صحت کا اہم مسئلہ ! گنٹھیا یا جوڑوں کے درد

خرم منصور قاضی  اتوار 30 اگست 2015
مرض بڑھے تو ہڈیوں میں کھوکھلا پن، آسٹیوپروسیس بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔  فوٹو : فائل

مرض بڑھے تو ہڈیوں میں کھوکھلا پن، آسٹیوپروسیس بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

گنٹھیا یا جوڑوں کا درد Rheumatoid) (Arthritis ایک سوزش پیدا کرنے والی بیماری ہے جو درد‘ سوجن‘ اکڑاؤ اور جوڑوں کی کارکردگی متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اس کی کئی خاص علامات ہیں جو کہ اسے دوسری اقسام کے آرتھرائٹس جوڑوں کے درد سے ممتاز کرتی ہیں۔

یہ ایک تکلیف دہ بیماری ہے جس سے کئی جوڑ متاثر ہوتے ہیں۔ جوڑوں کے درد کی ایک وجہ چپنی ہڈی کا کم یا ختم ہو جانا ہے جس کے سبب ہڈی سے ہڈی ٹکراتی ہے اور درد ہوتا ہے۔اس کو عام زبان میں ’’گود ْا ختم ہو جانا یا ہڈیوں کے درمیان خلا کم ہوجانا کہتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی عمر کی سب سے بڑی پریشانی جوڑوں کے درد کی صورت میں سامنے آتی ہے تاہم ایک جدید تحقیق کے مطابق جوڑوں کا درد ہر نسل اور جنس کے لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

اگرچہ یہ بیماری درمیانی عمر کے لوگوں سے شروع ہوتی ہے لیکن بڑی عمر کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور بچوں اور نوجوانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ دوسری اقسام کے آرتھرائٹس کی طرح رہیماٹائیڈ آرتھرائٹس بھی مردوں کی نسبت عورتوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ متاثرہ خواتین کی تعداد متاثر مردوں سے دو یا تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔

گنٹھیا ترتیب وار حملہ کرتی ہے یعنی اگر ایک گھٹنا یا ہاتھ اس سے متاثر ہوا ہے تو دوسرا گھٹنا یا ہاتھ اسی طرح متاثر ہوگا۔ یہ بیماری عام طور پر کلائی کے جوڑوں اور ہاتھ کے نزدیک انگلیوں کے جوڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ جوڑوں کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بیماری کے شکار لوگوں کو تھکن محسوس ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بخار ہو جاتا ہے یا مجموعی طور پر صحتمند نہ ہونے کا احساس حاوی رہتا ہے۔

گنٹھیا لوگوں پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں میں کچھ ماہ کے اندر ایک سال میں یا دو سال تک رہ کر بغیر کسی قابل ذکر نقصان کے ختم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگوں میں اس بیماری کی ہلکی اور کم شدید علامات ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدتر ہو جاتی ہیں اور کچھ عرصہ میں یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر محسوس ہونے لگتی ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں میں اس کی شدید ترین شکل دیکھنے میں آئی ہے جو بیشتر وقت متحرک ہوتی ہے اور زندگی میں کئی سال تک برقرار رہتی ہے اور جوڑوں کے سخت نقصان اور معذوری کا باعث بنتی ہے۔

جوڑ وہ مقام ہے جہاں دو ہڈیاں ملتی ہیں۔ ہڈیوں کے سروں پر (Cartilage) نام کی ہڈی ہوتی ہے جو دو ہڈیوں کی حرکت کو آسان بناتی ہے۔ جوڑ ایک کیپسول سے گھرا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا اور اس کو سہارا دیتا ہے۔ جوڑ کا کیپسول ایک بافت سے جڑا ہوتا ہے جس کو سائنووئیم(Synovium) کہتے ہیں جو کہ سائنوویل رطوبت  Cynovial) (Fluid پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک شفاف مادہ ہوتا ہے جو Cartilageہڈی‘ ہڈیوں اور جوائنٹ کیپسول کو تر کرتا ہے اور طاقت دیتا ہے۔

دوسری بہت سی(Rheumetic) بیماریوں کی طرح گنٹھیا بھی ایسی بیماری ہے جس میں انسان کا مدافعتی نظام نامعلوم وجوہات کی بنا اس کے خلاف کام کرنے لگتا اور جوڑوں کے ٹشوز پر حملہ کر دیتا ہے۔ سفید خلیے جو مدافعتی نظام کے کارکن ہیں سائنوویئم کی طرف سفر شروع کر دیتے ہیں اور سوزش کا باعث بنتے ہیں۔

جس کی وجہ سے گرمی‘ سوجن‘ سرخی اور درد ہوتا ہے جو اس کی روایتی علامات ہیں۔ سوزش کے عمل کے دوران سائنوویئم گاڑھا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے جوڑ سوج جاتے ہیں اور چھونے سے اکڑاؤ کا احساس ہوتا ہے۔

جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے سائنوویم پھیلتا جاتا ہے اور(Cartilage) ہڈی کے ساتھ جوڑ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، ارد گرد کے پٹھے اور عضلات کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ گنٹھیا ہڈیوں کیلئے بہت نقصان کاباعث ہوتا ہے یہاں تک کہ ہڈیوں میں کھوکھلا پن آسٹیوپروسیس(Osteoporosis) پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ارد گرد کے پٹھے اور عضلات جو جوڑ کو سہارا دیتے اور قائم رکھتے ہیں کمزور ہو جاتے ہیں اور عام طور پر کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس کے نتیجے میں شدید درد ہوتا ہے اور جوڑ متاثر ہوتے ہیں۔

اس بیماری سے متاثر کچھ لوگوں میں جوڑوں کی خرابی کے علاوہ دوسری علامات بھی پائی جاتی ہیں۔ بہت سے گنٹھیا کے مریض خون کی کمی کا شکار ہوتے ہیں یا ان میں خون کے سرخ خلیے بننے کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ گردن کے درد، منہ اور آنکھوں کی خشکی سے متاثر ہوتے ہیں۔

بہت کم لوگوں میں خون کی نالیوں‘ پھیپھڑوں کی بیرونی جھلی اور دل کی بیرونی جھلی کی سوزش ہوتی ہے۔ سائنسدان اب تک صحیح طور پر یہ نہیں جان سکے کہ انسان کا مدافعتی نظام اس کے خلاف کام کرنا کیوں شروع کر دیتا ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں کی تحقیق کے بعد یہ چند عوامل منظر عام پر آئے ہیں۔

٭وراثتی عوامل٭ماحولیاتی عوامل ٭دیگر عوامل
بعض سائنسدانوں کے خیال میں ہارمونی نظام کی تبدیلیاں بھی اس بیماری میں کارفرما ہوتی ہیں۔ خواتین میں مردوں کی نسبت یہ بیماری جلد بڑھتی ہے۔ حمل کے دوران اور بعد یہ بیماری بڑھ بھی سکتی ہے۔ بچے کو دودھ پلانے کے عمل کے دوران بھی اس بیماری میں اضافے کا امکان ہے۔اگرچہ تمام جوابات اب تک کسی کے علم میں نہیں مگر ایک بات یقینی ہے کہ یہ مرض بہت سے عوامل کے باہم ملاپ کا نتیجہ ہے۔ محققین ان عوامل پر تحقیق میں مصروف ہیں۔

گنٹھیاکی تشخیص ابتدائی مراحل میں کئی وجوہات کی بنا پر مشکل ہو سکتی ہے۔ سب سے پہلے اس بیماری کیلئے کوئی خاص ٹیسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ مختلف لوگوں میں مرض کی مختلف علامات ہوتی ہیں اور کچھ لوگوں میں اس مرض کی شدت دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس مرض کی علامات بعض اوقات عام قسم کے جوڑوں کے درد اور آرتھرائٹس سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔

اس لئے بعض اوقات اس کی دوسری حالتوں کو دریافت کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ آخرکار تمام علامات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔ ابتدائی مراحل میں صرف چند علامات موجود ہوتی ہیں۔ نتیجہ کے طور پر ڈاکٹر مختلف طریقوں سے اس کی تشخیص کرتے ہیں جن میں ایک طریقہ ایکسریز MRI ہے۔ جوڑوں میں ٹوٹ پھوٹ کی حالت کو دیکھنے کیلئے ایکس ریز کئے جاتے ہیں۔ بیماری کی ابتدائی حالت میں جس وقت ہڈیوں کے بھربھرا ہونے کا مشاہدہ نہ ہو ایکس رے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن بعد میں بیماری میں اضافہ اور شدت کا اندازہ لگانے کیلئے ایکس ریز استعمال کئے جاتے ہیں۔

ادویات:
اکثر لوگ جن کو گنٹھیا ہوتا ہے، ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ ادویات درد میں کمی کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جبکہ کچھ سوزش کو کم کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہیں، جبکہ کچھ بیماری کے بڑھنے کی رفتار کو سست کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جن کو ماڈی فائنگ اینٹی رہیماٹائیڈ میڈیسن (Modifying Antirheumatic drugs)کہا جاتا ہے یا (DMARDS) بھی کہا جاتا ہے۔ گنٹھیا چھوت کی بیماری نہیں ہے ۔

جوڑوں کے درد کا علاج تین طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ادویات‘ جوڑ میں انجکشن اور سرجری جب کہ دواؤں کے ذریعے علاج سب سے آسان ہے مگر اس سے مریض کو آرام تو مل جاتا ہے پر درد کی اصل وجہ برقرار رہتی ہے۔ دواؤں کے زیادہ استعمال سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے جس سے زخم بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔

جوڑوں میں انجکشن لگانے سے وقتی طور پر آرام ملتا ہے کیونکہ تین ماہ کے بعد پھر درد بڑھ جاتا ہے۔سرجری کے ذریعے مصنوعی گھٹنا لگایا جاتا ہے جو مہنگا ترین علاج اور عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔

بذریعہ غذا جوڑوں کی تکلیف کو روکنے یا دور کرنے کے لئے جدید سائنس دن رات تحقیقات کے عمل سے گزر رہی ہے۔ جدید سائنس کہتی ہے کہ جوڑوں کے درد کو رفع کرنے کے لئے حیاتین سے بھرپور پھل کھانے چاہئے‘ اس لئے آم‘ چکوترے، پپیتا، سنگترہ‘ مالٹااور کینو مثالی پھل ہیں جب کہ ہفتے میں کم از کم دو بار مچھلی ضرور کھائیں ۔

جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد کثرت سے آڑو استعمال کریں تو جوڑوں کا درد بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔ برطانوی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ بروکلی کھانے سے جوڑوں کے درد کے عارضے کو بڑھنے سے روکا اور اس سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ بروکلی میں ایک خاص مرکب پایا جاتا ہے جو ہڈی کو نقصان پہنچانے والے انزائم کا راستہ روکتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متوازن غذا اور دودھ کا استعمال بھی جوڑوں کے درد پر قابو پانے میں مددگار ہوتا ہے۔ سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد پتہ چلایا ہے کہ پیاز اور لہسن کا عرق جوڑوں کا درد کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے اور یہ سبزیاں جوڑوں کے درد کے علاج میں مفید ہیں ۔ موجودہ سالوں میں جہاں ریسرچ نے نیا رخ اختیار کیا ہے اس کے ساتھ ہی محققین نے اس بیماری کے علاج کے جدید اور بہتر طریقے بھی دریافت کئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔