اب مذاکرات نہیں ہونگے حکومت استعفے قبول کرے، متحدہ

اسٹاف رپورٹر / ایکسپریس ڈیسک  ہفتہ 22 اگست 2015
پیمرا نے بالا ہی بالااظہار خیال کاماورائے عدالت قتل کردیا،فاروق ستار۔  فوٹو :ایکسپریس

پیمرا نے بالا ہی بالااظہار خیال کاماورائے عدالت قتل کردیا،فاروق ستار۔ فوٹو :ایکسپریس

 کراچی: ایم کیوایم کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاہے کہ الطا ف حسین کے براہ راست خطاب پرپابندی اور ریکارڈ انٹرویو ز روک کر پیمرا نے بالا ہی بالا اظہاررائے اوراظہار خیال کا ماورائے عدالت قتل کردیا ہے،اظہارائے کی آزادی پر پابندی آئین کے آرٹیکل 19کی صریحاً نفی ہے اوراظہاررائے کی آزادی کو سلب کیاجارہاہے۔

جمہوریت کی روح آئین کی کسی شق کوقراردیا جاتا ہے تووہ آرٹیکل19ہے اس کے ہوتے ہوئے جہاں بولنے ، رائے کے اظہار اور سننے پر پابندی ہو تو اس کے بعد کیسی جمہوریت ، کہاں کی آزادی ہے۔ ان خیالات کااظہار انھوں نے کراچی پریس کلب کے باہر پیمرا کی جانب سے الطا ف حسین کے براہِ راست خطاب پر پابند ی اور ریکارڈ پروگرام نشر کرنے سے روکنے کے خلاف پیمرا کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

احتجاجی مظاہرے کے شرکا سے ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر سیدشاہد پاشا ، ارکان عبد الحسیب ، گلفرازخان خٹک ، رکن قومی اسمبلی فوزیہ حمید، ارکان یوسف شاہوانی اور ہیر سوہو نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پابندی قابل مذمت ہے ۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر پیمرا کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہاکہ پاکستان کی آزادی کے اگست کے مہینہ میںالطاف حسین کے ریکارڈ انٹرویو پر بھی پابندی لگا دی گئی۔

جس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو افواج پاکستان ، رینجرزکے متعلق ہو۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں 500 موروثی سیاست کرنے والے خاندانوں نے جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت نافذکردی ہے جہاں صرف کراچی کے منظرنامے کو دیکھ لیاجائے تو انسانی حقوق کی ، آئینی حقوق کی بے دریغ پامالی کی جارہی ہے ۔

انھوں نے کہاکہ ہم نے کراچی آپریشن کی مخالفت نہیں کی بلکہ آپریشن کا قبلہ درست کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔مائنس ون فارمولا پاکستان کے استحکام کے خلاف سازش، اظہاررائے پر پابندی جمہوریت کے خلاف ہے ۔ رابطہ کمیٹی کے رکن گلفراز خان خٹک نے کہا کہ الطاف حسین کی اظہارائے کی آزادی پر پابندی پوری قوم کی اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کے مترادف ہے ۔

رکن قومی اسمبلی فوزیہ حمید نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ الطا ف حسین کی تقاریر پر اعلانیہ اور غیراعلانیہ پابندی کو فی الفور اٹھائیں، رکن سندھ اسمبلی ہیر سوہو نے کہا کہ ہم الطاف حسین کی اظہار رائے کی آزادی پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے۔

رکن سندھ اسمبلی یوسف شاہوانی نے کہا کہ کراچی ، سندھ ہی نہیں پنجاب ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام بھی اپنا بھر پور احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔دریں اثنامتحدہ قومی موومنٹ کے زیراہتمام کراچی پریس کلب کے باہر الطاف حسین کے براہِ راست خطاب پر پابندی اور ریکارڈ پروگرام کو نشر نہ کرنے پرپیمرا کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ، احتجاجی مظاہرے کے شرکا فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے ۔

پریس کلب کے باہر لگائی گئی اسکرین پرانگریزی اور اردو زبان میں اظہار رائے کے حق جلی حروف میں نعرے تحریر تھے جبکہ اسٹیج کے دائیں جانب علامتی طور پر اظہار رائے کی آزادی کی پابندیوں کے مختلف سلوگن بنائے گئے تھے مظاہرین میں خواتین کی تعداد نمایاں تھیں اور ان کا جوش و خروش قابل دید تھا ۔ مظاہرے میں شبیر قائم خانی ، امین الحق ، عارف خان ایڈووکیٹ ، محمد حسین،کمال ملک ، عبد القادر خانزادہ ،اسلم آفریدی ، اقبال مقدم ، مطیع الرحمن ،ریحانہ نسرین، اراکین سینیٹ ، قومی وصوبائی اسمبلی ،علمائے کرام ،وکلا ، سیاسی وسماجی رہنما سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک تھے ۔

متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی پاکستان اور لندن کے ارکان کا مشترکہ ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ایم کیوایم کے تمام شعبہ جات کے ارکان نے بھی شرکت کی ۔ اجلاس میں ایم کیوایم کے ارکان سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی کے استعفوں کے حوالے سے سینئر سیاسی رہنما مولانا فضل الرحمن کی ثالثی میں مذاکرات اور حکومتی رویے کا تفصیلی جائزہ لیاگیا ۔

اجلاس میں ایم کیوایم کے منتخب نمائندوںکے استعفوں ، حکومت سے جاری مذاکرات اور علیحدہ صوبے کیلیے جدوجہد کے حوالے سے اہم فیصلے بھی کیے گئے ۔ اجلاس کے شرکا نے گزشتہ روز مورخہ 20، اگست 2015ء کو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کی گورنر ہاؤس کراچی میں تشریف لانے کے موقع پر غرورگھمنڈ ، تمکنت اور دھمکی آمیزلب ولہجہ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ۔

اجلاس میں کہاگیا کہ انتہائی معتبر،صلح کاراور بہت بڑی شخصیت مولانا فضل الرحمن تین روز قبل یعنی مورخہ 18، اگست2015ء کو ایم کیوایم کے مرکز نائن زیروعزیزآباد تشریف لائے تھے اور رابطہ کمیٹی کے ارکان سے ملاقات میں یہ طے کیاگیا تھا کہ باقی مذاکرات اسلام آباد میں کیے جائیں گے لیکن گزشتہ روز وزیراعظم میاںمحمد نوازشریف نے کراچی آکرغروروتکبر اور دھمکی آمیز لہجہ اختیارکرکے نہ تومولانافضل الرحمن کے ثالثی کردارکی قدرکی اور نہ ہی کراچی کے لاکھوں غم زدہ اورروتے تڑپتے ہوئے خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔

وزیراعظم میاںنواز شریف نے دھمکی آمیز لہجہ اختیارکرکے کراچی کے مظلوم خاندانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا عمل کیاہے لہٰذا ہم اراکین رابطہ کمیٹی بڑے ادب سے مولانافضل الرحمن صاحب کی خدمت میں عرض گزارہیں کہ مصالحت کاری کیلیے ہم ان کی نیک کاوشوں کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن جس طرح وزیراعظم نوازشریف نے مولانا صاحب کی نیک کاوشوں کو سبوتاژکیا اور کراچی آکر ایک جملہ تک کہنے کی زحمت گوارانہیں کی کہ مذاکرات کے عمل میں مولانافضل الرحمن ثالث کی حیثیت سے درمیان میں موجود ہیں انشا اللہ ایم کیوایم کی جائز شکایات یا تحفظات کاحکومت سنجیدگی سے نوٹس لیکر اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے گی ۔

اجلاس میں کہاگیا کہ ہم رابطہ کمیٹی کے ارکان کی دلی خواہش ہے کہ مولانا فضل الرحما صاحب ہمارے بزرگ کی حیثیت سے جب چاہیں ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں لیکن ہم ان سے انتہائی معذرت کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایم کیوایم اور حکومت کے درمیان مذاکرات کیلیے صلح کار، مذاکرات کار یا ثالث کی حیثیت سے مزید زحمت نہ کریں ۔ اجلاس میںکہاگیا کہ پوری پارٹی کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایم کیوایم کے ارکان سینیٹ ، قومی وصوبائی اسمبلی نے احتجاجاً اپنے استعفے دیدیے ہیں انھیں حکومت کو ہرقیمت پر تسلیم کرنا ہوگااور اس پریس ریلیز کے بعد ایم کیوایم کے ایک ایک منتخب رکن کو تینوں ایوانوں سے مستعفی سمجھا جائے ۔

اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیاکہ ایم کیوایم عارضی طورپر پارلیمانی سیاست سے الگ ہوکر اپنی تمام تر توجہ صرف صوبے کے قیام اور فلاحی سرگرمیوں پر مرکوز رکھے گی اور اس کیلیے جدوجہد کرتی رہے گی ۔اجلاس میں چہ پدی اور چہ پدی کے شوربے کے مصداق سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کے اس رویے کی بھی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی جس میں انھوں نے وزیراعظم نوازشریف کے رویے کو دیکھ کر جوش جذبات میں یہ کہہ ڈالا کہ میں کراچی آپریشن کا کپتان ہوں اور میری موجودگی میں مزید تین رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

میں صرف وہاں بولوں گا جہاں پیپلزپارٹی والوںکوگزند یا زرا سا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوگا اور وہاں بغلیں اور شادیانے بجاؤں گا جہاں ایم کیوایم اور مہاجروں کو مشق ستم بنایاجائے گا۔ دریں اثنا اجلاس میں کہاگیا کہ عوام نے دل گرفتہ ہوکراس بات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا کہ وزیراعظم نوازشریف کراچی تشریف لائے لیکن وہ اپنے ہی ایوان کے رکن رشید گوڈیل کی عیادت کیلیے اسپتال نہیں گئے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔