کراچی آپریشن کہاں کھڑا ہے؟

مقتدا منصور  جمعرات 27 اگست 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

متحدہ قومی موومنٹ اور وفاقی حکومت کے درمیان معاملات کسی حد تک طے پا گئے ہیں۔ یہ مولانا فضل الرحمان کی کرشماتی ثالثی کا نتیجہ تھا جنہوں نے فریقین کو ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل پر آمادہ کرلیا جو کراچی آپریشن کے دوران پیدا ہونے والی شکایات کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے گی۔

بہرحال یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ کمیٹی کتنی بااختیار ہوگی اور ان شکایات کا کس حد تک ازالہ کرسکے گی، جو اس کے سامنے آئیں گی۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس میں اور مطالبے کی جانے والی مانیٹرنگ کمیٹی میں کیا فرق ہے؟ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت کے متضاد رویے اکثر و بیشتر خود اس  کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس لیے ایم کیو ایم سمیت مولانا صاحب کو ان کے وعدوں کے وفا ہونے تک انتظار کرنا ہوگا۔

مسلم لیگ ن کی قیادت  کی مشکل یہ ہے کہ ان کے لیے ایک طرف تحریک انصاف نے محاذ کھول رکھا ہے جس کی وجہ سے اسمبلیوں کی تحلیل کی تلوار مسلسل ان کے سرپر لٹک رہی ہے جب کہ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دباؤ ہے۔ گزشتہ ہفتے الیکشن ٹریبونل نے NA122میں ہونے والے الیکشن کوکالعدم قرار دیا جس سے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی قومی اسمبلی کی رکنیت برقرار نہیں رہی۔ ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ خواجہ سعد رفیق کی طرح انھیں ان کی نشست پر بحال کردے مگر وہ اسپیکر رہنے کا اخلاقی جواز بہرحال کھوچکے ہیں۔

تناؤ کے اس ماحول میں ایم کیو ایم کی جانب سے قومی اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ سینیٹ سے بھی استعفیٰ دیا جانا ایک تازیانے سے کم نہیں۔اس صورتحال میں ان کا پریشان ہونا فطری بات ہے۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمان کی وساطت سے ایم کیو ایم کو منانے کے ساتھ ہی بعض حلقوں کی ناراضی سے بچنے کی کوششیں جاری ہیں۔

وافقان حال بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل سمیت ایم کیو ایم کے کئی مطالبات ماننے پر آمادہ ہوچکے تھے مگر جس روز مولانا کو استعفوں کی واپسی کے لیے مذاکرات کرنا تھے، دہشت گردوں نے قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ کرکے شدید زخمی کردیا۔

لہٰذاوزیر اعظم نے فوری طور پر کراچی پہنچ کر  Apex Committeeکا اجلاس بلا لیا ، لیکن میٹنگ کے دوران جب انھیں آنکھیں دکھائی گئیں، تو اس قدر بدحواس ہوئے کہ نہ صرف پہلے سے طے شدہ مطالبات کو ماننے سے مکرگئے، بلکہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل کی عیادت کے لیے بھی نہیں گئے۔ پھر ایسے بیانات دیدیے جنہوں نے سیاسی ماحول میں بہتری کے بجائے مزید کشیدہ بنادیا۔

دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ نے مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل کی انتہائی شدو مد کے ساتھ مخالفت کی۔ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اس آپریشن کے کپتان ہیں، تو پھر کسی مانیٹرنگ کمیٹی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ شکایات ان تک پہنچائی جائیں۔ ان کا کلام بالا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ خوداکثر مواقعے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زیادتیوں کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، تو پھر ان سے شکایات کے مداوے کی توقع کیوں کر کی جائے؟اس سلسلے میں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ شاہ صاحب نے یہ سارا کھیل ایک منصوبے کے تحت کھیلا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ایم کیو ایم کا قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ تناؤ اور ٹکراؤ کے طول پکڑتا جائے، تاکہ وہ نزلہ جو کسی بھی وقت ان کی جماعت پر گرنے والاہے، ایم کیو ایم تک ہی محدود رہے۔

صحافتی حلقوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ جہاں ایک طرف وفاقی حکومت ایم کیو ایم کو اسمبلیوں میں واپس لاکر اپنے اوپر سے دباؤ ختم کرنا چاہتی ہے۔وہیںدوسری طرف سندھ کی صوبائی حکومت لڑائی کو تیز کرکے اپنے سر سے بلا ٹالنا چاہتی ہے۔ ان دونوں جماعت کے متضاد Perception کی وجہ سے کراچی میں جاری آپریشن تماشہ بن چکا ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ کسی بھی ملک کے کسی حصے میں شورش یا بدامنی پر قابو پانے کے لیے سخت گیر انتظامی اقدامات کرتے وقت چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اول، یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں جاری مقبول سیاسی عمل متاثر نہ ہونے پائے۔ کیونکہ اس طرح عصبیتوں اور ناپسندیدگیوں کی ایک نئی فضاء جنم لیتی ہے، جو شورش کو مزید مہمیز لگاتی ہے۔ دوئم، عوام کو سہولیات فراہم کرکے ریلیف دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سوئم، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ممکنہ طور پر کسی ماورائے قانون و عدالت اقدامات کی روک تھام اور عوام کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کے ازالے کے لیے جواب دہی کا ایک میکنزم بھی تیار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ حکومت کا صوابدیدی اختیار ہونا چاہیے کہ وہ جب چاہے آپریشن کو کچھ عرصے کے لیے معطل یا مکمل طور پر ختم کردے۔ کراچی آپریشن کو شروع کرتے وقت ان نکات کو مدنظر رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کسی اور سمت رخ اختیار کر رہا ہے۔ اس صورت حال کی اصل وجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان روابط(Coordination)کی کمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حکومت کے مناسب کنٹرول کا فقدان ہے۔

مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام سے مسلسل انحراف اور سامنے آنے والی شکایات کو نظر انداز کیا جانا، ان شکوک و شبہات کو تقویت مل رہی ہے کہ اس آپریشن کا مقصد اربن سندھ کی نمایندہ سیاسی جماعت کی سیاسی قوت کو ختم کرکے کراچی کے وسائل کو تصرف میں لانا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث بیشتر افراد اور ان کے سہولت کاروں کی نمایاں تعداد کا تعلق ایک مخصوص مذہبی جماعت سے ثابت ہوجانے کے باوجود اس کے خلاف کارروائی سے گریز کیا رہا ہے۔

کراچی میں جاری آپریشن کے دوران ماورائے آئین و قانون اقدامات کی جو شکایات سامنے آرہی ہیں، ان کی تحقیقات سے گریزکیا جانا بھی حکومت کے ارادوں کو ظاہر کر رہا ہے۔ آئین و قانون کے مطابق کسی بھی جرم میں گرفتار فرد کو24گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرکے اس کا ریمانڈ لینا چاہیے۔ ریمانڈ کی مدت 7روز سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

90روز کے ریمانڈ کی اجازت دینے کی ذمے داری پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں پر عائد ہوتی ہے،جنھیں نے مخصوص دباؤ میں آکر جمہوری اصول و ضوابط اور نظام عدل کا گلاگھونٹ دیا ہے۔ اس غیر جمہوری عمل کا خود ایم کیو ایم بھی حصہ رہی ہے، جواب اس سفاکانہ قانون کا شکار ہونے پر واویلا کررہی ہے۔ دنیا بھر کے قوانین میں14روز سے زائد کا ریمانڈ نہیں دیاجاتا مگر پاکستان میں باوا آدم ہی نرالا ہے۔

دوسرا مسئلہ زیر حراست ملزمان  پر تشدد اور ایذارسانی کا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میںتحقیق اور جدید سائنسی طریقوں کے متعارف کیے جانے کے بعد تفتیش کا طریقہ کار تبدیل ہوگیا۔ دنیا بھر میں کسی جرم کی تفتیش اور اقبالِ جرم کے لیے مشکوک فرد یا افراد پرتشدد کے علاوہ دیگر طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ جب کہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں نوآبادیاتی نظام کے تھرڈ ڈگری تشدد کو آج بھی تفتیش کا واحد ذریعہ سمجھاجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے یہ شکایات بھی عام ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاسی کارکنوں کو بغیر کسی پیشگی سرچ وارنٹ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ان پر بدترین تشدد اور ایذارسانی کی جاتی ہے۔ ان میں کچھ اپنی جان سے چلے جاتے ہیں، جو باقی بچتے ہیں ان کی اکثریت تمام عمر کے لیے اپاہج ہوجاتی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کی جانب سے ایذارسانی کے خلاف منظورکردہ کنونشن پر پاکستان نے2010 میں دستخط کیے ہیں مگر اسے قانونی شکل دینے میں حکومتیںاب تک ناکام ہیں۔

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کراچی آپریشن کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی پوزیشن واضح کریں۔ انھیں عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ آپریشن کی منصوبہ بندی اور طریقہ کار کن بنیادوں پر وضح کیا گیا ہے؟ کیا آپریشن کے دوران ہونے والی کسی زیادتی پرجواب دہی کا کوئی میکنزم وضع کیا گیا ہے؟

مانیٹرنگ کمیٹی کی تشکیل سے کیوں گریز کیا جا رہا ہے؟ اگر آپریشن دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے، تو کالعدم تنظیموں اور ان مذہبی جماعتوں سے کیوں صرف نظر کیا جارہاہے،جن کے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں؟

یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو  آزاد چھوڑدینے سے کئی آئینی اورقانونی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں، جو حکومت کو مسائل و مصائب کی نئی دلدل میں دھکیلنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں درج بالا سوالات کے جوابات دے کر عوام کو مطمئن کریں۔وگرنہ بصورت دیگراس آپریشن کے نتیجے میں مسائل جنم لیں گے ، جنھیں حل کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔