یہ صرف کپتان کا مسئلہ نہیں!

تنویر قیصر شاہد  بدھ 26 اگست 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

لندن آئے یہ میرا دوسرا دن تھا۔ رسل اسکوائر ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ہی واقع یہ گھر بڑے ذوق اور چاؤ سے میرے آسودہ حال دوست نے بنایا تھا۔ وہ خود تو فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے لیکن ان کی اہلیہ محترمہ انگلستان کے ایک معروف بینک کی سینئر عہدیدار تھیں۔ اتوار کو میں دوست کے گھر کے عقبی لان میں بیٹھا تھا۔ لان کیا تھا، جنت ارضی کا ایک قطعہ تھا۔

لان کے عین بیچ میں سیب کا اکیلا درخت کھڑا تھا۔گھنی چھاؤں کے ساتھ۔گھر میں اور کوئی درخت نہیں تھا، سوائے بے شمار اور پُر بہار پھولوں کے جو کیاریوں میں رنگ و نور بکھیر رہے تھے۔ بید کی آرام دہ کرسی پر نیم دراز اور مطمئن دوست سے مَیں نے پوچھا: یار، یہ اکیلا اور تنہا درخت عجیب لگ رہا ہے مجھے۔ وہ مونچھیں سکیڑ کر مسکرایا اور اس نے قریب بیٹھی اپنی اہلیہ کی جانب دیکھا۔ بھابھی نے بھی مجھے سن لیا تھا۔

وہ بھی زور سے مسکرائیں اور پھر انھوں نے پیار بھری نظروں سے سیب کے اس درخت کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’جب ہم نے گھر خریدا تو یہ جھاڑ جھنکاڑ سے اَٹا پڑا تھا۔ مَیں نے دو انگریز مزدور منگوائے تاکہ صفائی کرسکیں۔ اس وقت بھی سیب کا یہ درخت بے ڈھنگا سا، سوکھا سا، لان کے درمیان موجود تھا۔

مزدوروں نے ساری جھاڑیاں تو کاٹ دیں لیکن اسے ہاتھ نہ لگایا۔ مَیں شام کے وقت، جب کہ مزدوروں کی چھٹی ہونے لگی تھی، باہر نکلی تو غصے میں ان سے کہا: یہ درخت کیوں نہیں کاٹا؟ کاٹو اسے بھی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ دونوں انگریز مزدور بیک زبان بولے: میڈم، ہم آپ کا بقیہ کام تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن درخت کاٹنے کے حکم کی تعمیل نہیں کرسکتے۔‘‘ وہ زور سے مسکراتی رہیں اور پھر گود میں بیٹھے چھوٹے بیٹے کے سر کو بوسہ دیتے ہوئے دوبارہ کہنے لگیں: ’’پھر مَیں نے بھی اسے کاٹنے کا اصرار نہ کیا۔ بعد ازاں مَیں نے اسے باقاعدہ کھاد اور پانی دینا شروع کیا تو چند ہفتوں بعد ہی یہ نئی شاخیں، نئے سبز سبز پتے نکالنے لگا۔ اگلے چند ہفتوں میں اس کے برگ و بار میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ مجھے بھی خوبصورت لگنے لگا۔

پھر یہاں تین چار گلہریاں بھی آنے لگیں۔ انھوں نے تو رونق ہی لگادی اور میرے بچوں کے لیے ایک نیا پُرکشش سامان بن گیا۔ ایک منٹ۔‘‘ اس شاندار خاتون نے بایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا، بچے کو گود سے اتارا اور گھر کے اندر چلی گئیں۔ چند منٹ بعد برآمد ہوئیں تو ان کے دائیں ہاتھ میں ویڈیو کیمرہ تھا۔ انھوں نے ساتھ بیٹھتے ہی کیمرے کی اسکرین کھول دی۔

مَیں نے وہاں ایک دلکشا منظر دیکھا۔ سیب کے گھنے درخت کے آس پاس، کبھی نیچے تین چار صحتمند گلہریاں پھُدکتی اور رقص کرتی نظر آرہی تھیں۔ خاتونِ خانہ کے دونوں ننھے بچے وارفتہ وار ان کے تعاقب میں بھاگتے تو وہ برق رفتاری سے درخت پر چڑھ جاتیں۔ بچوں کی خوشی اور مسکراہٹیں دیدنی تھیں۔ میری میزبان خاتون نے خوشی بھرے چہرے سے کہا: ’’اگر مَیں یہ درخت کٹوانے میں کامیاب ہوجاتی تو آج مَیں اور میرے بچے اس نعمت اور خوشی سے محروم رہ جاتے۔‘‘ ویڈیو کیمرے کی اسکرین بند کرکے وہ دوبارہ سیب کے درخت کو محبت سے دیکھنے لگیں۔

مجھے یہ کہانی اس لیے یاد آئی ہے کہ مَیں نے ابھی ابھی ایک انگریزی معاصر میں محترمہ فریال گوہر کا کالم پڑھا ہے جس میں انھوں نے ملک بھر میں تیزی سے کٹتے جنگلات پر نوحہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں میٹرو بس کا راستہ بنانے کے لیے جن سیکڑوں جوان اور سایہ دار درختوں کا بے دریغ قتل کیا گیا ہے، اس پر بھی فریال گوہر نے آہ و زاری کی ہے۔ مجھے معاً وہ اسلام آباد یاد آنے لگا جو کبھی گھنے جنگلات، خوشبودار درختوں اور نایاب پھلدار جھاڑیوں سے آباد تھا۔

اب یہ شہرِ اقتدار سنگ و خشت کا ویرانہ بن چکا ہے۔ حکمرانوں کے دل کی طرح سنگدل۔ خوبصورت بارشیں اور مشامِ جاں کو معطّر کرنے والی ہوائیں شہرِ اسلام آباد سے رخصت ہوچکی ہیں۔ اور وہ لوگ جو اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے جنگلات تباہ کرکے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے خیبر پختون خوا کو اسلام آباد سے ملانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، یہ ’’ترقی‘‘ ہماری ماحولیات کو مزیدبرباد کردے گی۔ یہ ٹمبر مافیا کی کامیابی تو ہے ہی، بدذوقی اور ماحول دشمنی کا ثبوت بھی ہے۔

پاکستان کی ایک بدنصیبی یہ بھی ہے کہ یہاں درخت دشمن لوگ بھی بستے ہیں جو نہایت طاقتور بھی ہیں اور گہرے اثرورسوخ کے حامل بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ درخت اور جنگلات کٹنے سے پورا ملک گنجا ہوگیا ہے لیکن ہمیں پرواہ ہی نہیں۔  عمران خان رواں برس کے پی کے میں ایک ارب کی تعداد میں نئے درخت لگانے کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں۔ وہ اس صوبے میں جی آئی ایس یعنی ’’جیو گرافک انفرمیشن سسٹم‘‘ لگانے کا تہیہ بھی کیے بیٹھے ہیں تاکہ جنگلات کی تازہ ترین صورتحال پر بھی نظر رکھی جا سکے اور جنگلات کے دشمنوں کا صفایا بھی کیا جا سکے۔

یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ خیبر پختون خوا کی خوبصورت وادی ’’ایلائی‘‘ ٹمبر مافیا کی دراز دستیوں کے باعث اپنا فطری حسن کھو چکی ہے۔ سرو گئی، چورا، جبر، کوبرا ٹوپی اور لمگوٹ کے گھنے جنگلات بے دردی سے قتل کردیے گئے۔ چترال کے جنگلات میں بھی یہی قاتل ہاتھ کار فرما رہے لیکن لالچ نے متعلقہ قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھ منجمد اور ان کی زبانیں بند کیے رکھیں۔ بلوچستان اور پنجاب میں بھی یہی صورتحال جاری ہے۔ بلوچستان میں جن بااثر لوگوں نے شاہ بلوط جنگلات کا صفایا کیا اور پنجاب میں مری کی شاداب پہاڑیوں کو جنہوں نے غصب کیا، آیا حکومت اور مقامی ذمے دار حلقے اس ظلم و استحصال سے بے خبر رہے؟

پاکستان میں جنگلات کا تحفظ اور درختوں کو قتلِ عام سے بچانا صرف عمران خان کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ موزوں اور مناسب بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے چاروں وزرائے اعلیٰ، بشمول گلگت  بلتستان کی نئی انتظامیہ، کو بیک زبان منظم ٹمبر مافیا کے خلاف جنگ کا اعلان کردینا چاہیے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ بھارت نے گزشتہ برسوں میں اپنے جنگلات میں 23فیصد اضافہ کیا ہے جب کہ پاکستان میں یہ اضافہ صفر ہے۔

درخت و جنگلات اور ماحول سے ہماری دشمنی کے بارے میں اب ساری دنیا آگاہ ہوچکی ہے۔ سوات اور اس کے مضافات میں ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں نے بھی انسانوں کی طرح لاتعداد و قیمتی جنگلات کا خون بہایا۔ وہ ٹمبر مافیا کے ساتھ مل کر قیمتی درخت کاٹ کر پیسے کماتے تھے۔

درختوں کے خلاف ہماری ان اجتماعی نالائقیوں کے باعث، اور پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی کی قیامت سے بچانے کے لیے، ناروے نے پاکستان کو اڑتیس لاکھ ڈالر کا عطیہ بھی دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کا محکمہ جنگلات اس قیمتی ورثے کو محفوظ بھی کرسکے اور نئے درختوں میں اضافہ بھی کرے لیکن کروڑوں روپے کی یہ امداد کہاں غتر بود ہوگئی، کوئی نہیں جانتا۔ اب درختوں کے لیے جو محبت عمران خان کے دل میں جاگی ہے، خدا کرے اس کے اثرات وطنِ عزیز کے دوسرے مقتدر سیاستدانوں اور حکمرانوں تک بھی پہنچیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔