امریکی الیکشن مہم سماجی میڈیا پر

روزنامہ ایکسپریس  اتوار 23 اگست 2015
پوسٹس، ٹوئٹس اور تصاویر کے ذریعے زبردست معرکہ آرائی۔ فوٹو: فائل

پوسٹس، ٹوئٹس اور تصاویر کے ذریعے زبردست معرکہ آرائی۔ فوٹو: فائل

امریکی صدارت کے لیے انتخاب ظاہر ہے صرف امریکا میں ہوتا ہے مگر اس معرکے کی دھوم ساری دنیا میں مچی ہوتی ہے، جس کی وجہ امریکا کا دنیا کا چوہدری ہونا اور اس کی سیاست اور معیشت کے عالمی سطح پر اثرات ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کا مکین دنیا کا طاقت ور ترین انسان سمجھا جاتا ہے، پھر کیوں نہ ایسے انتخابات کے چرچے سارے جگ میں ہوں۔

2016 امریکا میں صدارتی انتخابات کا سال ہے، جس کے سلسلے میں مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ یہ شروعات عملی زندگی ہی میں نہیں ہوئیں بل کہ اس دوڑ میں شریک دونوں جماعتوں ری پبلیکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی سوشل میڈیا پر بھی سرگرم ہیں۔ دونوں جماعتوں کے امیدوار فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس فی الوقت اس وہائی ہاؤس تک رسائی کے لیے ہونے والے سیاسی معرکے کا اصل میدان بنی ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ امریکا کے انتخابی نظام کی رو سے پہلے اس الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کے اندر صدارتی امیدوار کے لیے نام زدگی کی خاطر چناؤ ہوتا ہے، جس کے بعد اصل جنگ شروع ہوتی ہے۔ اس وقت انتخابات کا پہلا مرحلہ جاری ہے۔

اگرچہ اس سے پہلے ہونے والی صدارتی انتخابات میں بھی سوشل ویب سائٹس کا بھرپور طریقے سے استعمال ہوتا رہا ہے، لیکن اس بار یہ استعمال اپنی وسعت اور شدت کے اعتبار سے ماضی کی مہمات کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی انتخابی مہم نے اس حوالے سے دیگر خبری اور اشتہاری ذرائع کو مات دے دی ہے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم امیدوار اپنے حریفوں کو تنقید کا ہدف بنارہے ہیں، امیدواروں کو رجھا رہے ہیں اور اس سلسلے میں سماجی میڈیا پر خبریں جنم لے رہی ہیں۔ اس طرح یہ امریکی سیاست داں سوشل میڈیا کی طاقت کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اپنے حق میں رائے عامہ ہم وار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

اس مہم اور ان سرگرمیوں کے نتیجے میں امریکا کی حد تک سماجی ویب سائٹس مباحثے کا اسٹیج بن گئی ہیں۔ ایک دوسرے پر اعتراضات کیے جارہے ہیں، نکتہ چینی کی جارہی ہے، سوال اٹھا جا رہے ہیں اور جواب دیے جارہے ہیں۔ کچھ دنوں پہلے فلوریڈا کے سابق گورنر جیب بش نے سوشل میڈیا پر اپنے موقف کے حق میں بحث کرتے ہوئے کہا کہ میں اس حوالے سے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آخر خواتین کے صحت کے مسائل کے لیے ہمیں نصف بلین ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اعتراض کا جواب ہیلری کلنٹن کی

سوشل میڈیا ٹیم نے ٹوئٹ کی صورت میں یہ دیا کہ آپ مکمل طور پر اور واضح طور پر غلط ہیں۔

اسی طرح دونوں جماعتوں کے درمیان طلبہ کو قرضے دینے کے حوالے سے بھی ٹوئٹر پر مباحثہ اور سوال جواب ہوئے۔ اس مباحثے میں دونوں فریقوں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے گرافکس کا سہارا لیا۔ دونوں طرف سے فوٹو شاپ میں تبدیلیوں کے ساتھ بنے ہوئے مختلف دل چسپی کے حامل نشانات کی شکل میں ٹوئٹ کرکے بھی معرکہ آرائی جاری ہے، جس کے بعد کہا جارہا ہے کہ ہیلری کلنٹن اور جیب بش ٹوئٹر پر فوٹوشاپ جنگ لڑرہے ہیں۔

کہتے ہیں ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ اس چینی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کے امیدوار ایسی تصویریں سوشل میڈیا پر لارہے ہیں جن سے مقابل فریق کے امیج کو نقصان پہنچتا ہو۔ ایسی ہی ایک تصویر جیب بش نے انسٹاگرام پر پوسٹ کی، جس میں ایوان صدارت کے کتب خانے رونالڈ ریگن لائبریری کے سبزہ زار میں ایک کچھوے کو مٹرگشت کرتے دکھایا گیا ہے، جب کہ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نام زدگی کی دوڑ میں شامل اسکاٹ والکر اپنے سادہ کھانوں کی تصویریں پوسٹ کرتے رہتے ہیں، جن کے ذریعے وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک عام امریکی کی سی زندگی گزار رہے ہیں اور بہت سادہ اور فقیر منش ہیں۔

ہیلری کلنٹن کی مہم دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جارحانہ قرار دی جارہی ہے۔

امریکا کے صدارتی معرکے میں شریک امیدواروں کی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کے بھرپور طریقے سے استعمال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اعدادوشمار کے مطابق امریکیوں کی بہت بڑی تعداد ان ویب سائٹس سے وابستہ ہے، جن تک رسائی اور ان کی حمایت ان امیدواروں کو کام یابی سے ہم کنار کر سکتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق گذشتہ سال کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ امریکا میں بسنے والے بالغ افراد میں سے 71 فی صد فیس بک استعمال کرتے ہیں، 26 فی صد انسٹاگرام پر اکاؤنٹ رکھتے ہیں اور 23 فی صد بالغ امریکی ٹوئٹر سے وابستہ ہیں۔ چناں چہ امریکی صدارتی معرکے کے امیدوار ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔