اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

مقتدا منصور  پير 31 اگست 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

حکومتی ترجمانوں کے دعوؤں کے مطابق وہ کراچی کو شورش، بدامنی اور لاقانونیت سے پاک کرنے کے لیے پر عزم ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی مرحلہ وار کارروائیاں جاری ہیں۔ لیکن اب تک جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے۔ وہ محض انتظامی نوعیت کا ہے، جس میں رینجرز کارروائیاں کرتے ہوئے کچھ لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ لیکن اس پورے عمل میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں کہیں نظر نہیں آ رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ترقیاتی کام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ جب کہ گرفتاریوں پر مختلف نوعیت کے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی مناسب ترقیاتی پیکیج کے بغیر شہر میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ممکن ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس جانب توجہ دینے سے کیوں گریز کیا جا رہا ہے۔

کراچی اس وقت ملک کا سب سے بڑا اور دنیا کا 5 واں بڑا شہر ہے، جس کی آبادی ایک تخمینے کے مطابق 22 ملین (2 کروڑ 20 لاکھ) کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ شہر ملک کے GDP میں 15 فیصد، جب کہ وفاقی ریونیو میں 25 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ تمام بینکوں کے مجموعی سرمایہ میں اس کا حصہ 70 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ قیام پاکستان سے ذرا قبل یہ 4 لاکھ 35 ہزار آبادی کا صاف ستھرا خوبصورت مرکنٹائل شہر تھا۔ اس کا اپنا شہری انتظامی ڈھانچہ تھا، جس کا سربراہ میئر ہوتا تھا۔ برٹش دور میں کراچی میں کئی ایسے نامور میئر آئے جنھوں نے اس شہر کو چار چاند لگا دیے۔ قیام پاکستان کے بعد وفاقی دارالحکومت بنائے جانے اور ہندوستان کے مختلف حصوں سے مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں اس کی آبادی میں تقریباً ڈھائی گنا اضافہ ہو گیا (جو 1951ء کی مردم شماری سے ظاہر ہے) چونکہ یہ شہر ایک معاشی مرکز ہے، اس لیے پورے ملک سے تلاش روزگار میں نقل مکانی کر کے آنے والوں کی وجہ سے اس کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ہوتا رہا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ہر سال آبادی میں چار لاکھ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے، جو ان گنت مسائل کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔

اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم کرنے کی خواہش اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اس شہر سیاست پر کنٹرول کے لیے رسہ کشی نے اس کی حالت ایک پسماندہ دیہات سے بھی ابتر کر دی ہے۔ گوناگوں مسائل کا شکار یہ شہر آج کسمپرسی کی عبرتناک تصویر بنا ہوا ہے۔ شہر میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش، ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ نکاسی و فراہمی آب اور بجلی کی فراہمی سمیت ان گنت شہری و انتظامی مسائل نے عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ ایوب خان کے دور میں شروع ہونے والی سرکلر ریلوے کو بند ہوئے عرصہ ہو چکا۔ سرکاری بس سروس کا تصور معدوم ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے شہر کی سڑکوں پر ٹرانسپورٹ مافیا کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح فراہمی و نکاسی آب کا نظام بھی مختلف مافیاؤں کی گرفت میں جا چکا ہے۔

پولیس مقامی نہیں، جو ہے، وہ (Politicised) ہو چکی ہے۔ اس میں اہلیت اور کارکردگی کا فقدان ہے۔ یہ جرائم کی سرپرستی کرتی ہے اور اسی لیے جرائم پیشہ افراد کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ شہر میں ہونے والے 90 فیصد اسٹریٹ کرائمز میں براہ راست ملوث ہوتی ہے، جب کہ بقیہ 10 فیصد میں بھی کہیں نہ کہیں اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ پولیس افسران اور اہلکار کراچی میں پوسٹنگ کے لیے بھاری رشوت دیتے ہیں، تا کہ شہر میں ہر طرح سے لوٹ مار کر سکیں۔ اسی لیے انھیں شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے Pro-active کارروائی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ ان کی سوچ کا محور صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے۔

البتہ شہر میں تین ادوار ایسے آئے جب یہاں ترقیاتی کام ہوئے اور ہوتے نظر آئے۔ پہلا دور قیام پاکستان کے ابتدائی دس برس تھے۔ جن کے دوران اس شہر نے ایک نئی شکل میں ابھرنا شروع کیا۔ 1951ء میں پہلی اور آخری مرتبہ شہر کا اکنامک سروے کیا گیا۔ اس کے بعد اس مشق کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے ان میں PIDC کا قیام، کراچی اور کوٹری میں صنعتی اسٹیٹس کا قیام اور آمدنی کے لحاظ سے مختلف طبقات کے لیے رہائشی بستیوں کا قیام وغیرہ شامل تھے۔ کولمبو پلان کے تحت صنعتکاری کا عمل شروع ہوا، جس میں PIDC نے نمایاں کردار ادا کیا اور کئی بڑی صنعتیں اس کی معاونت سے قائم ہوئیں۔ مہاراشٹر اور گجرات سے آنے والے سرمایہ کاروں نے بھی اس ادارے کے تعاون سے تیز رفتار صنعتکاری کی۔ یوں عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معاشی نمو کی شرح دیگر آزاد ہونے والے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ پاکستانی روپے کی قدر بھارتی روپے سے 35 فیصد زیادہ تھی۔ یہ دور 1959ء میں دارالحکومت کی اسلام آباد منتقلی تک محیط ہے۔ مگر اس دور میں ہونے والی ترقی کے اثرات 1965ء تک برقرار رہے۔

دوسرا دور بھٹو صاحب کا ہے، جس میں کراچی کو بے پناہ توجہ حاصل ہوئی۔ کئی بڑے صنعتی منصوبے اس دور میں شروع ہوئے۔ ٹرانسپورٹ سروس کی ری اسٹرکچرنگ کی گئی اور کئی بڑی شاہراہیں تعمیر ہوئیں۔ لیکن جنرل ضیا کا دور کراچی پر بدنصیبی کا دور تھا۔ ان گیارہ برسوں میں اس شہر میں ترقی تو درکنار اسے تباہ کرنے اس کی سیاسی و معاشی مرکزیت ختم کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ بی بی صاحبہ نے اپنے ادوار میں کچھ منصوبے ضرور تیار کیے مگر ان کی پہلی حکومت 20 ماہ اور دوسری 30 ماہ چل سکی۔ جس کی وجہ سے ان منصوبوں پر عمل نہیں ہو سکا۔ ان میں سے ایک لیاری ایکسپریس وے کا منصوبہ بھی تھا۔ تیسرا دور پرویز مشرف کا تھا، جنھوں نے شہر کی ترقی میں ذاتی دلچسپی لی۔ ان کے متعارف کردہ مقامی حکومتوں کے نظام کا اصل فائدہ اربن سندھ نے اٹھایا۔ نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے 8 برس کی مختصر مدت میں شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ لیکن 2010ء میں مقامی حکومتی نظام کو ایک سازش کے تحت ختم کر دیے جانے کے بعد سے یہ شہر بدترین افراتفری اور بدحالی کا شکار ہے۔

یہ طے ہے کہ اس شہر کے مسائل کا صحیح حل ایک خودمختار اور بااختیار مقامی حکومتی نظام کا قیام ہے۔ جس کے قیام سے ہر وفاقی اور صوبائی حکومت کتراتی ہے۔ کیونکہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں شہر ایمپلائمنٹ پر اپنے لوگوں کو بھرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔ اس لیے مقامی انتظام اور مقامی پولیس تعینات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) آج تک شہر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکی ہے۔

پھر عرض ہے کہ کراچی کا مسئلہ ایک بااختیار مقامی حکومت کا قیام ہے، جو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر فیصلے کرنے کی مجاز ہو۔ جو وفاق اور صوبے کی طرح اپنا ایک انتظامی ڈھانچہ رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ شہر کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لیے CSS اور PCS کی طرز پر میونسپل سروسز قائم کی جائے۔ تا کہ شہر سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو منتخب کر کے انھیں شہری انتظام کی تربیت دی جائے اور پھر مختلف شعبہ جات میں تعینات کیا جائے۔ اس طرح شہر کی معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں توازن اور بہتری لائی جا سکتی ہے۔ موجودہ اقدامات عارضی بندوبست ہیں اور اس کے نتیجے میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ جس کا طاقت کے زعم میں مبتلا حکمرانوں کو اندازہ نہیں ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر دور رس فیصلے کیے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ کل اپنے فیصلوں پر پچھتاوا کرتے ہوئے حکمرانوں کو یہ کہنا پڑے کہ ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔

دراصل پاکستانی ریاست آج ان گنت بحرانوں کا شکار ہے۔ ان بحرانوں کی شدت اور پیچیدگیوں میں وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ 68 برسوں کے دوران نظم حکمرانی (System of Governance) میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا شاخسانہ ہے، جو سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے میں خرابی بسیار کا بنیادی سبب ہے۔ آج ملک جس انتشار و افتراق کا شکار ہے، اس سے نکالنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے معاشرے میں جنم لینے والی پیچیدگیاں وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہری ہو رہی ہیں۔ اگر ایک طرف ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے انتظامی ڈھانچے کو تباہی کے دھانے تک پہنچایا، وہیں دوسری طرف کوتاہ بین اور موقع پرست سیاست دانوں نے سیاست کو بازار حسن میں بیٹھی طوائف بنا دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔