میری جیب میں کیا ہے؟ (پہلاحصہ)

تشنہ بریلوی  ہفتہ 29 اگست 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

وہ لڑکا اکثر ان سڑکوں سے گزرتا تھا ۔حیرت سے اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتا ہوا۔سیٹی بجاتا ہوا ‘ عورتوں کو تکتا ہوا ‘بڑی بڑی گاڑیوں اور دکانوں سے مرعوب ہوتا ہوا اور اپنی حالتِ زار پر دل ہی دل میں ماتم کرتا ہوا۔ اس کا لباس کرتا پاجامہ ہوتا تھا۔

لیکن آج و ہ لڑکا کوٹ پتلون پہنے ہوئے ہے۔اس کی نظروں میں سراسیمگی اور چال میں لڑکھڑاہٹ نہیں ہے ۔ آج اس کی بجھی بجھی رہنے والی آنکھوں میں چمک ہے اور ہونٹوں پر پُراعتماد مسکراہٹ۔ وہ قدرے اکڑ کر چل رہا ہے۔اس کا دایاں ہاتھ کوٹ کی جیب کے اوپر ہے جو بھری ہوئی لگ رہی ہے اور کوٹ بھی کسی اور ہی کا لگ رہا ہے ۔ وہ سولہ سترہ سال کا لڑکا بڑے پیار سے اپنی جیب پر ہاتھ پھیرتا ہے ‘ مسکراتا ہے‘ کچھ گنگناتا ہے اور فاتحِ عالم کی شان سے ہر طرف دیکھتا ہے۔

یہ شہرکانپور ہے اور وقت ہے 1944 یعنی تقسیم ِہند سے تین سال پہلے کا زمانہ ۔ دوسری عالمی جنگ قیامت کی تباہیاں پھیلا کر اور کروڑوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ایٹمی دھماکا ابھی ہونا باقی ہے۔ 1942کے QUIT INDIA MOVEMENTکا آندولن (انقلاب) ناکام ہوچکا ہے ۔ کانگریس کے تمام بڑے رہنما جیل میں ہیں اورکیوں نہ ہوں اس لیے کہ دبنگ چرچل ابھی وزیر اعظمِ برطانیہ ہے اور وہ کسی رعایت کا قائل نہیں ۔مگر جلد ہی صورتِ حال بدلنے والی ہے ۔کانپور یوپی صوبے کا سب سے بڑا شہر ہے ۔

ہندوستان کا مانچسٹر‘ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت کا مرکز۔ یہاں بے شمارکارخانے ہیں جن کا سامان لے جانے کے لیے شہرکے بیچوں بیچ براڈ گیج کی مال گاڑی چلتی ہے ۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم نے کانپورکو مالا مال کردیا ہے ۔ روزگار اور خوشحالی کے دروازے سب پر کھلے ہیں اور سب مزے کررہے ہیں۔یہ شہر تعلیم کا بھی بہت بڑا مرکز ہے اور یہ لڑکا بھی یہاں کے ایک منفرد اور مشہورانٹرکالج ( حلیم کالج) کا طالب علم ہے۔

اور کانپور ہی وہ شہر ہے جس نے 1857ء کے غدر ( یا جنگِ آزادی) میں ایک بے حد اہم رول ادا کیا تھا ‘ یہیں وہ میسکرگھاٹ (Massacre Ghat)ہے، جہاں ہتھیار ڈالنے والے ہزاروں انگریز مردوں‘عورتوں اور بچوں کی کشتیوں پر ہندوستانی سپاہیوں نے گولیاں چلادی تھیں ‘ یہیں وہ بلیک ہول بھی ہے جس میں کئی انگریز فیملیاں دم توڑ گئی تھیں اور یہیں وہ بی بی گھر بھی ہے جہاں پناہ لینے والوں کو قصائیوں کے ذریعے ذبح کرایاگیا تھا، اس لیے کہ سپاہیوں نے بے یارومددگار عورتوں اور بچوں پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا تھا۔انگریز جنرل نیل نے الہٰ آباد سے فوج لا کرکانپور پر قبضہ کیا تو انتقام کی آگ اس کے سینے میں بھڑک رہی تھی ۔ ہزاروں کو پھانسیاں دی گئیں اور ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔

داستانِ عبرت و حسرت تو ہے بیحد طویل

میں نے لکھ ڈالی ہے کرکے مختصر دیوار پر

کانپور کے علاوہ میرٹھ‘ دہلی ‘ بریلی ‘ لکھنؤ اور دوسرے کئی شہروں میں بھی قتل عام ہوا ۔ افسوس صد افسوس کہ سپاہیوں کی حماقت اوراپنوں کی غدّاری کی وجہ سے وہ کامیابی جو کانپور میں شروع ہوئی تھی انجام تک نہ پہنچ سکی۔خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے۔کنویں کنواریوں کی لاشوں سے پٹ گئے ۔ اندازہ ہے کہ1857ء اور1858ء میں ایک لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں کو قتل کیاگیا۔

لیکن اس کے فوراً بعد ہی کانپور کی بیمثال صنعتی ترقی بھی شروع ہوگئی ۔ یہ سب تاریخی واقعات یاد کرتا ہوا وہ لڑکا بازاروں میں گھوم رہا تھا ۔ قیمتی اشیا سے بھری دکانوں کو دیکھ رہا تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ کسی کے بارے میں یہ سن کر کہ وہ لکھ پتی ہے ٹانگیں کانپنے لگتی تھیں مگر کانپورکے ان مشہور و معروف بازاروں کے تاجر کروڑ پتی حتیٰ کہ ارب پتی بھی ہیں۔

اتنے امیر کہ فرنگی شہزادے بھی ان پر رشک کریں لیکن آج وہ لڑکا ان دولت مند تاجروں پر ترس کھارہا ہے یہ بچارے دن بھر محنت کرتے ہیں اور رات تک دس بیس لاکھ ہی کماپاتے ہوں گے۔ اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ میری جیب میں کیا ہے تو ننگے پاؤں دوڑتے ہوئے میرے پاس آئیں اور میرے ہاتھ چومیں ۔ اپنی تمام دولت میرے قدموں پر نثار کردیں ۔’’چلو ان معصوموں کو ان کے حال پر چھوڑدو ‘‘ لڑکے نے مسکراتے ہوئے کوٹ کی جیب کو تھپتھپایا۔

پھر وہ لڑکا ذرا آگے بڑھتا ہے تو پھول باغ آجاتا ہے ۔ یہ اس شہر کا سب سے مشہور باغ ہے ۔ بہت شاندار علاقے میں واقع ہے ‘ کرائسٹ چرچ کالج کے قریب۔ پھول باغ وہی جگہ ہے جہاں 1920 کے لگ بھگ بیگم حسرت موہانی نے نوجوان جواہر لال(پنڈت نہرو) کی پٹائی کی تھی اس لیے کہ انھوں نے مولانا کی شان میں گستاخی کی تھی۔

جواہر لال پٹ کر بھی بدمزہ نہ ہوا‘ مسکراتا ہی رہا اور ساری زندگی چکّی کی مشقت کرنے والے شاعر کی عزت کرتا رہا۔اس وقت پھول باغ میں ایک سیاسی جلسہ ہورہا ہے۔ بڑی بھیڑ جمع ہے ۔ مقرر ہیں جناب جے پرکاش نارائن ( جے پی ) کانگریسی فارورڈ بلاک کے رہنما ‘ جواہر لال نہرو کی جگہ لینے کے خواہش مند جو خود کو سوشلسٹ کہتے ہیں اور گاندھی کے پرستار بھی ہیں ۔ جے پی کی تقریر شروع ہوچکی ہے وہ ہاتھ ہلا ہلا کر بھاشنڑ دے رہا ہے اور پنڈال جے جے کار سے گونج رہا ہے ۔ مگر یہ نو عمر لڑکا بڑے مربیّانہ انداز سے اُس کو دیکھ رہا ہے۔

کاش‘ اے کاش! اس شعلہ زباں جے پرکاش کو معلوم ہوجائے کہ میری جیب میں کیا ہے ۔ وہ فوراً ڈائس سے چھلانگ لگا کر میرے قدموںپہ ڈھیر ہوگا اور ڈنڈوت کرے گا ۔ مگر میں اپنا وقت کیوں ضایع کروں ۔ انھیں ان کے حال پر چھوڑدو۔‘‘ اب یہ ٹہلتا ہوا اور گنگناتا ہوا لڑکا ایک ایسے محلے میں داخل ہوتا ہے کہ جس کا نام ہی چونکا دینے والا ہے ۔’’ طلاق محل‘‘۔ بھلا یہ بھی کسی محلے یا کسی بستی کا نام ہوا مگر کانپور کا یہ طلاق محل اپنے اندر داستانیں سمیٹے ہوئے ہے ۔

غدر سے پہلے کانپور مشہور ریاست اودھ میں شامل تھا ۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد جب مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی تو بہت سے صوبیداروں نے اپنی اپنی ریاستیں قائم کرلیں جن میں حیدر آباد دکن سب سے نمایاں تھی۔ ریاست اودھ (ایودھیا) بھی اسی طرح وجود میں آئی۔1722ء میں نواب سعادت علی خاں فیض آباد میں تخت نشین ہوئے ۔1775ء میں دارالخلافہ لکھنؤ منتقل ہوگیا ۔ یہ خاندان چونکہ ایرانی تھا اس لیے شعر وشاعری‘ مصوری ‘ موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کو بیحد فروغ حاصل ہوا ۔ اندر سبھا یہیں سجائی گئی ۔ (فلم ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘ اور’’ امراؤ جان ادا‘‘  میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ) نوابین عیش و عشرت میں غرق تھے۔ انھیں شادیاں کرنے کا شوق تھا ۔

ہر نواب کی بہت سی بیویاں(منکوحہ یا غیر منکوحہ) ہوتی تھیں اور ان بیویوں کی درجہ بندی بھی کی جاتی تھی ۔ٹاپ پر ملکہ عالیہ (ولی عہد کی والدہ) ‘ اس کے بعد حضرت محل‘ بیگم صاحبہ‘ خانم ’’خلوتی‘‘ اور آخر میں ’’دلپسند‘‘۔’’عارضی‘‘ بیویوں کو طلاق بھی ملتی تھی اور گذارہ الاؤنس بھی۔ کانپور کا طلاق محل ایسی ہی خواتین کی اب تیسری نسل سے آباد تھا ۔ کھڑکیوں سے جھانکتی ہوئی عورتوں کو دیکھ کر لکھنؤ کے چوک کی یاد آتی تھی۔            (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔