خلاء میں جانے سے ذرا پہلے۔۔۔

ندیم سبحان  اتوار 30 اگست 2015
دل چسپ رسومات اور افعال، جو خلاباز ارضی مدار کی جانب روانہ ہونے سے پہلے  انجام دیتے ہیں ۔  فوٹو : فائل

دل چسپ رسومات اور افعال، جو خلاباز ارضی مدار کی جانب روانہ ہونے سے پہلے انجام دیتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

ذرا تصور کیجیے کہ آپ بہ طور خلانور امریکی خلائی ادارے ناسا کا حصہ بن گئے ہیں، اور پہلی بار کرۂ ارض کی حدود سے باہر نکل کر ارضی مدار میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ خلائی شٹل کی روانگی میں کچھ ہی وقت باقی ہے۔ اپنی زندگی کے اس اہم ترین سفر پر روانہ ہونے کا خیال اعصاب پر سوار ہوکر آپ کو نروس بنارہا ہے۔

آپ کا بس نہیں چل رہا کہ گھڑی کی سوئیوں کو چشم زدن میں آگے بڑھا کر اس کیفیت سے نجات پالیں۔ مگر بے فکر رہیے۔ اس کیفیت سے آپ کو نجات دلانے اور اعصاب کو پُرسکون کرنے کے لیے ناسا نے انتظام کر رکھا ہے۔ آپ کو ساتھی خلابازوں کے ساتھ بیٹھ کر تاش کھیلنے کا موقع فراہم کیا جائے گا، تاکہ آپ ذہنی اضطراب سے نجات پاسکیں۔

خلائی شٹل کی روانگی سے چند لمحے قبل خلانوردوں کا تاش کے کھیل میں مصروف ہوجانا عجیب وغریب معلوم ہوتا ہے، مگر یہ ناسا کی روایت ہے۔ ناسا سے زیادہ انوکھی روایات روسی خلابازوں سے وابستہ ہیں جن میں اسپیس شٹل میں سوار ہونے سے پہلے بس کے پچھلے پہیے کے پاس بیٹھ کر پیشاب کرنا  بھی شامل ہے!

ان سرگرمیوں کا مقصد خلابازوں کے کشیدہ اعصاب کو پُرسکون بنانا ہوتا ہے، تاکہ وہ نارمل حالت میں خلائی شٹل میں سوار ہوں۔ ان اہم ترین لمحات میں اعصابی کشیدگی ان کے، اور مشن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ تاہم اعصابی کشیدگی دور کرنے کی نیت سے کیے جانے والے بیشتر افعال ابتدائی خلابازوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے انجام دیے جاتے ہیں، جن سے یہ ’ حرکتیں‘ خلائی سفر کا آغاز کرنے سے پہلے اضطراری طور پر سرزد ہوئی تھیں۔

بعض اوقات خلابازوں کو ان روایات پر کئی بار عمل کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ موسم کی خرابی یا کسی فنی نقص کے باعث عین وقت پر خلائی شٹل کی پرواز ملتوی کردی جاتی ہے۔ ان دل چسپ ’حرکات ‘ یا روایات کا تذکرہ قارئین کے لیے یقیناً دل چسپی کا باعث اور معلومات افزا ہوگا۔

امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع کینیڈی اسپیس سینٹر پر خلابازوں کی قبل از روانگی روایات کا آغاز ناشتے سے ہوتا ہے۔ اس سے آپ یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ مذکورہ خلائی اڈے سے خلانورد صبح سویرے ناشتہ کرکے روانہ ہوتے ہیں۔ ناشتے سے لطف اندوز ہونا ایک روایت ہے، جس کی پاس داری خلابازوں پر لازم ہے، چاہے وقت دن کا ہو یا شب کی تاریکی چاروں طرف پھیلی ہو۔ خلائی شٹل کی روانگی کے مقررہ وقت سے چند گھنٹے قبل خلاباز اپنا مخصوص لباس پہنے ناشتے کی میز کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ ہر خلاباز کو ناشتے کے ساتھ سال گرہ کی طرز کا کیک بھی پیش کیا جاتا ہے۔

ناشتا بُھنے ہوئے گوشت کے قتلوں، انڈوں، اور کافی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس موقع پر بہ طور یادگار خلابازوں کی، گروپ کی صورت میں تصاویر بھی کھینچی جاتی ہیں۔ تاہم اس موقع پر کئی خلاباز اعصابی کشیدگی کی وجہ سے کچھ بھی کھانے پینے کے قابل نہیں ہوتے، حالاں کہ ناشتے کا مقصد ہی انھیں پُرسکون کرنا ہوتا ہے۔

مائیک مولین ناسا کا سابق خلاباز ہے جس نے 1984 تا 1990 کے درمیان تین خلائی سفر کیے۔ اس تجربے کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’رائڈنگ راکٹس‘‘ میں وہ لکھتا ہے،’’اس انوکھے سفر کے خیالات اس طرح میرے اعصاب پر سوار ہوئے تھے کہ بھوک اڑ گئی تھی۔ میرے ساتھیوں کا حال بھی مجھ سے مختلف نہیں تھا۔ کئی نے ناشتے میں کچھ نہیں کھایا۔ میں بھی بہ مشکل ٹوسٹ کا ایک لقمہ لے پایا تھا۔‘‘

ناشتے او رکیک سے فارغ ہونے کے بعد خلاباز اپنے مخصوص خلائی لباس زیب تن کرتے ہیں، اور پھر پوکر (تاش کے پتوں کا ایک کھیل) کھیلنے بیٹھ جاتے ہیں۔

یہاں اس کھیل کے اصول مختلف ہوتے ہیں۔ اس میں ہارنے والا دراصل جیتتا ہے۔ کھیل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ خلابازوں کا کمانڈر بازی نہ ہار جائے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ خلابازوں کو لانچ پیڈ تک لے جانے والی گاڑی آپہنچتی ہے اور کھیل جاری ہوتا ہے۔ چناں چہ بڑی ’ تگ و دو‘ کے بعد مگر عجلت میں کمانڈر کو ہرایا جاتا ہے، اور پھر سب گاڑی میں سوار ہوکر خلائی شٹل کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔

2011ء میں امریکا کے خلائی شٹل پروگرام کے خاتمے کے بعد سے کینیڈی اسپیس سینٹر سے خلابازوں کی روانگی معطل ہے۔ مذکورہ خلائی اڈہ 2017ء میں ازسرنو سرگرمیوں کا مرکز بنے گا جب یہاں سے بوئنگ اور اسپیس ایک نامی نجی کمپنیوں کے خلائی جہاز خلانوردوں کو لے کر روانہ ہوں گے۔

اس وقت تک ارضی مدار میں خلابازوں اور دیگر سازوسامان کی رسائی کے لیے امریکا کا روس ہی پر انحصار رہے گا۔ ان دنوں روسی اور دوسرے ممالک کے خلاباز قازقستان کے صحرا میں واقع اسپیس اسٹیشن (بیکانور کوسموڈروم) سے خلا کی طرف پرواز کررہے ہیں۔ یہاں بھی قبل از روانگی دل چسپ روایات کا سلسلہ موجود ہے۔ بیشتر روایات 1961ء میں خلا میں قدم رکھنے اولین انسان اور روسی خلانورد یوری گاگرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنائی گئی ہیں۔

روایات کا یہ سلسلہ روانگی کی مقررہ تاریخ سے دو ہفتے قبل شروع ہوتا ہے۔ تمام خلاباز سب سے پہلے اسٹار سٹی میں واقع گاگرین کے دفتر کا دورہ کرتے ہیں۔

اس دوران ان کے لیے وہاں رکھی ہوئی مہمانوں کی کتاب میں تأثرات قلم بند کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ دفتر اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں اسے یوری گاگرین 27 مارچ 1968ء کو چھوڑ کر تربیتی طیارہ اڑانے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اس تاریخ کو تربیتی طیارہ، جسے یوری گاگرین اور فلائٹ انسٹرکٹر ولادمیرسریوجن اڑا رہا تھا، گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اس حادثے کے نتیجے میں دونوں سواروں کی موت واقع ہوگئی تھی۔

روانگی کی تاریخ کو ایک ہفتہ رہ جائے تو خلاباز بیکانور کے کوسمونوٹ ہوٹل میں آکر قیام پذیر ہوجاتے ہیں۔ دو روز کے بعد وہ کوسمونٹس ایونیو پر یادگاری پودا لگاتے ہیں۔ بیکانور کے خلائی اڈے سے ارضی مدار کی طرف پرواز کرنے والا ہر خلاباز یہاں پودا لگا چکا ہے۔ سطح ارض سے پرواز کرنے میں اڑتالیس گھنٹے باقی رہ جائیں تو یوری گاگرین کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ تیز ہوجاتا ہے۔ خلائی شٹل کے مسافر بال ترشواتے ہیں۔ یادگار سفر پر جانے سے ایک روز قبل، شب کے وقت انھیں ولادمیر موتائل کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم White Sun of the Desert دکھائی جاتی ہے۔

یہ فلم 1970ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ ایکشن سے بھرپور یہ فلم روسی خانہ جنگی کے پس منظر میں بنائی گئی تھی۔ فلم سے لطف اندوز ہونے کے بعد خلاباز کچھ دیر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ روانگی والے دن، صبح سویرے کوسمونوٹ ہوٹل سے باہر نکلنے سے پہلے ہر خلاباز اپنے کمرے کے دروازے پر دستخط کرتا ہے۔

یہ تمام ’رسومات‘ یوری گاگرین کی پیروی میں انجام دی جاتی ہیں۔ 1961ء میں ووستوک (خلائی جہاز) میں سوار ہونے تک روسی خلاباز نے یہ تمام ’حرکتیں‘ کی تھیں۔ ہوٹل سے باہر نکلنے پر ایک روسی آرتھوڈوکس پادری دعائیہ کلمات پڑھتا ہے اور خلا بازوں کے چہرے سے طلائی صلیب مَس کرتے ہوئے ان  پر مقدس پانی چھڑکتا ہے۔

سنہری اور سیاہ لباس زیب تن کیے ہوئے پادری کی طرف سے انجام دی جانے والی اس مذہبی رسم میں ہر خلاباز حصہ لیتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ 2006ء میں ایرانی نژاد امریکی مسلمان خاتون خاتون انوشے انصاری نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی سیر کی تھی۔ اس سفر پر بیکانور کے خلائی اڈے ہی سے روانہ ہوئی تھی۔ روانگی سے قبل انجام دی جانے والی مذہبی رسم کے حوالے سے اپنی یادداشت کو کھنگالتے ہوئے انوشے کہتی ہیں،’’اس رسم کی ادائیگی سے قبل روسیوں نے میری مرضی معلوم کی تھی کہ آیا میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے عیسائیوں کی اس تقریب میں حصہ لوں گی یا نہیں۔ اس پر میں نے اپنی رضامندی ظاہر کردی تھی۔‘‘ اس مذہبی رسم کا یوری گاگرین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس کا آغاز 1994ء میںSoyuz TM-20مشن کے کمانڈر الیگزینڈر وکتورینکو کی درخواست پر ہوا تھا ۔ الیگزینڈر نے خلائی ادارے سے استدعا کی تھی کہ میر ( روسی خلائی اسٹیشن) کی جانب روانہ ہونے سے پہلے ان کی بہ خیر و عافیت واپسی کے لیے راکٹ پر دعائیہ کلمات پڑھے جائیں۔ اس کے بعد دعائیہ کلمات اور مقدس پانی کے چھڑکائو کی یہ رسم راکٹ، خلابازوں ، یہاں تک کہ اس وقت وہاں موجود ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر بھی انجام دی جاتی ہے۔

مذہبی رسم کے اختتام پر خلاباز بس میں  سوار ہوکر لانچ پیڈ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ تاہم سفر کے اختتام پذیر ہونے سے پہلے رفع حاجت کا لازمی وقفہ آتا ہے۔ 1961ء میں گاگرین تاریخی خلائی سفر پر روانہ ہونے کے لیے بس میں بیٹھ کر لانچ پیڈ کی طرف جارہا تھا کہ اسے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی۔ چناں چہ بس روکی گئی۔

خلاباز بس میں سے اُترا اور رفع حاجت کے لیے موزوں جگہ کی تلاش میں ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں، مگر صحرا میں کہیں کوئی آڑ نظر نہیں آئی۔ چناں چہ وہ بس کے پچھلے سیدھے پہیے کے پاس پہنچا اور اسے ’نہلا‘ دیا۔ گاگرین کی یاد میں ہر بار خلابازوں کو لے جانے والی بس یہاں رکتی ہے اور خلاباز باری باری اُتر کر اپنے پیش رَو کی تقلید کرتے ہیں۔ خواتین خلابازوں کو اس رسم سے استثنیٰ حاصل ہے۔

یہ تمام رسومات یا افعال مضطرب خلابازوں کے اعصاب کو پُرسکون کرنے میں معاون ہوتے ثابت ہیں۔ خلابازوں کے اہل خانہ بھی اپنے پیاروں کے زمین کے دور جانے کے خیال سے اضطراب کا شکار ہوتے ہیں۔کینیڈی اسپیس سینٹر پر خلابازوں کے گھر والوں کو لانچ کنٹرول سینٹر کے اندر لے جایا جاتا ہے، جہاں سے وہ راکٹ کو فضا میں بلند ہوتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اس سے قبل خلانوردوں کے اہل خانہ میں شامل بچوں کو مارکر تھماکر وائٹ بورڈ کے آگے کھڑا کردیا جاتا ہے۔

انھیں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے خلائی سفر کے حوالے سے اشکال اور تصویری خاکے بنائیں۔ بعدازاں وائٹ بورڈز پر پلاسٹک کی تہہ چڑھا کر بہ طور یادگار محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ کینیڈی اسپیس سینٹر کی دیواروں پر، بچوں کی تخیلاتی پرواز کو واضح کرتے درجنوں وائٹ بورڈز لگے ہوئے ہیں۔

راکٹ کے فضا میں بلند ہوجانے کے بعد خلابازوں کے بیوی بچے اور عزیزواقارب لانچ ڈائریکٹر کے دفتر میں پہنچتے ہیں۔ اس سے قبل انھیں اس سفر سے متعلق یادگاری اسٹیکر دیے جاتے ہیں جنھیں وہ داخلی دروازے پر چسپاں کردیتے ہیں۔ دفتر کے دورے کے بعد روایتی طور پر وہ ناسا کے عملے کے ساتھ لوبیا کے بیجوں کی ترکاری اور روٹی پر مشتمل کھانا نوش کرتے ہیں، اور پھر رخصت ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔