میری جیب میں کیا ہے؟ (آخری حصہ)

تشنہ بریلوی  اتوار 30 اگست 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

اس الف لیلائی محلے سے گزرتے ہوئے لڑکا مسکرایا۔ اودھ کی تاریخ سے وہ واقف تھا ،اس نے کوٹ کی جیب کو تھپتھپایا’’کاش ان نواب زادیوںکو معلوم ہوجائے کہ میری جیب میں کیا ہے ۔ وہ اپنے زیورات کے ڈبے لے کرمیرے پاس جھل جھل کرتی ہوئی آئیں گی اور مجھے اپنی بانھوں میں لپیٹ لیں گی مگر میرے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہے ۔‘‘

لڑکا آگے بڑھتا ہے تو ’’ لال املی‘‘ کی بہت شاندار اور با رعب عمارت نظر آتی ہے۔ انگریز اور ہندوستانی صنعت کاروں کے تعاون کا بے مثال شاہکار۔ ہندوستان کے قابلِ فخر کارخانوں میں سے ایک ۔ سنگھانیہ فیملی اس کی مالک ہے جو ملک کی تیسری امیر ترین فیملی سمجھی جاتی ہے( برلا اور ڈالمیا کے بعد ) ۔ اس کے ایک ڈائریکٹرکانپور کے امیر ترین مسلمان بشیر بھی ہیں جو حافظ عبدالحلیم کے صاحبزادے ہیں ۔ لال املی کارخانہ اونی کمبلوں کیلیے مشہور ہے ۔ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں میں اس کارخانے نے دولت کے انبارکمائے ۔فوجی وردیوں میں استعمال ہونے والا مشہور کپڑا ’’خاکی‘‘ بھی کانپور میں ہی بننا شروع ہوا، جس نے ساری دنیا میں دھوم مچادی ۔

لڑکا لال املی کی زبردست تعمیر سے مرعوب ہورہاہے مگر جلد ہی وہ اپنے آپ کو سنبھالتا ہے ۔کوٹ کی جیب پر ہاتھ پھیرتا ہے ۔’’ یہ ارب پتی صنعت کار جگی لال کملاپت اور پدم پت سنگھانیہ اور ان کے شریک ِکار ارب پتی بشر صاحب ( جن کے بشیر کورٹ میں میرا کلاس ہے) پورے کانپور پر حکومت کرتے ہیں ۔ انگریز بھی ان سے دبتے ہیں۔ راجے مہاراجے ان کی دولت کے آگے فقیر ہیں لیکن اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ میری جیب میں کیا ہے تو کملا پت ‘ پدم پت اور بشیر صاحب میری دست بوسی کریں گے اور اپنے خزانے میرے لیے کھول دیں گے ۔ مگر دولت سے مجھے کیا لینا ۔ چلو ان ارب پتیوں کو ان کے حال پر چھوڑو۔‘‘

لڑکا سیٹی بجاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ اپنے حال میں مست ۔اک دم وہ ایک بھاری آواز سن کر سکتے میں آجاتا ہے۔

’’ میاں محمّد امان۔ تم یہاں کیا کررہے ہو ۔‘‘

لڑکے کے سامنے ایک تانگہ رُکا ہوا ہے اور تانگہ میں اس کے اپنے انٹر کالج کے پرنسپل بیٹھے ہوئے ہیں ۔( یاد رہے کہ اس زمانے میں پورے تانگہ کو استعمال کرنا بھی خوشحالی کی علامت سمجھ جاتاتھا) پرنسپل صاحب اپنی چھڑی کا سہارا لے کر تانگے سے نیچے اترے اور لڑکے کے قریب آکر بولے ۔’’ میاں محمد امان۔ تمہیں معلوم ہے کہ تم پڑھائی میں کمزور ہو ۔ تم مٹرگشت میں اپنا وقت ضایع کرتے ہو ۔‘‘

لڑکا ہکلا کر صرف ’’ جی سر ‘‘ ہی کہہ سکا ۔

’’تم اپنے والد کو میرے پاس بھیجو ۔‘‘ پرنسپل نے سرزنش جاری رکھی۔’’ میں اُن سے تمہارے بارے میں بات کروں گا۔ اور تم یہ کس کا کوٹ پہنے ہوئے ہو اور تمہاری جیب میں کیا ہے ۔‘‘

’’ میری جیب میں کیا ہے؟‘‘ لڑکا سوچ کر مسکرایا ’’ شاید اب وقت آگیا ہے کہ میں اس راز کو ظاہر کردوں اور اپنے پرنسپل صاحب سے زیادہ حقدار کون ہوگا‘ راز جاننے کیلیے ۔‘‘
’’ جی سر ۔ کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔ آپ دیکھ لیں۔‘‘

لڑکے نے نہایت بے نیازی سے اپنی جیب سے وہ چیز نکالی اور پرنسپل کو پیش کردی۔

’’ یہ کیا ہے ؟‘‘ پرنسپل نے اس چیز کو غور سے دیکھا ۔ اُن کا سانس رک گیا ۔ چہرے پر ایک رنگ آتا ایک رنگ جاتا ۔ پھر انھوں نے لڑکے کو گھور کر دیکھا ۔ لبوں پر مسکراہٹ آئی۔
’’اچھا تو یہ معاملہ ہے ۔ تم یہاں تک پہونچ گئے ہو ۔ خوب بہت خوب۔ اب تم اپنے ابا کو میرے پاس مت بھیجنا۔ اس کی ضرورت نہَیں ہے اس لیے کہ اب تم فیل ہو یا پاس کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اب تو تم بڑے آدمی بن گئے ہو ‘ قابلِ رشک۔‘‘

یہ کہہ کرپرنسپل صاحب نے لڑکے کے سر پر نہایت شفقت سے ہاتھ پھیرا اور سر کو جھٹکتے ہوئے تانگے میں روانہ ہوگئے۔

وہ بے چین بے قرار لڑکا 14سال کی عمر میں شاعر بن چکاتھا اور دو سال کے اندر کچھ سے کچھ ہوگیا تھا ۔ اس کے اشعار خاصے جاندار تھے اور ترنم شاندار ۔ لہٰذا صوبہ یوپی کے اس شہرِ طرحدار کانپورکے تمام اہلِ ذوق اس کی ہمت افزائی کرتے یہ کہہ کر کہ ’’مستقبل‘‘ میں تم ایک نامور شاعر ہوگے مگر گاؤں چائل کا چائلڈ محمد امان صدیقی ’’مستقبل ‘‘کا انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں تھا وہ تو فی الفور مشہور و معروف ہونا چاہتا تھا ۔ لہذا اس نے محافل شعر میں دھڑا دھڑ شریک ہونا اور برصغیر کے تمام رسالوں اور اخباروں کو اپنا کلام بھیجنا شروع کردیا ۔ ریل گاڑی دھیرے دھیرے شہرت کے اسٹیشن کی طرف بڑھنا شروع ہوگئی ۔پھر اس نو خیز شاعر نے جی کڑاکر کے چھلانگ لگائی اور اپنی ایک غزل عظیم نقاد اور ادیب نیاز فتح پوری کے پر وقار رسالے ’’ نگار‘‘ کو بھیج دی اس امید کے ساتھ کہ نگار میں چھپتے ہی وہ ’’مستند‘‘ شعرا میں شمار ہونے لگے گا ‘ شہرت کی دیوی بازو پھیلا کر خود اس کی طرف لپکے گی وہ جگر اور جوش کی طرح’’پوجا ‘‘ جائے گا۔ راجے مہاراجے اور نواب اس کو اپنا مہمان بنا کر خوش ہوں گے اور فلم اور ریڈیو والے اُس کی ناز برداری کریں گے ۔ ان امیدوں نے اس کو سر شار کردیا ۔ جوش میں آکر اس نے اپنے دوستوں کو بھی بتادیا کہ جلد ہی وہ اس کی غزل ’’ نگار‘‘ میں دیکھیں گے ۔ یہ دوست تھے ابوالخیرکشفی‘ حسنین کاظمی‘ حنیف فوق اور اشتیاق اظہر ( سب دوستوں نے پاکستان بننے کے بعد اپنے اپنے شعبوںمیں بہت نام کمایا) دوستوں نے سرشارکا مذاق اڑانا شروع کردیا اورکہا ’’سر شار تمہاری یہ جرأت کہ تم ’’نگار‘‘ میں چھپنے کے لیے اپنی غزل بھیجو ۔ علامہ نیاز تو بڑے بڑوں کوخاطرمیں نہیں لاتے تم کیا چیزہو۔ ٹھیرو ۔ لکھنؤ سے آنے والی اگلی گاڑی کا انتظار کرو ۔ علامہ نیاز ایک چھڑی لے کر سیدھے پٹکا پور آئیں گے اور مولانا حسرت موہانی کے مکان کے سامنے تمہاری پٹائی کریں گے تاکہ زندگی بھر کے لیے تمہیں سبق مل جائے ۔‘‘ پھر ان شریر دوستوں نے سر شار کو شرمسار کرنے کے لیے ایک شعر الاپنا شروع کردیا:

شاعرِ بے مہار ہیں سرشار
ان کو باندھیں گے اب مدیرِ نگار
صرف قمر ہاشمی سرشار کا دل بڑھاتا رہا ۔

سر شارکی حالت غیر۔ لیکن دو تین ماہ بعد جب اس کی غزل آب وتاب کے ساتھ رسالہ ’’نگار ‘‘ کی زینت بنی تواس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی ۔ شاہی خزانہ ملنے پر بھی اس نوعمر شاعر کو اتنی خوشی نہ ہوتی ۔ وہ فاتحِ عالم بن چکا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔