چین کا اقتصادی بحران، عالمی کساد بازاری کی طرف ایک قدم؟

سید بابر علی  اتوار 30 اگست 2015
کاروباری دن کا اختتام ایک ہزار 419 پوائنٹس کی کمی کے بعد 33ہزار 100 پوائنٹس پر ہوا، جو 3 ماہ کی کم ترین سطح ہے ۔  فوٹو : فائل

کاروباری دن کا اختتام ایک ہزار 419 پوائنٹس کی کمی کے بعد 33ہزار 100 پوائنٹس پر ہوا، جو 3 ماہ کی کم ترین سطح ہے ۔ فوٹو : فائل

چین کے بازارِحصص میں ہونے والی شدید مندی نے عالمی اسٹاک مارکیٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔ چین کے شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس میں تیزی سے ہونے والی کمی کے اثرات کراچی، لندن، نیویارک ، پیرس اور فرینکفرٹ کے بازارِحصص پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج ہنڈریڈ انڈیکس میں ہونے والی شدید گراوٹ نے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈبو دیے ہیں۔

حصص مارکیٹ میں کام کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ کافی عرصے سے پاکستان کے بازارِحصص میں تیزی کا رجحان تھا، لیکن چین اور ین الاقوامی بازار حصص میں آنے والی مندی سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوا۔ ملکی اور خصوصاً غیرملکی سرمایہ کاروں کے اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکالنے کی وجہ سے کراچی ہنڈریڈ انڈیکس میں گراوٹ پیدا ہوئی۔

شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس میں گراوٹ کے بعد کاروباری ہفتے کے پہلے روز ہی کراچی اسٹاک مارکیٹ سرمایہ کاروں کی 20 ارب روپے سے زاید رقم ڈوب گئی۔ کاروباری ہفتے کا آغاز مندی سے ہوا جس کا اہم سبب بین الاقوامی مارکیٹس میں چین کی وجہ سے ہونے والا دباؤ تھا۔ ہنڈریڈ انڈیکس 34ہزار 519 پوائنٹس سے گر کر 33 ہزار 27 پوائنٹس کی سطح تک پہنچ گیا۔

کاروباری دن کا اختتام ایک ہزار 419 پوائنٹس کی کمی کے بعد 33ہزار 100 پوائنٹس پر ہوا، جو 3 ماہ کی کم ترین سطح ہے، جب کہ کے ایس ای 30انڈیکس پر بھی مندی کا رجحان رہا اور کاروباری ہفتے کے پہلے روز یہ 950 پوائنٹس کمی کے بعد 20ہزار 158 پر بند ہوا۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج میں اگست کے آخری ہفتے کے ابتدائی دو دنوں میں تقریباً چار ہزار پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔ سرمایہ کاروں کے مطابق کراچی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کی اہم اور بڑی وجہ عالمی سطح پر جاری حالیہ کساد بازاری کی لہر ہے، جو چین کی جانب سے یوآن کی قدر میں کمی کے بعد پیدا ہوئی اور اس نے پوری دنیا کے حصص بازاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

٭چینی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے بین الاقوامی بازار حصص پر اثرات:
چین جسے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بھی کہا جاتا ہے، سست روی کا شکار ہوگئی ہے۔ چین کے بازارحصص میں ہونے والی گراوٹ نے نہ صرف دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈبو دیے، بل کہ خام تیل کی قیمتیں بھی چھے سالوں کی کم ترین سطح پر آ گئی ہیں۔ اسٹاک مارکیٹس میں مندی کے بعد خام تیل 40 ڈالر فی بیرل کی سطح پر آ گیا ہے۔

لندن کے بازارِ حصص میں رواں سال کے دوران اب تک کی سب سے زیادہ کمی اگست کے آخری ہفتے میں ریکارڈ کی گئی۔ اگست کے آخری ہفتے میں فٹسی 100 انڈیکس میں پانچ فی صد کمی اور سٹینڈرڈ اینڈ پوروز میں 3.9 فی صد کمی دیکھنے میں آئی، جو گذشتہ چار برس میں ایک دن کے دوران ہونے والی سب سے زیادہ کمی ہے۔

دوسری جانب چینی بازار حصص میں گراوٹ کے بعد کارخانوں کی پیداوار میں بھی ریکارڈ کمی ہوئی ہے، جو کہ گذشتہ چھے برسوں کے مقابلے میں اگست میں پیداواری شعبے کی ترقی میں سب سے زیادہ کمی ہے۔ چین کا مینوفیکچرنگ پرچیزنگ انڈیکس 47.8 سے کم ہو کر 47.1 پر آ گیا ہے۔ اگست کے آخری ہفتے میں شنگھائی انڈیکس میں مجموعی طور پر 12 فی صد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے بازارِحصص میں گراوٹ کا اہم سبب حکومت کی جانب سے کرنسی کی قدر میں کمی اور سست پیداواری شرح ہے۔

چین کی معیشت میں مینوفیکچرنگ پرچیزنگ انڈیکس کافی اہمیت کا حامل ہے۔ پیداوار کے اس اشاریے کے مدد سے اقتصادی ترقی کی سمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 2014 کے دوران چین کی اقتصادی شرح نمو 7.4 فی صد رہی جو 1990 کے بعد اب تک کی کم ترین سطح ہے، جب کہ رواں سال جون کے بعد سے عالمی بازارِ حصص میں شدید اتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا ہے۔

چین کے بازار حصص میں مندی کے بارے میں ماہراقتصادیات نیکولس ٹیو؟؟؟؟ کا کہنا ہے کہ چین کی معیشت میں سست روی سے عالمی اقتصادیات میں بہتری کی امیدیں دم توڑ جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’چین اب صرف دنیا کے لیے محض ایک کارخانہ نہیں ہے ، بل کہ یہ عالمی مصنوعات کی اہم منڈی بھی ہے۔ اور دنیا کی بہت سی کمپنیوں اور صنعتوں کا انحصار چینی صارفین پر ہے، جن کی قوت خرید معاشی بحران کی وجہ سے کم ہو رہی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اگست کے آغاز میں چین کے مرکزی بینک نے یوآن (چین کی کرنسی) کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں کم کر دیا تھا۔

دنیا کی بہترین خود مختار میکرو اکنامک ریسرچ کمپنیوں میں سے ایک ’کیپیٹل اکنامکس‘ کے سربراہ مارک ولیم کا کہنا ہے کہ بہت سے معیشت چین کے اقتصادی خطرے پر اوور ری ایکٹ کر رہی ہیں۔ چین کے مینوفیکچرنگ انڈیکس کے 77 ماہ کی کم ترین سطح پر آنے کے بعد حالیہ دنوں میں چین پر توجہ میں اضافہ ہوگیا ہے۔

درحقیقت حالیہ اعداد و شمار زیادہ مثبت اور معیشت کے کچھ بڑے حصے بھی مضبوط دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا کے بازار حصص میں تیزی سے ہونے والی مندی میں یورپ کے چھوٹے کاروباروں کی وجہ سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے، کیوں کہ یورپی ممالک میں بہت سے سرمایہ کار چھٹیوں پر ہیں۔

اسٹاک مارکیٹس پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار ڈیوڈ میڈن کا اس حوالے سے کہنا ہے،’’میرے خیال میں اگلے چند دنوں میں صورت حال مزید غیریقینی ہوجائے گی۔‘‘ دوسری جانب بیجنگ نے چینی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک نئے اقدام کے تحت سرکاری پینشن فنڈ کو اسٹاک مارکیٹ میں بطور سرمایہ لگانے کا اعلان کیا۔ تاہم اس کے بھی حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آسکے۔ اگست کے آخری ہفتے کے پہلے کاروباری دن لندن کا ایف ٹی ایس ای 100 انڈیکس 2.6 فی صد کی کم ترین سطح پر بند ہوا، جب کہ فرانس اور جرمنی کے بڑے بازار حصص میں تقریباً تین فی صد کمی ریکارڈ کی گئی۔

چین میں شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس 8.5 فی صد پر بند ہوا جو 2007 کے بعد سے سب سے بڑی گراوٹ ہے اور چینی حکام کی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کی اب تک کی کی جانے والی تمام کوششیں بھی بے سود ثابت ہوچکی ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں سست پیداوار کی وجہ سے تاجر پریشان ہیں، جس کے باعث تیل کی قیمتیں بھی چھے سالوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔ جون کے وسط سے اگست کے آخری ہفتے تک شنگھائی انڈیکس میں مجموعی طور 30 فی صد کمی ہوچکی ہے۔

شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس میں تیزی سے ہونے والی گراوٹ کے سبب عالمی سطح پر حصص کی فروخت کے رجحان میں اضافہ ہوا، جس سے امریکا کا ڈاؤ جونز 6 فی صد اور ایف ٹی ایس ای 100انڈیکس میں 5 فی صد کمی آئی، جو رواں سال کے دوران ایک ہفتے میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان ہے۔ چین کے بازار حصص میں ہونے والی گراوٹ نے اُن کمپنیوں کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں جن کا زیادہ انحصار چین پر ہے، کیوں کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت، سامانِ تجارت اور تجارتی خدمات کی برآمدات میں بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس میں مندی کے بعد سب سے زیادہ ان کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں آئی ہے جو چین پر منحصر تھیں۔ اس کے برعکس ایشیا کے دوسرے حصص بازاروں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ہانگ کانگ کے ہینگ سینگ انڈیکس میں 2.6 فی صد، جاپان کے نکئی 255 انڈیکس میں اعشاریہ 7 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

وال اسٹریٹ کا ڈاؤ جونس 6 فی صد، لندن کا کا فٹسی 100 انڈیکس 4اعشاریہ 4 فی صد جب کہ فرانس اور جرمنی کے بازار حصص میں بالترتیب5اعشاریہ 5فی صد اور 4 اعشاریہ 96 فی صد مندی دیکھنے میں آئی۔ بھارت کی اسٹاک مارکیٹس بھی چین کے معاشی بحران سے متاثر ہوئیں اور اس میں تقریباً چھے فی صد کی کمی دیکھی گئی جو کہ گذشتہ سات سال میں ہونے والے سب سے بڑی گراوٹ ہے۔

٭چین میں حصص کی قیمتیں غیر مستحکم:
چین کے شنگھائی کمپوزٹ انڈیکس کو چین میں تمام حصص بازاروں میں کاروباری رجحانات کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اگست کے آخری ہفتے میں ہونے والی مندی نے سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈبو دیے۔

اگست کے پہلے کاروباری دن کے آغاز پر شنگھائی انڈیکس 8اعشاریہ 5 فی صد تک گرگیا۔ سرمایہ کاروں نے اس دن کو چینی معیشت کے لیے یوم سیاہ قرار دیا۔ اگست کے مہینے میں چین کی اسٹاک مارکیٹس میں قیمتیں 30 فی صد تک گر چکی ہیں، جس نے سرمایہ کاروں اور حکومتوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2015کے آغاز میں چینی حصص بازاروں کا شمار ایشیا کی بہترین کاروبار کرنے والی اسٹاک مارکیٹس میں کیا جارہا تھا۔ اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ سال کے آغاز پر بہت سے لوگوں نے اُدھار کے پیسوں سے چینی حصص بازار میں سرمایہ کاری کی، جس سے حصص کی قیمتیں گذشتہ ایک برس میں ایک سو پچاس فی صد تک بڑھ گئی تھیں۔ فی الوقت چینی حصص بازاروں میں 85 فی صد سرمایہ کاروں کا تعلق مالیاتی شعبے سے نہیں ہے، بل کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت کی جانب سے حصص بازار میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب کی وجہ سے آئے ہیں۔

چینی معاشرے میں حصص بازار میں سرمایہ کاری کرنا فیشن سا بن گیا ہے۔ اور یہی بھیڑ چال حصص کی قیمتوں میں تیزی اتار چڑھاؤ کا سبب بنتی ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حصص کی قیمتوں میں ایک غبارے کی طرح ہوا بھر دی گئی تھی اور یہ غبارہ بارہ جون کو پھٹ گیا، جس کے نتیجے میں شنگھائی انڈیکس اپنی تین چوتھائی قدر کھو بیٹھا۔ اقتصادی ماہرین کو یہ خطرات بھی لاحق ہیں کہ اگر چینی سرمایہ کاروں نے اپنی رقم بہت خطرناک اور سرکاری ظوابط سے مبرا آزاد جگہوں پر کی تھی تو اس کے بہت برے نتائج سامنے آئیں گے۔ 2008میں امریکا کے حصص بازار بھی اسی سبب کریش ہوگئے تھے۔

جس کے نتیجے میں عالمی اقتصادی بحران شروع ہو گیا تھا۔ چینی حصص میں غیرملکی سرمایہ کاری ایک اعشاریہ پانچ فی صد ہے، تو اس سے غیرملکی سرمایہ کاروں کے متاثر ہونے کا امکان بہت کم ہے، لیکن ماہرین معیشت کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ حصص بازار میں مندی سے صارف کے اخراجات، سونے، تانبے اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی متاثر ہوں گی۔

چینی حکومت نے مزید نقصان سے بچنے کے لیے کسی بھی کمپنی کے پانچ فی صد سے زیادہ حصص رکھنے والے سرمایہ کاروں کو آئندہ چھے ماہ تک حصص فروخت کرنے سے روک دیا ہے، جب کہ بڑے سرمایہ کار اداروں نے بازار کو مستحکم کرنے کے لیے حصص خریدنے کے وعدے کیے ہیں۔

حکومت نے نئے حصص کا اجرا بھی فی الحال روک دیا ہے۔ چین کے مرکزی بینک نے اس بحران سے نکلنے کے لیے مارجن ٹریڈنگ کرنے والے سرکاری ادارے میں بھاری رقم لگانے کا اعلان کیا ہے۔

اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ حکومت شرح سود میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں سے لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے۔ چین کے ماہرین معیشت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے چینی حکومت حصص بازاروں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے، جس کا مقصد معاشی اصلاحات کرتے ہوئے معیشت کو حکومت کے بجائے منڈی کی قوتوں پر انحصار کے قابل بنانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔