پریشانی کی بات نہیں، جو امریکا کے قریب ہے وہ اس طرح سے اپنے تعلقات استوار کرے گا۔ ہم امریکا سے دور بھی نہیں ہوئے مگر ہم اب اپنی بنیادوں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں نا کہ اب کسی اور کی بے ساکھیوں پر۔

افسوس اس بات کا ہے ہماری قیادت اب بھی عربوں کا دم چھلا ہو کے رہنا چاہتی ہے۔ سندھ کا effective دارالحکومت دبئی ہے اور پاکستان کا ریاض۔

ہم نے کبھی بھی عام لوگوں کو ابھرنے نہیں دیا اس کے برعکس ہم ان کو اور غربت کی لکیروں کے نیچے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے کرپشن کرکے ان کے فلاحی نظام کو مفلوج کردیا ہے۔

اب تیزی سے وقت گزرتا جا رہا ہے۔ اس لیے ہمیں ’’شاہ‘‘ کی اس بات پر عمل کرنا ہوگا کہ ’’سردی ہو یا گرمی ہمیں چلتے جانا ہے، ورنہ یہ نہ ہو کہ محبوب کے پاؤں ہم نا پاسکیں‘‘ بہت تیزی سے وقت بدلتا جا رہا ہے، یار اغیار ہوگئے اور اغیار یار۔ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے نا کہ بے ساکھیوں پر۔ ہم نے اگر ماضی کو ماضی نہ بنایا تو مشکل ہوگی۔ ہمیں موئن جو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسیلا کا وارث ہونا ہے۔ ہمیں وادی سندھ کی ہزاروں سالہ تاریخ میں اپنے تلاش کرنے ہیں، نا کہ حملہ آوروں اور غاصبوں میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔