تحریکِ انصاف والوں تم ہرگز فتحیاب نہیں ہوئے!

محمد عثمان فاروق  جمعرات 27 اگست 2015
بہتر یہی ہے کہ کے پی کے میں کارکردگی کا مظاہرہ کریں صرف یہی ایک طریقہ آپ کو حقیقی جیت تک پہنچا سکتا ہے۔ فوٹو :فائل

بہتر یہی ہے کہ کے پی کے میں کارکردگی کا مظاہرہ کریں صرف یہی ایک طریقہ آپ کو حقیقی جیت تک پہنچا سکتا ہے۔ فوٹو :فائل

حلقہ این اے 154 کا منظر تھا اور میڈیا پر ایک طوفان برپا تھا کہ عمران خان نے ایک اور وکٹ گرادی۔ میں نے غور کرنا شروع کیا کہ آخر کونسی وکٹ گری؟ لیکن سمجھ نہ سکا کہ کونسی وکٹ گری۔ اربوں روپیہ دھرنوں پر اُڑا کر اگر وکٹیں ایسے ہی گرانی تھیں تو دو مہینے تک عوام کو ڈی جے بٹ کی 6 کروڑ مالیت کی دھنوں پر نچایا کیوں گیا؟ اب تک جن فیصلوں کو وکٹ گرانا کہا جارہا ہے، ان میں کہیں بھی تحریک انصاف کی جیت یا کسی وکٹ گرانے کا ذکر نہیں ہے۔ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ’’بے ضابطگیاں‘‘ ہوئیں ہیں اور بے ضابطگیوں کا ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ کس نے کس کے حق میں دھاندلی کی ہے۔ پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ ’’بے ضابطگیاں‘‘ تحریک انصاف کی حق تلفی ظاہر کرتی ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ’’بے ضابطگیاں‘‘ ن لیگ کی مزید برتری ثابت کرتی ہوں۔

اس بات کا تو مجھے مکمل یقین ہے کہ اس تحریر کے بعد تحریک انصاف والے مجھ پر بھی ’’پٹواری‘‘ ہونے کا فتویٰ جاری کردیں گے، تو ایسے تحریک انصاف کے دیوانوں سے کہوں گا کہ بھائی ثابت کرو کہ میں غلط کہہ رہا ہوں۔ عمران خان کو میں بھی پسند کرتا ہوں مگر کوئی لاجک، کوئی عقل سمجھ اور فکر بھی ہوتی ہے۔ دلیل کا جواب اگر گالی سے آئے تو اسکا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ دلیل والا جیت چکا ہے۔

تو میرا تحریک انصاف والوں سے صرف اتنا سوال ہے کہ آپ لوگ کہتے تھے کہ ’’منظم دھاندلی‘‘ ہوئی ہے۔ مگر ’’منظم‘‘ تو دور کی بات، آپ تو اب تک ’’غیر منظم‘‘ دھاندلی بھی ثابت نہیں کرسکے۔ آخر آپ کب تک کالے کوے کو سفید ثابت کرتے رہیں گے؟ یہاں کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ دھاندلی نہیں ہوئی، بالکل ہوئی ہے بلکہ 101 فیصد ہوئی ہے لیکن کسی ایک نے نہیں بلکہ جس کا جہاں زور چلا اُس نے وہاں کی ہے چاہے پھر وہ پنجاب ہو، خیبرپختونخواہ ہو، سندھ ہو یا بلوچستان۔

جیت چڑھتے سورج کی مانند ہوتی ہے، جس کے لیے ڈھول تاشوں پر گلے پھاڑ کر اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ جب جیت آتی ہے تو سب کو نظر آتی ہے۔ جہاں تک تعلق ’’بے ضابطگیوں‘‘ کا ہے تو اِس سے تو کبھی بھی کسی نے انکار نہیں کیا۔ جب خان صاحب دھرنا دے رہے تھے تو لوگوں نے بہت مطالبہ کیا کہ جو ہوا اُس کو چھوڑیں اور مستقبل بھی فکر کریں۔ دھرنے کے وقت بہت سمجھایا گیا کہ آپ اگلے انتخابات کے لیے بائیو میٹرک سسٹم کی یقین دہانی لے لیجیے، کوئی معاہدہ کرلیجیے تاکہ ہمیشہ کے لیے دھاندلی کا قصہ ہی تمام ہوجائے مگر خان صاحب کہاں کسی کی مانتے ہیں۔ اُن کی سوئی اُنہیں چار حلقوں میں اٹکی رہی۔ اب بقول تحریک انصاف کے، کہ اُنہوں نے ن لیگ کی تین وکٹیں گرادی ہیں جس کے بعد ن لیگ نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے ضمنی انتخاب میں جانے کا اعلان کردیا تو تحریک انصاف یہ کہہ کر پیچھے ہٹ رہی ہے کہ جب تک سسٹم ٹھیک نہیں کیا جائے جب تک کوئی انتخاب نہیں لڑا جائے گا۔

سمجھ نہیں آتا کہ سر کس دیور پر ماروں۔ اب اگر تحریک انصاف کی اِسی منطق کو مان لیا جائے تو پھر جو گزشتہ ہفتے ہری پور میں انتخابات لڑا ہے یا عام انتخابات کے بعد سے جتنے بھی ضمنی انتخابات لڑے ہیں اُن کو کس نظر سے دیکھا جائے؟ اُس وقت سسٹم ٹھیک تھا؟ آخر کوئی تو ایسا سرا ہونا چاہیے نا جہاں سے تحریک انصاف کی بات کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکے۔

چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ جی عمران خان کا موقف ٹھیک تھا اور وہ 4 حلقوں والی بات پر سُرخرو ہوئے ہیں۔ لیکن اُن حلقوں کے بارے میں جنونیوں کی کیا رائے ہے جہاں سے تحریک انصاف والوں کو کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ کیونکہ دھاندلی تو پورے ملک ہوئی تھی۔ ذرا فرصت ملے تو تحریک انصاف اِس بات کا بھی جواب دیجیے گا۔

جناب معاملہ یہ ہے کہ قصور کسی ایک کا نہیں بلکہ سسٹم کا ہے۔ خرابی کی اصل وجہ یہ سسٹم ہی ہے۔ سسٹم کی خرابی کا ذمہ دار تحریک انصاف الیکشن کمیشن کو ٹھہرا رہی ہے۔ جی یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جن کے زیرِ سایہ انتخابات کی بدولت تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور قومی اسمبلی میں سیٹوں کے اعتبار سے تیسری بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف کوئی ایک فیصلہ کرلے۔ اور وہ یہ کہ کیا وہ انتخابات کو ٹھیک سمجھتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر عمران خان قوم سے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر معافی مانگیں۔ لیکن اگر وہ ٹھیک سمجھتی ہے تو پھرماضی میں جانے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھے اور اگلے انتخابات میں قوم کو سُرخرو کرنے کے لیے یک نکاتی ایجنڈے پر کام کرے اور ساتھ ہی ساتھ کے پی کے میں کارکردگی کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو اعتماد دے کہ اگر اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کو موقع دیا گیا تو وہ لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے۔

اُمید ہے جنونی بات کو ٹھنڈے دماغ سے پڑھیں گے اور ٹھنڈے دماغ سے اپنے کپتان پر ٹھیک ٹھیک فیصلے کرنے کے لیے زور دیں گے۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اب بھی فتحیاب نہیں ہوئی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔