روایت شکن، رجحان ساز۔۔۔۔ پوپ فرانسِس

سید بابر علی  اتوار 30 اگست 2015
کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی  ۔  فوٹو : فائل

کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی ۔ فوٹو : فائل

ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس کے اسٹیڈیم لونا پارک میں تقریباً سات ہزار رومن کیتھولک اور ایوینجی لیکل عیسائیوں پر مشتمل مجمع مودب کھڑا تھا۔ اسٹیج پر موجود پادری نے شہر کے آرچ بشپ کو اسٹیج پر آنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی۔ یہ جارج میریوبرگوگلیوکا عوام سے پہلا سامنا تھا۔

اُس وقت تک جارج میریو ’پوپ فرانسِس‘ نہیں بنے تھے۔ پادریوں والی قمیص اور بلیزر میں وہ ایک عام سے مذہبی پیشوا دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دہائی قبل ہونے والی تقریب میں اس بات کا تصور بھی محال تھا کہ ارجنٹینا کا یہ سادہ مزاج آرچ بشپ ایک دن کرشماتی شخصیت کے طور پر دنیا کے کونے کونے میں جانا جائے گا۔

اسٹیج پر انہوں نے اپنی مادری زبان اسپینش میں بہت مستحکم انداز میں بولنا شروع کیا۔ انہوں نے کہا، ’کتنا اچھا ہو اگر ہمارے بھائی متحد ہوجائیں، ایک ساتھ عبادت کریں، یہ دیکھنا کتنا اچھا ہو کہ ایمان کی راہ پر کوئی ماضی کی بات نہ کرے۔‘ ہوا میں پھیلے ہوئے بازو، چہرے پر چمک اور فرطِ جذبات سے لرزتی آواز میں انہوں نے خدا کو پکارا، ’فادر! ہم تقسیم ہوچکے ہیں۔

ہمیں متحد کردے!‘ پورا مجمع متحیر تھا۔ اپنی بات ختم کرکے آرچ بشپ آہستگی سے گھٹنوں کے بل اسٹیج پر بیٹھ گئے اور وہاں موجود تمام حاضرین سے درخواست کی کہ وہ اُن کے لیے دعا کریں۔ آرچ بشپ کا خود سے کم حیثیت افراد کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھنے اور دعا کی التجا نے انہیں ارجنٹینا کے اخبارات میں صفحہ اول کی خبر بنادیا۔ یہ جارج میریوبرگوگلیو تھے مستقبل کے پوپ فرانسِس۔

پاپائے روم پوپ فرانسِس (جارج میریوبرگوگلیو) کیتھولک چرچ کے 266ویں پوپ ہیں۔ پوپ فرانِسس اپنے پیش روؤں کے برعکس تکلفات کا مظاہرہ کم ہی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف کفایت شعاری کا پرچار کرتے ہیں بل کہ عملی طور پر اس کا مظاہرہ وہ پاپائے روم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی کرچکے ہیں۔ وہ ویٹی کن میں پوپ کے لیے مختص کی گئی پُر تعیش رہائش گاہ اپوسٹولک پیلس کے بجائے دو کمروں پر مشتمل گیسٹ روم میں رہائش پذیر ہیں۔

انہوں نے اپنے انتخاب کے وقت روایتی پیپل موزیٹا (ایک قسم کا کپڑا جو گردن اور بازؤں کو ڈھک دیتا ہے) پہننے سے انکار کیا۔ سونے کے بجائے چاندی سے بنی پسکیٹوری رِنگ (کیتھولک چرچ کے سربراہ کے لیے اس انگوٹھی کو پہننا اُس کے فرائض منصبی کا اہم حصہ ہے) پہنتے ہیں۔ غربت کو ایک بڑا مسئلہ سمجھنے والے سرمایہ داری اور مارکسزم دونوں کی حمایت نہیں کرتے۔ ذرایع ابلاغ میں انہیں ترقی پسند اور اصلاح کرنے والا پوپ تصور کیا جاتا ہے۔

ہم جنس پرستی، اسقاط حمل، خواتین کی درجہ بندی اور پادریوں کے کنوارے پن جیسے اہم مسائل پر وہ اپنے نظریات کا کھُل کر اظہار کرتے ہیں۔ پوپ فرانسِس گلوبل وارمنگ، کنزیومر ازم اور غیرضروری اصراف کے خلاف بھی جنگ کر رہے ہیں، اور اس کا اظہار وہ ویٹی کن سے تمام دنیا بھر کے تمام رومن کیتھولک بشپ کو جاری ہونے والے مراسلے (Laudato si) میں بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ امریکا اور کیوبا کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات بحال کروا کر بین الاقوامی سفارت کاری میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔

پوپ فرانسِس 17دسمبر 1936کو ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی۔ ایک فنی تعلیمی ادارے سے کیمیکل ٹیکنیشن کا ڈپلوما کرنے کے بعدHickethier-Bachmann  لیبارٹری کے شعبۂ خوراک میں کچھ سال ملازمت کی۔ کیتھولک چرچ کی مجلس میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے جارج میریوبر نے نائٹ کلب کے باؤنسر (ایک طرح کا سیکیوریٹی گارڈ) کے طور پر بھی نوکری کی۔1960میں مذہبی کالج  Colegio Máximo de San José سے فلسفے میں ڈگری حاصل کی۔

1964 سے1965تک انہوں نے سانتا فی کے ایک کیتھولک اسکول میں ادب اور نفسیات کی تعلیم دی۔1967میں دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں 13دسمبر 1969کو کیتھولک پادری بنا دیا گیا۔ جارج گوگلیونے 1973سے 1979تک ارجنٹینا کی سوسائٹی آف جیسس کے پروونشل سپیریئر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔

1992 میں انہیں بیونس آئرس کے معاون بشپ کے لیے نام زد کیا گیا۔ تین جون 1997کو میریوبر کو بیونس آئرس کے آرچ بشپ کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ آرچ بشپ کی حیثیت سے انہوں نے بیونس آئرس میں کیتھولک چرچ میں کئی اصلاحات کیں۔ بہ طور آرچ بشپ ان کا سب سے بڑا کام بیونس آئرس کے پس ماندہ علاقوں میں چرچ کے اثرو رسوخ میں اضافہ کرنا تھا۔ ان کے دور میں پس ماندہ علاقو ں میں کام کرنے والے پادریوں کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا۔ اس کام کی وجہ سے انہیں ’سَلم بشپ ‘ بھی کہا جاتا تھا۔

21فروری2001کو ویٹی کن کی ایک مجلس میں پوپ جان پال دوئم نے آرچ بشپ گوگلیو کو روم میں واقع چرچ ’سان رابرٹوبیلارمینو‘ میں کارڈینل پادری کے طور پر نام زد کیا۔ روم میں اپنے قیام کے دوران وہ رومن کلیسا کے 5 اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ دو اپریل 2005 کو پوپ جان پال دوئم کے انتقال کے بعد انہیں پاپائے روم کے لیے سب سے موزوں امیدوار تصور کیا جا رہا تھا، تاہم کلیسا نے پوپ بینی ڈکٹ کو پوپ کے عہدے پر فائز کردیا۔

پوپ فرانسِس بین المذاہب ہم آہنگی، غریبوں کے لیے ہمدردی اور اپنی انکساری کی بدولت خاص وعوام میں یکساں مقبول ہیں۔ بیونس آئرس کے مذہبی راہ نما پوپ فرانسِس کی مختلف مذاہب کو ساتھ لے کر چلنے کی کاوشوں کو بہت سراہتے ہیں۔ نومبر2012 میں پوپ فرانسِس نے بیونس آئرس کے سب سے بڑے گرجا گھر میں یہودی، عیسائی ، ایوینجی لیکل اور آرتھو ڈوکس عیسائی لیڈروں کے ساتھ مل کر مشرقِ وسطی میں امن کے لیے دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ پو پ فرانسِس کے بیونس آئرس کی یہودی کمیونٹی سے بھی بہت اچھے مراسم ہیں۔ دوسری جانب مسلمان کمیونٹی بھی انہیں اپنا بہترین دوست قرار دیتی ہے۔

13 مارچ 2013کو پوپ منتخب ہونے کے بعد سینٹ پیٹرز بیسیلیکا کی بالکونی سے کیتھولک چرچ کا نیا لیڈر سامنے آیا۔ جو لاطینی امریکا کا پہلا پوپ تھا، پہلا پوپ جس کا نام غریبوں کے بادشاہ سینٹ فرانسِس آف اسیسی کے اعزاز میں ’فرانسس‘ رکھا گیا۔ پہلا پوپ جو بہت کچھ تبدیل کرنے جا رہا تھا اور بہت کچھ پہلی ہی تبدیل کردیا تھا۔ پوپ فرانسِس نے مسکراتے اور نیچے کھڑے مجمع کاخیر مقدم کرتے ہوئے کہا، ’بھائیوں اور بہنوں! شام بخیر، مجمع سے مختصر خطاب کا اختتام انہوں نے اپنی سگنیچر لائن،’میرے لیے دعا کیجیے گا‘ پر کیا۔ واپسی پر انہوں نے پوپ کے لیے مختص لیموزین کے بجائے کارڈینل کو لے جانے والی بس پر سفر کیا۔

کیتھولک چرچ کی ایک رسم مقدس، جس میں پادریوں کے پاؤں دھونے کی روایت ہے، اس میں پوپ فرانسس نے پادریوں کے پاؤں دھونے کے بجائے درجن بھر مردوخواتین قیدیوں کے پاؤں دھوئے، جن میں کچھ مسلمان قیدی بھی شامل تھے۔ اس بابت پوپ کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ فرانسِس جانتے ہیں کہ تبدیلی کیا ہے اور کیسے لائی جاتی ہے۔ وہ عملی طور پر کام کرنا جانتے ہیں۔ پوپ کے ارجنٹینا کے قریبی دوست ربی ابراہام اسکارکا کا کہنا ہے،’وہ چاہتے ہیں کہ کیتھولک چرچ لوگوں کی زندگی پر دوررس اثرات مرتب کرے۔ وہ اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے بہت ثابت قدم ہیں۔‘

ایک اور قریبی دوست پادری نوربرٹوساراکو کا کہنا ہے،’پوپ اپنے راست اقدامات کی بدولت بہت سے دشمن بھی پید ا کر رہے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ پوپ کی بہادری پر میں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا تھا، ’جارج! ہم سب جانتے ہیں کہ تم بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنتے، اور یہاں بہت سے پاگل لوگ بھی ہیں۔‘ اس پر پوپ فرانسس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،’خدا نے ہی مجھے یہاں رکھا ہے اور میری دیکھ بھال کے لیے بھی وہی ہے۔‘ ان تمام باتوں کے برعکس ویٹی کن کیا سوچتا ہے یہ ایک الگ کہانی ہے۔

پوپ بینی ڈکٹ کے ترجمان کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والے ویٹی کن کے کمیونیکیشن آفیشل فادرفیڈریکو لومبارڈی کا کہنا ہے کہ بینی ڈکٹ ناقابل یقین حد تک واضح تھے، وہ کہتے تھے کہ میں ان نکات پر متفق ہوں، ان نکات پر اعتراضات ہیں اور ہماری اگلی میٹنگ کے اہداف یہ ہوں گے، اور دو منٹ میں سب کچھ واضح ہوجاتا تھا۔ فرانسس دانا آدمی ہیں، اور ان کے ساتھ رہنے کا تجربہ بہت دل چسپ ہے۔ فرانسس کے نزدیک ڈپلومیسی، اسٹریٹجی سے زیادہ کچھ نہیں ہے، ہمارے ذاتی تعلقات بہت اچھے ہیں اور ہم مل کر لوگوں اور چرچ کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔

لومبارڈی کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ہی پوپ فرانسس نے کاسا سانتا مارتا میں 40یہودی لیڈروں پر مشتمل گروپ کی میزبانی کی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں یہاں تک کہ اُن کے پرسنل سیکریٹری تک کو اس بابت کچھ نہیں پتا۔ اُن کے معمولات کے ایک حصے کا کسی ایک فرد کو پتا ہوتا ہے اور دوسرا حصہ کسی دوسرے فرد کو ۔ بینی ڈکٹ اور پوپ فرانسس کے معمولات زندگی میں بھی کافی فرق ہے۔ بینی ڈکٹ نے پوپ کی حیثیت سے اپنا آٹھ سالہ دور مذہبی کتابیں لکھنے میں گزارا، جب کہ پوپ فرانسس کو اُن کی پلاسٹک کی گھڑی پہنے ویٹی کن کے کیفے ٹیریا میں ناشتہ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

ان کی حسِ مزاح بہت اچھی ہے، جس کا مظاہرہ وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔ فرانسِس کے سیکریٹری آف اسٹیٹ کارڈینل پیئٹروپیرولن کا کہنا ہے،’میں بہت سے معاملات میں مہارت نہیں رکھتا اور وہ اس بات کو جانتے ہیں، اور یہی پوپ فرانسِس کی خوبی ہے ۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ فرانسِس نے سیکریٹری آف اسٹیٹ کے اختیارات خصوصاً ویٹی کن کے مالی معاملات میں کمی کردی ہے۔ لومبارڈی کا کہنا ہے کہ اب مسئلہ یہ ہے کہ کلیسا کے انتظامی معاملات زیادہ واضح نہیں ہیں۔

یہ عمل جاری ہے، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس کا اختتام کیا ہوگا۔ اب سیکریٹری آف اسٹیٹ کو مرکزیت حاصل نہیں ہے، پوپ کے براہ راست تعلقات بہت ہیں اور وہ بنا کسی توسط کے ہدایات دے رہے ہیں۔ ایک طرح یہ مثبت بھی ہے کیوں ماضی میں اس بات پر بھی تنقید ہوتی رہی ہے کہ ویٹی کن میں کوئی پوپ سے زیادہ طاقت ور شخصیت بھی ہے، لیکن اس صورت حال میں اب یہ نہیں کہا جاسکتا۔ رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ کی حیثیت سے پوپ فرانسِس مختلف معاملات پر بے باک اور دو ٹوک الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

پوپ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ٹوئٹر پر @Pontifex کے نام سے وہ اپنے دو کروڑ فالورز سے رابطے میں رہتے ہیں۔ دینی تعلیمات، تقاریر، ماحولیاتی تبدیلیوں، غربت، شادی، طلاق، ہم جنس پرستی سے لے کر چرچ میں خواتین کے کردار تک پر وہ کھُل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ خدا کے نام پر نفرت نہیں کرنی چاہیے اور چرچ میں خواتین کا ہونا بشپ اور پادریوں سے زیادہ اہم ہے۔

٭جارج میریوبرگوگلیو سے پوپ فرانسِس تک
پاپائے روم بننے کے بعد 16 مارچ 2013کو ذرایع ابلاغ کے ساتھ پہلی نشست میں انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ اُن کا نام بارہویں صدی کے کیتھولک پادری فرانسِس آف اسیسی کے نام پر رکھا گیا ہے جو اپنی غریب پروری کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ ویٹی کن کی تاریخ میں پہلی بار کوئی ایسا پوپ آیا ہے جس کا نام کسی عدد کے لاحقے (اول، دوئم، سوئم) کے بغیر ’فرانسِس‘ رکھا گیا ہے۔ اس سے قبل نویں صدی میں ’پوپ لینڈو‘ کا نام کسی پیش رو کے نام کے بغیر رکھا گیا تھا۔

٭فلسطین علیحدہ ریاست تسلیم
رواں سال پوپ ویٹی کن نے سرکاری طور پر فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ ویٹی کن کی جانب سے فلسطین کو 2012 میں علیحدہ ریاست تسلیم کیا گیا تھا۔ تاہم جون 2015 میں ویٹی کن نے ایک باہمی مسودے پر دستخط کر کے سرکاری طور پر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

ویٹی کن حکام نے اس معاہدے کو ’جرأت مندانہ فیصلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمیںامید ہے کہ اس سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعات کے خاتمے اور قیام امن کی کوششوں کو فروغ ملے گا۔ تاہم اسرائیلی حکومت نے اس معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ویٹی کن کے اس اقدام سے مستقبل میں سفارتی تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور اب ہم ویٹی کن کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرِنو جائزہ لیں گے۔ ویٹی کن کے وزیرخارجہ آرچ بشپ پال گیلاگیر کا کہنا ہے،’ویٹی کن کی خارجہ پالیسی پوپ فرانسِس کی سربراہی میں اپنا کام بہت بہتر طریقے سے سرانجام دے رہی ہے۔

اس سے قبل پوپ فرانسِس کیوبا اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں بھی اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرچکے ہیں۔‘‘ ویٹی کن کے اس اقدام کے بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے پوپ فرانس سے ویٹی کن میں ملاقات کی۔ اس دو طرفہ ملاقات کے بعد پوپ فرانسِس نے محمود عباس کو امن کا فرشتہ قرار دیتے ہوئے ایک میڈل بھی دیا تھا، جس پر امن کے فرشتے کی تصویر کشی کی گئی تھی۔

٭توہین پر مبنی خاکوں کی مذمت
رومن کیتھولکس کے روحانی پیشوا پوپ فرانسِس نے فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو میں پیغمبر اسلام حضورﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی بھی بھرپور مذمت کی۔ اس موقع پر اُن کا کہنا تھا،’آزادیِ اظہار کی کچھ حدیں ہوتی ہیں۔ آزادی اظہار کی آڑ میں آپ کسی کے بھی عقیدے اور مذہب کی توہین نہیں کر سکتے۔‘ یاد رہے کہ رواں سال جنوری میںگستاخانہ خاکے شایع کرنے والے جریدے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملے کے بعد اس میگزین نے اپنے نئے شمارے میں گستاخانہ خاکے دوبارہ شایع کیے تھے اور اس شرم ناک حرکت کی حمایت کرتے ہوئے بہت سے عالمی لیڈروں نے اسے آزادی اظہار کا نام دیا تھا۔

مگر ویٹی کن نے اس گستاخانہ روش کی تائید نہیں کی اور پیرس حملوں کی مذمت کرتے ہوئے دوسروں کے مذہبی عقائد کو مجروح نہ کرنے پر زور دیا تھا۔ پوپ فرانسس کا کہنا تھا،’’خدا کے نام پر قتل ایک منفی رویہ ہے اور کسی بھی مذہب میں تشدد کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، لیکن دوسروں کے مذہب کے بارے میں غلط بات کرنا یا اُن کے دین کو کھیل تماشا بنانا فتنہ پروری ہے اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جانا چاہیے جو سلوک کسی کی ماں کے بارے میں نازیبا الفاظ کہنے پر کیا جاتا ہے۔‘‘

٭ویٹی کن میں پہلی بار اذان اور قرآن پاک کی تلاوت
گذشتہ سال جون میں کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی مرکز ’’ویٹی کن سٹی‘‘ کے درودیوار پہلی بار اذان کی دل آفریں آواز اور تلاوت قران پاک کی حلاوت سے آشنا ہوئے۔

پوپ فرانسِس نے ویٹی کن سٹی میں امن کے حوالے سے ایک دعائیہ تقریب میں اذان اور تلاوت کا اہتمام کیا۔ قیام امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے منعقد کی گئی اس تقریب میں تینوں آفاقی مذاہب (اسلام، عیسائیت اور یہودیت) کی عبادات ادا کرنے کے بعد دنیا بھر خصوصاً مشرق وسطیٰ کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔ دعائیہ تقریب میں تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکاروں نے اپنی عبادت کے بعد مشترکہ طور پر دعا بھی کی۔

جب کہ اس موقع پر تینوں مقدس کتابوں میں امن و سلامتی کے حوالے سے موجود آیات کی تلاوت بھی کی گئی۔تاہم مقامی قدامت پرست عیسائیوں کی جانب سے پوپ فرانسِس کے اس اقدام پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا، کیوں کہ ویٹی کن کی تاریخ میں کبھی اذان نہیں دی گئی اور نہ ہی کبھی باجماعت نماز کا اہتمام کیا گیا۔ نماز اور تلاوت قران پاک کو ویٹی کن کے 200 ریڈیو اسٹیشنز اور 59 ٹی وی چینلز سے براہ راست نشر کیا گیا۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔