اپنی تعریف خود، دستِ خود دہانِ خود

انتظار حسین  پير 31 اگست 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

شمس الرحمن فاروقی کا رسالہ شب خوں (الہ آباد) جب بند ہوا تھا تو ہمیں افسوس ہوا کہ ہمارے ادبی رسالوں کے ہجوم میں لے دیکے ایک رسالہ شب خوں تھا‘ سو وہ بند ہو گیا۔ ہم فاروقی صاحب کو تعزیت کا خط لکھنے لگے تھے۔ اس میں تھوڑی تاخیر ہو گئی۔ جب سوچا کہ اس تعزیت نامہ کو جب لکھ ہی لیا ہے تو پوسٹ کر دیں۔ یہ سوچ رہے تھے کہ خبرنامہ شب خوں موصول ہوا۔ ہم بہت سٹپٹائے کہ اب یہ کونسا گل کھلا مگر وہ گل تو پھر کھلتا ہی چلا گیا۔ اب رفتہ رفتہ اس کی معنویت ہم پر کھل رہی ہے۔ خبر نامہ شب خوں کو خبرنامہ مت جانئے۔ اسے شب خون زادہ کہئے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس میں شایع ہونے والے خطوط ادبی رسالوں میں شایع ہونے والے مضامین سے بڑھ کر رنگ پکڑ رہے ہیں۔ کتنے شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔

زیر نظر اشاعت میں ایک خط شفیع مشہدی صاحب کا ہے۔ قیمتی معلومات سے پُر۔ پتہ چلا کہ خالی ظفر اقبال پر موقوف نہیں اور شاعر بھی ہیں جو غالبؔ کو کوسوں پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ مشہدی صاحب رقم طراز ہیں ’’بشیر بدر صاحب پٹنہ آئے ہوئے تھے میں نے انھیں اکادمی (بہار اردو اکادمی) میں مدعو کیا۔ انھوں نے اپنا تعارف خود پیش کیا۔ بقول مولانا حسرت موہانی ؎

میں اپنی داد خود دے لوں کہ میں بھی کیا قیامت ہوں

ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ غالبؔ کے اٹھائیس شعر ایسے ہیں جو زبان زد ہو گئے ہیں اور کہاوت کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ میرے اڑسٹھ شعر ایسے ہیں جو زبان زد ہیں اور کہاوت کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ باقی فیصلہ آپ خود کریں‘‘۔

اے واہ فیصلہ تو ہو گیا۔ ہمارے آپ کے کہنے کے لیے کیا رہ گیا۔ ارے ان اڑسٹھ شعروں کو کہاں چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ خبرنامہ میں اگر یہ اڑسٹھ شعر آ جائیں تو ہم بھی اپنی گرہ میں باندھ لیں اور جو جن خاص و عام کی زبان زد ہیں انھیں بھی باخبر کریں کہ یہ وہ شعر ہیں جو تمہاری زبان زد ہیں۔ اور کہاوت بن چکے ہیں۔ آخر جس خلقت کو یہ شعر حفظ ہیں انھیں بھی تو اس واقعہ کا علم ہونا چاہیے۔ ارے ان اڑسٹھ شعروں میں کچھ شعر تو ایسے نکلیں گے کہ ہم آپ انھیں اپنی گرہ میں باندھ لیں۔

بات یگانہؔ کی غالبؔ شکنی سے شروع ہوئی تھی۔ ہوتے ہوتے بات بشیر بدر تک پہنچی۔ وہ جو خبر گرم تھی کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے وہ خبر صحیح نکلی۔ اور آگے دیکھئے ابھی کیا کیا ہے دیکھنا۔ کیونکہ بشیر بدر تو وقت کے ساتھ ساتھ نمودار ہوتے ہی رہیں گے۔

آگے چل کر مشہدی صاحب ہمیں مزید ایک شاعر سے خبردار کرتے ہیں ’’جنھیں یہ مغالطہ ہے کہ ان کی نظمیں اقبال کی نظموں کو بہت پیچھے چھوڑ گئی ہیں۔ شکر ہے کہ انھوں نے ہنوز اپنی خودی کو اقبال سے بلند نہیں کیا ہے‘‘۔

ان کی خودی تو ان کی اس فضیلت کے ساتھ خود ہی بانسوں بَلیوں کے حساب سے بلند ہو گئی۔ آپ اس میں مزید کتنی بلندی کے خواہاں ہیں۔

مشہدی صاحب سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ اگر دوسروں کو زحمت دینے کے بجائے شاعر خود ہی اپنی شاعری کے حضور اپنی ناچیز خدمات پیش کر دیتا ہے تو اس میں مضائقہ کیا ہے۔ مسئلہ ہمارے زمانے کا یہ ہے کہ شاعری منوں ٹنوں کے حساب سے ہو رہی ہے۔ ایک شاعر کو ڈھونڈو تو ہزار برآمد ہو جاتے ہیں۔ نقاد گنتی کے ہیں اور ان گنتی کے نقادوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بال کی کھال نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ توصیفی بیاں قلم سے مشکل ہی سے برآمد ہوتا ہے۔ اور جو نقاد دریا دلی سے کام لیتے ہیں ان کی دریا دلی اولوالعزم شاعروں کے باب میں آ کر کم پڑ جاتی ہے۔

اس ذیل میں ایک واقعہ سن لیجیے۔ حکیم حبیب اشعر سے ہم نے یہ واقعہ سنا۔ راوی کو معتبر جان کریہ واقعہ نقل کر رہے ہیں۔ سائلؔ دہلوی کے بھائی جان تھے تاباںؔ دہلوی۔ شاعر تو تھے ہی۔ ساتھ میں منہ پھٹ بھی تھے۔ جلدی میں آتے تو گالیوں پر اتر آتے۔ شعر پر داد دینے والے بخل سے کام لیتے تو بھی ناراض۔ فیاضی دکھاتے تو بھی ناراض۔

مولانا شبلی دلی آئے تو اس شاعر بے بدل سے بھی ملاقات کی۔ غزل کی فرمائش پر انھوں نے غزل سنانی شروع کی۔ مگر وہ شعر سناتے چلے جا رہے ہیں اور مولانا ہنکارا ہی نہیں بھر رہے۔ یہ نقشہ دیکھ کر تاباں صاحب کا پارہ چڑھنا شروع ہو چکا۔ سو جب کتنے شعر سننے کے بعد مولانا نے مناسب لفظوں میں داد دی تو تاباں صاحب پھٹ پڑے ’’میں نے کتنی راتیں صرف کر کے اور کتنا خون جلا کر یہ شعر نکالا ہے۔ حضور والا نے یہ شعر اتنی جلدی کیسے سمجھ لیا۔ مولانا یہ شاعری ہے‘ شعر العجم نباشد۔ کہہ کے دیکھو۔ آگے جو فقرہ کہا اسے شائستگی نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

اب ایک اور واقعہ سنئے۔ سنا ہے کہ ایک موقعہ پر مولانا صلاح الدین احمد رواں تھے۔ کہہ رہے تھے کہ راجندر سنگھ بیدی کے جوہر کو میں نے پہچانا۔ افسانے کو جانچا پرکھا اور ادبی دنیا میں شایع کیا۔ اس پر بیدی صاحب تھوڑا چٹخے اور بولے کہ ’’مولانا‘‘ اگر مرغا نہیں بولے گا تو کیا صبح نہیں ہو گی‘‘۔

اصل میں ہوا یہ کہ نئے ادب کے فروغ کے ساتھ تنقید بھی نمودار ہوئی۔ مشاعرہ والا شاعر تو مشاعرے میں واہ واہ‘ سبحان اللہ۔ مکرر ارشاد ہو‘ ایسے کلمات سن کر ہی نہال ہو جاتا ہے۔ شعر نرم بھی ہو تو مضائقہ نہیں۔ ترنم زور دار ہونا چاہیے۔ داد کے ڈونگرے بے مانگے برسیں گے۔ مگر نیا شاعر کیا کرے نقاد کی طرف سے چار جملے داد کے آئیں تو قارئین کو یقین ہو گا کہ شاعری خوب اور مرغوب ہے۔ نقاد کو جلدی اہمیت کا احساس ہوا۔ ان کے نخرے بڑھتے چلے گئے۔ تب تن جلے شاعروں نے کہا کہ ہمیں مرغے کی ککڑوں کوں کی حاجت نہیں ہے۔ ہم نے ایسے فلک شگاف شعر لکھے ہیں تو کیا ہم اس کے حق میں بانگ نہیں دے سکتے۔

تو شاعروں نے مارکیٹ میں نقاد کو مہنگا دیکھ سوچا کہ خود کفیل ہو جاؤ۔ دست خود‘ دہان خود ارے ہم اگر شعر لکھ سکتے ہیں تو اس شعر کی ثنا وصفت کیوں نہیں کر سکتے۔ ہمارے شعر ہمارے بچے ہیں۔ ان کی خوبیاں جتنی ہم بیان کر سکتے ہیں وہ غیر کیسے بیان کر سکے گا۔ تعریف کی کسوٹی یہ ٹھہری کہ پہلے ہی ہلہ میں غالبؔ کو چت پٹ کرو۔ آگے جو ہو سو ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔