ہیومنز آف نیویارک

وجاہت علی عباسی  پير 24 اگست 2015
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

ایک چھوٹا سا بچہ گاڑی کی کھڑکی پر آکر کھٹکھٹاتا ہے۔ کبھی پھول، کبھی معمولی سے کھلونے لیے، کبھی ایسے ہی مدد مانگنے کے لیے، چاہتا ہے کہ ہم کھڑکی نیچے کریں۔ اسے دیکھ کر ہمارے دل میں صرف ایک خیال آتا ہے کہ اس کے کھٹکھٹانے سے ہماری گاڑی کی کھڑکی کہیں خراب نہ ہوجائے، کبھی اشارے سے تو کبھی کھڑکی آدھی نیچے کرکے، ہم اس سے کہتے ہیں ’’جاؤ معاف کرو‘‘ اور کھڑکی اوپر کرکے زندگی میں پھر مگن ہوجاتے ہیں، یہ منظر ہم پاکستان کے کسی بھی شہر کے معروف سگنل پر ہر تھوڑی دیر میں دیکھ سکتے ہیں۔

یہ بات بالکل سچ ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنے کے باقاعدہ نیٹ ورکس ہیں، یعنی پورے پورے گروہ ہیں جنھوں نے مجبوری کو بزنس بنادیا ہے، ایک معروف سڑک پر بھیک مانگنے والا مہینے میں اوسطاً پچیس سے تیس ہزار روپے کمالیتا ہے، کوئی بھی ضرورت مند جو بھیک مانگ رہا ہوتا ہے، ملنے والے پیسے اسے نہیں گروہ چلانے والے سرغنہ کو ملتے ہیں جو بھیک مانگنے والے کو کھانا، رہنے کی جگہ اور نہایت معمولی رقم (وہ بھی کبھی کبھی) دیتا ہے۔

ہر مانگنے والے کا بھیک کا کوٹہ ہوتا ہے اور جو جتنا اچھا ’’کام‘‘ کرتا ہے اس کو اتنی اہم جگہ رکھا جاتا ہے، یعنی کہ ہر چیز پوری طرح منظم ہوتی ہے۔

یہ بات کوئی نئی نہیں ہے اور نہ ہی خبر بنانے والی، ہم سب یہ سچ ہمیشہ سے جانتے ہیں اور اسی لیے بیشتر وقت اگر کوئی ضرورت مند اپنی مجبوری بتاتا ہے، ہماری گاڑی کی کھڑکی کو کھٹکھٹاتے تو ہم اس کو مجبور حالت سے زیادہ فکر اپنی بے جان کھڑکی کی کرتے ہیں کیوں کہ ہمارا دل کہتاہے کہ یہ مجبوری ایک ’’سیٹ اپ‘‘ ہے، یعنی جھوٹ ہے۔

پاکستان میں یہ بھیک یعنی آرگنائزڈ مجبوری دکھانے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم پاکستان میں Immune ہوگئے ہیں۔ کسی بھی مجبوری کو دل سے ماننے سے، بات دل تک پہنچ پائے اس سے پہلے دماغ اس شک میں پڑجاتا ہے کہ یقیناً سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے، جھوٹ کہ اسے واقعی کوئی ضرورت ہے اور یہ شاید ہم سے صرف فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ بات بار بار ہم کو گھر سے نکل کر شہر کے کسی بھی مشہور چوراہے سے گزرتے محسوس ہوجاتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں وہ مجبور شخص جو واقعی ضرورت مند ہے اور جس کی کوئی سننے والا نہیں ہے، وہ کیا کرے؟ جب ہماری سوسائٹی میں مجبوری کو بزنس بناکر بیچا جارہا ہے۔

چلیے دنیا کی دوسری طرف چلتے ہیں یعنی امریکا کا شہر نیویارک، یہاں رہنے والے ایک فوٹو گرافر ہیں Brandon Stanton (برینڈین اسٹین ٹون) جنھوں نے اپنی ویب سائٹ اور فیس بک پیج ’’ہیومنز آف نیویارک‘‘ 2010 میں شروع کی جس میں وہ نیویارک کے عام لوگوں کی تصویریں ڈالتے ہیں اور ان کے بارے میں مختصر معلومات فراہم کرتے ہیں فی الحال ان کے فیس بک اور ویب سائٹ پر چھ ہزار سے زیادہ تصویریں ہیں جنھیں کروڑوں لوگ لائیک کرچکے ہیں۔

برینڈین نے کچھ عرصے پہلے کچھ ہٹ کر کرنے کا سوچا وہ پاکستان، ایران جیسے ملکوں میں گئے جہاں کے بارے میں عام امریکنز کے تاثرات کچھ اچھے نہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے عام لوگوں کے تاثرات کیمرے کے ذریعے امریکی عوام تک پہنچائیں۔

برینڈین کے ساتھ وہ مسئلہ نہیں تھا جو آج ہمارے ساتھ ہے۔ یعنی کسی بھی مجبور کی بات سننا بھی نہیں، ہماری سوسائٹی نے ہم کو ہر چیز کو شک سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے لیکن برینڈین ہماری سوسائٹی کا حصہ نہیں تھے جس سے کئی ایسے لوگ جو سچ میں ضرورت مند تھے انھیں فائدہ پہنچا۔

اگست تیرہ کو برینڈین نے اپنے فیس بک پیج پر ایک خاتون کی تصویر ڈالی جو ایک ہاتھ سے چھوٹی سی بچی کو سنبھالے ہوئے تھیں اور دوسرے ہاتھ سے آنکھوں سے آنسو پونچھ رہی تھیں، ساتھ ہی انھوں نے ان خاتون کے بارے میں کچھ لکھا بھی جس میں یہ بتایاکہ ان کا شوہر ان پر بہت ظلم کرتا تھا اور کچھ دن پہلے انھیں گھر سے نکال دیا، خاتون کو ’’ہیپاٹائٹس سی‘‘ ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بچی کو کوئی Adopt کرلے تاکہ بچی کو بہتر مستقبل اور ٹھکانہ مل جائے لیکن کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔

تصویر پوسٹ ہونے کے ایک دن کے اندر اس پر چودہ ملین لائیکس آگئے اور ہزاروں لوگ پوچھنے لگے کہ ان خاتون کی کس طرح مدد کی جاسکتی ہے؟ صرف امریکا کے لوگ ہی نہیں پاکستان کے لوگ بھی ان میں شامل تھے، لاہور سے ہی این جی اوز چلانے والے ڈاکٹرز اور دیگر لوگ تصویر کے نیچے ہی مدد کے لیے Messages کرنے لگے، صرف چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ان خاتون کا پتہ چل گیا اور انھیں کئی لوگوں کی مدد حاصل ہوگئی۔

اس کے علاوہ برینڈین نے ایک شخص عبدالشکور کی ویڈیو ڈالی جو ایک ٹریکٹر کی خریداری کے لیے تین سال تک ڈاؤن پے منٹ کی رقم جمع کرتا رہا تھا اور ٹریکٹر لیتے ہی اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا جس میں نہ صرف اس کا ٹریکٹر تباہ ہوگیا بلکہ وہ خود بھی بری طرح زخمی ہوگیا، اب وہ مزدوری کرکے مہینے میں مشکل سے بارہ ہزار روپے کماتا ہے اور اسے اب بھی پانچ لاکھ روپے کے قرضے کی ادائیگی کرنی ہے جو اس نے ٹریکٹر کی خریداری کے لیے لیا تھا۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد اس کی مدد کو بھی لوگ آگے بڑھے اور چیریٹی کے لیے پیج بنایا گیا۔

برینڈین نے اپنے ٹرپ کے آخری دن سیدہ غلام فاطمہ کی تصویر ڈالی جو پاکستان میں ’’بھٹہ مافیا‘‘ کے خلاف کام کررہی تھیں، پاکستان میں بیس ہزار سے زیادہ ایسے گروہ ہیں جو لا تعداد لوگوں کو اینٹیں بنانے کے جال میں پھنسا لیتے ہیں، فاطمہ کے بارے میں برینڈین نے لکھا کہ فاطمہ پر لا تعداد بار تشدد کیا گیا اور انھیں مستقل دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، صرف ایک ہفتے کے اندر فاطمہ کو دنیا بھر سے دو ملین سے زیادہ کے فنڈز موصول ہوئے ہیں تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر برینڈین کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ وہ تو ایک ہی ہفتے کے لیے پاکستان آئے تھے اور لوگوں کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچاگئے۔ ماناکہ پاکستان میں مجبوری میں بھی کرپشن ہے اور ’’مجبوری‘‘ کو بھی پروڈکٹ کی طرح گلی گلی بیچا جارہا ہے لیکن کہیں نہ کہیں اس اے سی والی گاڑی کی کھڑکی کی دوسری طرف سگنل پر کھڑے شخص کی زندگی میں واقعی صرف دھوپ چھائی ہوسکتی ہے جسے آپ برینڈین کی طرح کچھ Clicks سے چھاؤں دے سکتے ہیں۔

اگر برینڈین ایک ہفتے میں فیس بک کے پیج سے پاکستان کے اتنے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں تو ہم پاکستان میں سال کے 52 ہفتے رہ کر کیا نہیں کرسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔