خلاء میں اگیں گی سبزیاں

سید بابر علی  اتوار 23 اگست 2015
 اس منصوبے کو مریخ پر سلسلۂ حیات قائم کرنے کی اہم کڑی قرار دیا جارہا ہے ۔ فوٹو  : فائل

اس منصوبے کو مریخ پر سلسلۂ حیات قائم کرنے کی اہم کڑی قرار دیا جارہا ہے ۔ فوٹو : فائل

خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے سائنس دانوں نے رواں ماہ ایک اور تاریخ رقم کی۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود خلانوردوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی تصاویر میں3 خلا بازوں کو خلائی اسٹیشن میں اگائے گئے سلاد کے پتے کھاتے ہوئے دکھایا گیا۔

خلا میں تازہ سبزیاں اُگانے کے منصوبے ’ویگی‘ کی کام یابی کو مریخ پر سلسلۂ حیات قائم کرنے کی اہم کڑی قرار دیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 15ماہ قبل بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر سلاد کے بیج بھیجے گئے تھے۔ خلا میں سبزیاں اُگانے کے تجربات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن انہیں انسانی صحت کے لیے موزوں قرار نہیں دیا گیا تھا، تاہم VEG-01 نظام میں اُگنے والی سبزی صحت بخش اور غذائیت سے بھر پور ہے۔ ناسا کی اس عظیم الشان کارکردگی پر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’’طویل مسافت والے خلائی مشنز میں سب سے اہم مشکل مرحلہ خلابازوں کو تازہ خوراک کی فراہمی ہے۔‘‘

ناسا کے سائن دانوں کا کہنا ہے کہ خلا میں تازہ سبزیوں کا استعمال بھرپور غذایت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خلانوردوں کی دماغی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ کیوں کہ طویل عرصے تک اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب اور زمین سے لاکھوں میل فاصلے پر رہنے سے اُن پر سائیکولوجیکل اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ خلا میں اُگنے والے پودوں سے نہ صرف خلابازوں کا زمین سے دوری کا احساس کم ہوگا، بل کہ اُن کی کارکردگی اور صحت میں بھی بہتری آئے گی۔

اس منصوبے کی سربراہی کرنے والی ڈاکٹر Gioia Massa کا کہنا ہے کہ ہر سپلائی کے ساتھ خلابازوں کے لیے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر گاجر اور سیب جیسے تازہ پھل اور سبزیاں پہنچائی جاتی ہیں، لیکن ان کی تعداد محدود ہوتی ہے اور انہیں فوراً ہی کھانا ضروری ہوتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ خلا میں سبزیاں اگانے کے لیے ایک خصوصی نظام ’ویگی‘ بنایا گیا اور اس نظام کے تحت پہلا تجربہ ’’ویج- 01‘‘ کیا گیا۔

مائیکرو بلاگنگ سائٹ پر شایع ہونے والی تصاویر میں سلاد کا رنگ گلابی دکھائی دے رہا ہے، جو نیلی اور سرخ ایل ای ڈی لائٹس کی وجہ سے ہے۔ سلاد کے پتوں کے جامنی اور گلابی مائل رنگ کے بارے میں ڈاکٹر Gioia کا کہنا ہے کہ یہ رنگ سرخ اور نیلی ایل ای ڈی لائٹس کے ملاپ کا نتیجہ ہے، کیوں کہ سبز ایل ای ڈیز کی نسبت انہیں (سُرخ اور نیلی ) زیادہ روشنی خارج کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ سبز ایل ای ڈیز تو اس لیے شامل کی گئی تھی تاکہ یہ (پودے) انوکھے جامنی رنگ کے بجائے کھائے جانے والی غذا کی طرح دکھائی دیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ پودوں کی اچھی نشوونما کے لیے نیلی اور سُرخ ویو لینتھ (برقی لہروں کا درمیانی فاصلہ) کی کم سے کم ضرورت پیش آتی ہے۔ اور غالباً برقی طاقت کے تغیر میں یہ سب سے زیادہ موثر ہے۔ سبز ایل ای ڈی سے انسان کے پودوں کے متعلق بصری تصو رات کو مزید اُجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے، لیکن ہم دیگر دو رنگوں (سُرخ اور نیلا) کے برعکس اس کا استعمال کم کرتے ہیں۔

٭ خلا میں سبزیاں اُگانے کا طریقۂ کار
اگر ہم کوئی پودا لگائیں، تو کیا وہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی مائیکرو گریویٹی (کشش ثقل کا بہت کم ہونا) میں نمو پاسکے گا؟ یہ وہ سوال تھا جس کا جواب جاننے کے لیے خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا اور بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود خلابازدن رات تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔ اس مقصد کے لیے امریکی ریاست وسکنسن کی آربیٹل ٹیکنالوجیز کارپوریشن (ORBITEC)نے خلا میں پودوں کی نمو کرنے والے نظام ’ویجی‘ کو تشکیل دیا، جس پر بعدازاں فلوریڈا کے کینیڈی خلائی مرکز پر مختلف تجربات کیے گئے۔

کام یاب آزمائشی تجربے VEG-01 کے بعد اپریل 2014 میں اپنی نوعیت کے پہلے تازہ غذا پیدا کرنے والے نظام ’ویگی‘ کو کیپ کارنیوال کے خلائی مرکز سے تیسرے کارگو سپلائی مشن اسپیس ایکس 3 کے ذریعے خلائی اسٹیشن پر بھیجا گیا۔ اس کھیپ میں سُرخ سلاد کے پتوں پر مشتمل دو پیلوز کے سیٹ اور سورج مکھی کی نسل سے تعلق رکھے والے خوش رنگ پھول زینیا کے بیجوں پر مشتمل ایک سیٹ بھیجا گیا تھا۔

خلائی مشن پر موجود 39 فلائٹ انجینئرز اور ناسا کے خلاباز اسٹیو سوانسن اور رِک میسٹراشیو نے مئی 2014 میں ’Veggie‘ کو کولمبس ماڈیول (خلائی مرکز میں پروسیسنگ اور تجربات کے لیے مختص ریک) میں نصب کردیا۔ پھیلاؤ اور سُکڑاؤ کی اہلیت رکھنے والا ویگی پیلو یونٹ سرخ ، سبز اور نیلی LED  (لائٹ ایمیٹنگ ڈائیوڈز) سے مزین ایک فلیٹ پینل پر مشتمل تھا۔ یہ ایل ای ڈیز پودوں کی نشوونما کا مشاہدہ کرنے کے لیے لگائی گئی تھیں۔

اس حوالے سے کینیڈی خلائی مرکز کے ایکسپلوریشن ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی پروگرام آفس میں ایڈوانسڈ لائف سپورٹ سرگرمیوں کو لیڈ کرنے والے ڈاکٹر رے وہیلر کا کہنا ہے کہ پودوں کی بڑھوتری میں ایل ای ڈیز لائٹس استعمال کرنے کا تصور نوے کی دہائی میں ناسا نے ہی پیش کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں ویگی کی تنصیب کے بعد خلانوردوں نے تکیے کی طرح پھولے ہوئے حصے میں چھے چیمبر داخل کیے۔ ان میں سے ہر ایک چیمبر میں سرخ سلاد کے پتوں کے بیج رکھے گئے، بیج کی نشوونما کے لیے ہر چیمبر کو سو ملی میٹر پانی دیا گیا۔

ہر پودے کے چیمبر میں بیس بال کے میدان سے حاصل کی گئی کیلسی نائیڈ کلے (آکسیجن ملی چکنی مٹی) پر مشتمل گروتھ میڈیا (ایک گول شفاف ڈبیا جو ماہرین حیاتیات بیکٹریا کی بڑھوتری کا مشاہدہ کرنے کے لیے کسی جگہ رکھتے ہیں) رکھے گئے۔ خلانوردوں نے اس مٹی کوایری فیکیشن (گھاس کی جڑوں کو مضبوط بنانے کا ایک میکانیکی طریقہ جس سے مٹی میںہواکی جگہ بنائی جاتی ہے) کے ذریعے ویگی میں ہوا کے پھیلاؤ کو بڑھا کر پودوں کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔ ویگی کی سربراہی کرنے والی ناسا سائنس ٹیم کی سربراہ Gioia Massa کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’ویگی‘ اور VEG – 01 طویل مدتی خلائی مشنز میں بائیو ری جنریٹر فوڈ پروڈکشن سسٹم کی طرف پہلا قدم ہے۔

Massaکا کہنا ہے کہ زمین سے خلا میں لمبے عرصے کے لیے جانے والے خلانوردوں کو کھانے کے لیے اپنے پودے (سبزیاں) خود اُگانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس سے نہ صرف ماحول صاف ہوتا ہے بل کہ خلانوردوں پر اس کے اچھے ذہنی اور جسمانی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں خلا میں سبزیاں اُگانے کا یہ نظام (ویگی) کسی بھی طویل خلائی مشن کا ایک اہم جُز بن جائے گا اور مجھے امید ہے کہ ویگی خلابازوں کو باقاعدگی سے تازہ سبزیاں فراہم کرنے کا اہل ہوجائے گا۔ کینیڈی سے تعلق رکھنے والے وہیلر، میسا اور ڈاکٹر گرے اسٹیوٹ پہلے بھی اسی نوعیت کا ایک اور تجربہ کر چکے ہیں ۔

2010سے2011کے عرصے میں انہوں نے ریاست ایری زونا کے صحرا میں قائم ناسا کی ٹیسٹ سائیٹ ( تجربات کے لیے مختص کی گئی جگہ) پر ہیبی ٹیٹ ڈیمونسٹریشن یونٹ میں پودے اُگانے کا تجربہ کیا تھا۔ وہیلر کا کہنا ہے کہ ویگی سے ناسا کو کنٹرولڈ زرعی ماحول میںمختلف ترتیب سے پودے اُگانے میں مدد ملے گی۔ جیسا کہ عمودی زرعی ترتیب، جس میں پودوں کو خاص ترتیب سے شیلف میں لگایا جاتا ہے اور یہ پودے ہائیڈرو پونیکلی (کنکر اور پانی میں، بغیر مٹی اور کھاد پودے اُگانے کا طریقہ) طریقہ کار سے بڑھتے ہیں اور سُرخ اور نیلی ایل ای ڈی کو برقی روشنی کے ذرایع کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

کاشت کاری کا یہ طریقہ کچھ ایشیائی ملکوں میں بہت مقبول ہے اور اب امریکا میں بھی کنکر اور پانی کی مدد سے کاشت کاری کا آغاز ہوگیا ہے۔ وہیلر کا کہنا ہے کہ ٹماٹر، بلو بیری اور سرخ سلاد کے پتوں جیسی تازہ سبزیاں اینٹی آکسیڈینٹ (مانع تکسید) کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اس طرح کی تازہ سبزیوں کی خلا میں موجودگی سے نہ صرف خلائی جہاز پر موجود عملے کے موڈ پر خوش گوار اثرات مرتب ہوں بل کہ یہ خلا میں موجود تاب کاری سے کسی حد تک تحفظ بھی فراہم کر سکتی ہیں۔

میسا نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے آنے والی سلاد کی پہلی فصل کے زمین پر پہنچتے ہی فلائٹ ڈاکٹرز اور ناسا کے سیفٹی ریپریزینٹیٹو کی ایک ٹیم کے ساتھ کام شروع کردیا تھا تاکہ اس بات کی جانچ کی جاسکے کہ آیا یہ سبزی خلائی عملے کے کھانے کے لیے صحت بخش ہے یا نہیں۔ اس بابت اُن کا کہنا ہے کہ غذائی تحفظ کے مائیکرو بایولوجیکل تجزیے کے بعدVEG-01سے آنے والی سُرخ سلاد کی پہلی فصل غذائیت سے بھرپور ہے۔

٭ خلا میں تازہ غذا کھانے کے نفسیات پر اثرات
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غذائی افادیت اپنی جگہ لیکن خلا میں اُگائی گئی سبزیوں کے خلانوردوں کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوںگے؟ اس سوال کا جواب ناسا کے ہیومن ریسرچ پروگرام کے بی ہیورل صحت اور کارکردگی پر تحقیق کرنے والے سائنس داں وائٹ مر کا کہنا ہے کہ ’ویگی واحد تجربہ ہے جس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد مل رہی ہے کہ خلا میں نباتات کی زندگی سے انسان پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔‘ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود عملے کا طرز عمل، کارکردگی میں کمی، باہمی ابلاغ اور سائیکولوجیکل موافقت وائٹ کی ٹیم کی توجہ کا مرکز ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ مستقبل میں خلائی مشن چار یا چھے ارکان پر مشتمل ہوسکتا ہے، جنہیں محدود ابلاغ کے ساتھ طویل عرصے کے لیے تنگ جگہ پر رہنا پڑ سکتا ہے۔ مشن کے دوران حفظ ماتقدم کے طور پر خلائی عملے کو موثر تربیت دینی ہوگی۔ وائٹ نے کہا کہ خوش حالی، بہتر زندگی اور عمدہ کارکردگی کا پودوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور یہ بات زمین کے مطالعے سے بھی ظاہر ہوچکی ہے۔ ممکنہ طور پر طویل مدتی ایکسپلوریشن مشن پر باہمی جھگڑوں سے بچنے کے لیے پودے حفظ ِماتقدم کے طور پر اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ خلائی جہاز پر سرسبز پودوں سے زمین کا تاثر بھی اُجاگر ہوگا جو انتہائی تناؤ والے ماحول میں اچھے اثرات مرتب کرے گا۔

دوسری جانب اس منصوبے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے میسا کا کہنا ہے کہ ’خلائی اسٹیشن پر ویگی کے متحرک ہوتے ہی زمین پر موجود کینیڈی خلائی اسٹیشن کی لیباریٹری پر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے ماحولیاتی سیمیولیٹر (کسی شے کی ہوبہو نقل) کے ویگی کنٹرول چیمبر میں سائنس دانوں نے اسی طرح کے پیلو کے اندر چیمبر بنا کر انہیں متحرک کردیا تھا۔ محققین نے پودے اُگانے میں ہوبہو وہی طریقہ استعمال کیا جو خلائی اسٹیشن پر سوانسن استعمال کر رہے تھے۔

مئی 2014کو بیج بونے کے 33دن بعد پہلے پلانٹ پیلو میں اُگنے والے پودوں کو کاٹ کر اکتوبر 2014میں زمین پر بھیج دیا گیا۔ کینیڈی خلائی مرکز میں ان پودوں کے صحت بخش ہونے کے لیے مختلف تجربات کیے گئے۔ رواں سال 8جولائی کو دوسرے VEG-01 پلانٹ پیلو کو متحرک کیا گیا اور 33دن بعد ان پودوں کو کاٹ کر جانچ کے لیے دوبارہ زمین پر بھیجا گیا۔

اس حوالے سے میسا کا کہنا ہے کہ زمین پر اس نظام میں بائیو ماس (ایسا حیاتیاتی مادہ جسے کسی زندہ اجسام سے حاصل کیا جائے) پروڈکشن اور بالیدگی میں بہتری کرنے میں کچھ پیچیدگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ میسا کا کہنا ہے کہ ویگی کو شہری علاقوں کی پلانٹ فیکٹریز یا ایسے زراعتی نظام میں جہاں برقیاتی روشنی استعمال کی جاتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں مستقبل میں فصل کی اقسام اور تعداد میں اضافے کی امید ہے اور مائیکرو گریویٹی میں پودوں کی نشوونما کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی، مستقبل میں ہم زمین اور خلا دونوں میں فصل کی تعداد، ذائقے اور غذائیت پر روشنی کے معیار سے پڑنے والے اثرات پر تجربات کریں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔