نئے ضابطہ اخلاق کا تاریخی پس منظر

اسلم خان  اتوار 23 اگست 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

مالکان، کارکنان اور سرکاری حکام نے معرکہ سر کر لیا الیکٹرانک میڈیا کے لیے قواعد و ضوابط کی تیاری کا پیچیدہ مرحلہ تمام ہوا۔ 24 نکاتی ضابطہ اخلاق نافذ ہو گیا۔یہ کوہ گراں تھا جس کو سر کرنا ہمالیہ کی چوٹی پر پرچم لہرانے کے مترادف تھا۔

پاکستان کا طاقتور الیکٹرانک میڈیا جس کی عمر صرف 13 سال ہے، کسی قسم کی روک ٹوک اور حدود قیود نہ ہونے کی وجہ سے اُس کا رویہ بگڑے ہوئے شرارتی بچے جیسا تھا جب روک ٹوک نہ ہو نگرانی کے لیے بڑے بھی موجود نہ ہو ں تو یہ نٹ کھٹ 13 سالہ بچہ اور کیا کرتا؟ ہماری بیوروکریسی نئے تجربات اور نئے رجحانات کو اپنانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئی کیونکہ جمود سب کو بھاتا ہے اس لیے جب کبھی ٹی وی چینلز کو بروئے کار لانے کی اجازت کے بارے میں سوچا گیا افسر شاہی کے ان ناخداؤں نے ڈٹ کر مخالفت کی۔

خدا بھلا کرے جنرل پرویز مشرف کا جس نے 2002ء میں نجی شعبے کو چینلز چلانے کی اجازت دے دی۔ قبل ازیں تو صرف پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی )کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا جس کے قواعد و ضوابط سرکاری تھے اور اخلاقیات بھی سرکار ہی کی طے کردہ تھیں لیکن قدیم ساخت کے یہ قواعد و ضوابط نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا کے نٹ کھٹ اور شرارتی بچے سے کسی طرح بھی لگا نہیں کھاتا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ سرکاری شہ دماغوں کو زمانے کی رفتار کے ساتھ پاکستان کے ابلاغیاتی منظر نامے کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کا احساس بخوبی تھا، وزارت اطلاعات کی افسر شاہی کو یقین کامل تھا کہ وہ نجی ٹی وی چینلز کا راستہ تادیر نہیں روک سکیں گے اسی لیے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے قیام سے بہت پہلے حفظِ ماتقدم کے طور پر انفارمیشن گروپ کے ایک نیک نام افسر سلیم گل شیخ خاموشی سے متوقع نجی ٹی وی چینلز کے لیے قواعد و ضوابط کی نقش گری کرنے میں مصروف رہے تھے۔ یہ 90ء کی دہائی کے آخری دنوں کا ذکر ہے جب 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے تو سلیم گل شیخ کا مستقبل کے نجی ٹی وی چینلوں کے قواعد وضوابط تیارکرنے کا کام بیک جنبش ِقلم لپیٹ دیا گیا۔

جنرل مشرف کو جب عدالت عظمیٰ نے بن مانگے آئینی ترامیم کا اختیار بھی دے دیا تو پھر وہ ہر قسم کی روک ٹوک سے آزاد ہو گئے اور اسی دوران نرم گو اور معصوم چہرہ، محمد علی درانی نے انھیں ساری مہذب دُنیا کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان میں بھی نجی شعبے میں ٹی وی چینلز کا تجربہ کرنے پر آمادہ کر لیا اور فوری طور پر پیمرا کے قیام اور تشکیل کے لیے قواعد و ضوابط اورطریق کار کو دستاویزی قالب میں ڈھالنے کے لیے کام شروع ہو گیا۔ اپنی غلطی کا احساس جنرل مشرف کو عدلیہ بحالی تحریک کے دوران ہوا جب پاکستان کے آزاد اور بے باک الیکٹرانک میڈیا نے اُن کی تمام سازشوں کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوڑ دیا اور انھیں جدید سیاسی تاریخ کا منفرد مارشل لاء، ایمرجنسی پلس کے نام سے لگانا پڑاجس کا بنیادی ہدف عدلیہ اور الیکٹرانک میڈیا تھا لیکن اُس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا اور جنرل مشرف تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے میں ناکام ہو گئے اور انھیں ایوان صدر چھوڑ نا پڑا۔کہتے ہیں کہ جب مارشل لاء آتا ہے تو افسر شاہی کا انتظامی و پولیس گروپ (DMG,Police) فوجی افسروں کو موم کرتے ہیں۔

پاکستان میں یہ عمل بار بار دہرایا گیا ہے چنانچہ پیمرا کی تشکیل اور تنظیم سے وزارت اطلاعات کے شہ دماغوں کو الگ کر دیا گیا۔ اب خالصتاً انتظامی کاموں کے ماہرین نے کابینہ ڈویژن کی راہداریوں اور پراسرار کمیٹی روموں میں وزارت قانون کے ڈرافٹس مینوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پیمرا ایکٹ اور دیگر قوانین کی نقش گری ہوتی رہی تا کہ 2002ء میں پیمرا آرڈیننس جاری کر کے اس کو تخیل سے حقیقت میں بدل دیا جائے ۔ حیرت انگیز طور پیمرا کا پہلا بانی چیئرمین میاں محمد جاوید کو مقرر کیا گیا، وہی میاں محمد جاوید جنھوں نے عالمی سطح پر مواصلات کے شعبے میں ہونے والی ترقی کو پاکستان میں روشناس کرایا اور انھیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ وہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل ) کے بھی بانی و چیئرمین ہونے کا منفرد اعزاز رکھتے ہیں۔

میاں محمد جاوید نے قوانین کی تشکیل اور ترویج کے لیے انفارمیشن گروپ سے تعلق رکھنے والے سماجی فلسفے کے پیش کار، روشن خیال دانشور سلیم بیگ کی خدمات حاصل کر لیں جس کی وجہ سے بنیادی طریق کار اور قواعد و ضوابط تو بخوبی تیار کر لیے گئے کمسن لیکن طاقتور الیکٹرانک میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق (کوڈ آف کنڈیکٹ) کی تیاری لاینحل مسئلہ بن گئی کیونکہ مالکان، کارکنان اور حکومت گزشتہ 13 سال کے دوران کسی ایک متفقہ ضابطہ اخلاق کے مسودے پر متفق نہ ہو سکی اسی اثنا میں پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) معرض وجود میں آئی اور سب سے بڑے شریک کار کی حیثیت سے اُبھری ۔فخروالدین جی ابراہیم اور ناصر اسلم زاہد جیسے نیک نام جج صاحبان نے بھی اس پیچیدہ اور گنجلک معاملے کو حل کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیںلیکن وہ ضابطہ اخلاق پر تمام فریقین کو متفق نہ کر سکے وقت کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کی صلاحیت کار اور قوت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا خصوصاً چیف جسٹس افتخار محمد کی برطرفی کے خلاف شروع ہونے والی بحالی عدلیہ تحریک نے الیکٹرانک میڈیا کی طاقت کومزید بڑھا دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب افسر شاہی کے ساتھ ساتھ پہلی بار سماجی حلقوں میں بھی قواعد و ضوابط اور ضابطہ اخلاق کی ضرورت کا احساس شدت سے بڑھا اور پھر تین سال تک مختلف کمیٹیاں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ چہرے بدلتے لیکن حالات جوں کے توں رہے۔

اور پھر وزیر اعظم نواز شریف نے اس اُلجھے معاملے کو سلجھانے کے لیے قومی اُمور پر اپنے مشیر پروفیسر عرفان صدیقی کو آزمانے کا فیصلہ کیا یہ بوڑھا دانشمند طالبان سے ناکام مذاکرات کے دوران اس ’میڈیا سرکس‘ کی کارروائیوں اور کارگزاریوں کا تلخ مزہ چکھ چکا تھا اس لیے حددرجہ محتاط اُستاد نے سرکار کی بجائے اپنی ذاتی حیثیت میں، ایک شریک کار، سابق کالم نگار اور تجزیہ کار کی حیثیت سے تمام فریقین کو ایک متوازن اور متفقہ ضابطہ اخلاق پر آمادہ کرنے کے لیے خاموشی سے کام شروع کیا اور طویل غور و خوض کے بعد بلاآخر تمام فریقین (Stake Holders) نے متفقہ مسودے پر دستخط کر دیے اور سب سے بڑھ کر سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس پر مہرٍ تصدیق ثبت کر دی اس طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا مسودہِ قانون منظور ہوتے ہی نافذ ہوا جس میں حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی آشیرباد بھی شامل تھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔