مجاہد اول سے باباجیؒتک،نیلابٹ کی کہانی

اسلم خان  بدھ 26 اگست 2015
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

کشمیر کی وجہ سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں پرایٹمی جنگ کے بادل لہرا رہے ہیں۔ ایسی ہولناک آفت جس میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔ نریندر مودی کے بارے میں خیال یہ تھا کہ وہ راج سنگھاسن پر بیٹھ کر ہوش کے ناخن لیں گے لیکن وہ تو ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں۔

دہشت گردی پر قومی سلامتی کے مشیروں کی طے شدہ ملاقات سے پہلے حریت کانفرنس کے کشمیری رہنماؤں سے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی ملاقات پر پابندی کے ناروا مطالبات نے شروع ہونے سے پہلے ہی مذاکرات کی ناکامی پر مہرتصدیق ثبت کردی تھی، اسی تندوتلخ ماحول میں 22اگست کی دوپہر ہمارا قافلہ عازم نیلابٹ ہوا جہاں ہم مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کو سلام وداع پیش کرنے جارہے تھے جنہوں نے نیلابٹ کی بلندوبالا چوٹی پر کھڑے ہوکر ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح جہاد کا آغاز کیا تھا ۔ مجاہد اول جاتے جاتے مسلم کانفرنس کو نئی زندگی دے گئے کارکن جوق در جوق، قافلوں اورٹولیوں میں سارے کشمیر سے نیلابٹ کی طرف رواں دواں ہیں، پیدل قافلے ہفتوں پہلے چل پڑے تھے یا جس کو سواری میسر ہے وہ 23اگست کو 11بجے سے پہلے وہاں پہنچے گا۔

22اگست کی شام ہم نیلا بٹ چوٹی سے 10کلومیٹر نیچے میں چمیاڑی گاؤں کے فراخ اور کشادہ گھر میں اپنے میزبان کی بے ساختہ گفتگو کے سحر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ سفید ریش خورشید عباسی کے لہجے میں عہدقدیم کے داستان گوؤں کا شکوہ، درجنوں حاضرین کو مبہوت کیے ہوئے تھا۔ میرے ہم سفر جناب سعود ساحر اور طارق چوہدری تھے۔

سردار قیوم کے انتقال پر فاتحہ اور تعزیت کے لیے حاضر نہ ہوسکے تھے کہ یوم نیلابٹ کی وجہ سے کشمیر اور اس کی سیاست میں مجاہد اول کے کردار کے منفرد گوشوں سے آشنائی ہوئی۔آزاد کشمیر میں 1970-74پر محیط 4سالہ سنہرادور مجاہد اول کی صدارت کازمانہ تھا۔ وہ واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے کشمیر کے دشوار گذار راستوں، وادیوں اور گھاٹیوں کوپیدل اپنے قدموں پر سرکیا، وادی نیلم میں بیرونی دنیا سے سب سے پہلے مجاہد اول کے قدم لگے تھے۔ وہ وادی نیلم میں غربت میں گھرے کشمیریوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔

ان دنوں اس وادی سرسبز کے باسی صرف نیم سیاہ ملیشیا کوہی کپڑاسمجھتے تھے۔ سردار قیوم نے اسی ملیشیاکی وردی کو کشمیر کی افسر شاہی کے لیے لازم کر دیا تھا۔کہتے ہیں کہ صرف وادی نیلم سے ان کے جنازے میں 30ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی اور یہ بھی سردار قیوم ہی تھے جنہوں نے وسائل کی کمیابی کو حصول تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا تھا بطور صدریاست انھوں نے حکم جاری کیا تھا کہ عمارتوں کی عدم موجودگی میں ہر گاؤں میں سب بڑے درخت کو اسکول کا درجہ دیا جائے جس کی وجہ سے آج آزاد کشمیر علم کے نور سے جگمگارہا تھا۔ یہ اعزاز بھی سردار قیوم کے حصے میں آیاکہ سویلین ہوتے ہوئے بھی انھیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا اوران کی اپنی آزاد کشمیر بٹالین (AK-6)نے اپنے بانی کمانڈر کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحدمیں اُتارا۔ 1962تک یہ بٹالین قیوم بریگیڈکہلائی ۔

1971میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کے بعد ’ کشمیر بنے گاپاکستان‘کانعرہ صدریاست کی حیثیت سے سردار قیوم نے بلند کیا کہ اگر بنگالیوں نے شیخ مجیب کی قیادت میں علیحدگی کی راہ اپنائی تو ہم پاکستان سے الحاق کے لیے نعرہ زن ہوں گے۔آج مختلف گروہوں، قبیلوں اور نظریات میں تقسیم کشمیریوں کی عظیم اکثریت ’کشمیربنے گا پاکستان‘ کا نعرہ ہم قدم ہوکر بیک زبان بلندکرتی ہے۔

سپریم کورٹ کے درویش صفت چیف جسٹس جواد ایس خواجہ آج 2015میں اُردو کو قومی زبان کی حقیقی اہمیت دلا کر عوامی جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔کئی دہائیوں قبل سردار قیوم آزاد کشمیر میں اُردو کو سرکاری زبان قرار دے چکے تھے جس کے بعد سے آزاد کشمیر میں ساراکارِسرکاراُردو میں انجام پاتا ہے۔

مجلس عروج پر تھی شبنم کی نمی، گرمی کے ستائے ہوئے مارگلہ کے اس پار سے آئے ہوؤں کے لیے راحت جاں تھی کہ میزبان نے بڑی عاجزی سے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ رات کی اُوس بتدریج ہڈیوں میں جذب ہوکر سارے نظام کو منجمد کردیتی ہے، اس لیے چھت تلے جانا بہتر ہوگا، اس دوردراز گاؤں میں تمام جدید سہولیات سے آراستہ نشست گاہ پھولوں اور پھلوں کی پر اسرار خوشبوسے مزین تھی۔

پھر ذکر چھڑ گیا عباسیوں کا جو پاکستان کے مختلف حصوں میں آباد، حضرت عباس علمدارؓ کی اولادجو سندھ ، بہاولپور، مری، آزاد کشمیر اور خیبر پختون خواہ میں ہزارہ کے علاقے تک بکھری ہوئی، اپنے عظیم جدامجد کی امام عالی مقام نواسہ رسولﷺسید نا حسینؓ سے وفاداری کی یاد دلاتی ہے جنہیں میدان کربلا میں حسینی پرچم عطا ہوا تھا جو جناب عباس علمبردارؓ  آخری سانس تک سربلند رکھا تھا ۔

خورشید عباسی بتارہے تھے، ہمارے آباؤاجداد مختلف اوقات میں برصغیر تشریف لائے تھے۔ آزاد کشمیر میں عباسی عددی لحاظ سے بہت تھوڑے ہیں لیکن سردار قیوم کا یہ بھی کمال تھا کہ انھوں نے قبیلوں اوربرادریوں میں بٹے ہوئے آزاد کشمیر میں نسلی عصبیتوں سے بلند ہو کر نظریاتی سیاست کو فروغ دیا۔

ناشتے کی میز پر گفتگو کاسلسلہ سردار قیوم کے جنازے میں ان کی سیاسی حریفوں کی جوق درجوق شرکت کے ذکر سے شروع ہوا۔ خورشید عباسی بتارہے تھے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کا شدت غم سے براحال تھا۔ جنازے کے بعد وہ کہہ رہے تھے ’لوگوسیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن مجھ سمیت سارے کشمیری سیاست دانوں کو جو کچھ ملا مقام ومرتبہ حاصل ہواوہ سب سردار قیوم کے در سے ملا۔ ہماراقافلہ جونہی نیلابٹ کوجانے والی شاہراہ پر اترا تو گاڑیوں کی طویل اور نہ ختم ہونے والی قطار ہماری منتظرتھی، سست روی سے لیکن منظم انداز میں ٹریفک اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔

میزبان بتارہے تھے کہ ہم نے کسی کوایک پیسہ دھیلا بھی ادا نہیں کیا۔ یہ لوگ سارے آزاد کشمیر سے از خود رضاکارانہ طور پر آرہے ہیں۔ نیلابٹ کی چوٹی پر ہزاروں مردوزن منظم انداز میں بیٹھے تھے، سڑک کے کناروں پردونوں اطراف کھانے پینے کی عارضی دکانوں پر کاروبار عروج پر تھا ، بھوک سب سے بڑی ازلی و ابدی حقیقت ہے ، یہ سیاسی جلسہ نہیں ،رُوحانی پیشوا،باباجی کا عرس تھا۔

پنڈال سے ہوتے ہوئے اسٹیج تک پہنچے تو سردار عتیق وقتاًفوقتاًخود ہدایات جاری کررہے تھے۔سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی روایتی تقریریں تھیں، پرجوش نعرے تھے لیکن ہزاروں خواتین کی موجودگی اوردرجنوں رہنماؤں کااپنا وقت سردار عتیق کودینے کااعلان اس تقریب کا منفرد پہلوتھا۔

مسلم کانفرنس کے پرجوش کارکنوں کے لیے یہ تاریخی موقع تھا، 70سال بعد قیادت سردار قیوم سے سردار عتیق کومنتقل ہورہی تھی، وہی نیلابٹ جہاں پر 22سالہ عبدالقیوم خان نے غاضب ڈوگرہ فوج پر پہلی گولی چلا کر جہاد کا اعلان کیا اور مجاہد اول کہلائے۔ نیلا بٹ سے اپنی آخری آرام گاہ دھیرکوٹ، غازی آباد تک سفر، ایک شخص نہیں ڈیڑھ ارب انسانوں کے مقدر کی کہانی ہے جن کے سروں پر ایٹمی جنگ کے بادل لہرا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔