نظم حکمرانی کا بحران

مقتدا منصور  جمعرات 3 ستمبر 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ، بلکہ تصادم کی حد تک جا پہنچے ہیں۔ گزشتہ پیر کو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر شدید تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایک بار پھر1990کے عشرے والی انتقامی سیاست پر اتر آئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی الزام بھی عائد کیا کہ مسلم لیگ(ن) مذہبی شدت پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ جنھیں محفوظ راستہ مہیا کرنے کی خاطر مذہبی شدت پسندی کے خلاف کارروائی کا رخ سندھ کی سیاسی جماعتوں کی طرف موڑ دیا ہے۔

دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ ڈیڑھ برس سے مسلسل یہ الزام عائد کرتی چلی آرہی ہے کہ مذہبی شدت پسندی کے خلاف کیے جانے والے آپریشن کا رخ اس کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے سیاسی طور پرختم کر کے من پسند سیاسی سیٹ اپ لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔اس کے رہنماؤں کوگرفتار کرنے کے بعد جنگی قیدیوں کی طرح چہرے پر کپڑا ڈال کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر 90 روز کے ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کردیا جاتا ہے۔اس کا یہ بھی الزام ہے کہ اس کے سیکڑوں کارکن لاپتہ ہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کراچی میں شروع کیے جانے والے آپریشن سے قبل گورنر ہاؤس کراچی میں وزیر اعظم نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اعتماد میں لیا۔4 ستمبر2013کوایک میٹنگ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ رکھی گئی۔ جس میں لاہور اور اسلام آباد سے بھی صحافیوں کو بڑی تعداد میں لایا گیا۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے اس آپریشن کے بارے میں مختلف نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا موقف تھا کہ معاملہ چونکہ سندھ کا ہے،اس لیے صرف مقامی صحافیوں سے مشاورت کی جانی چاہیے، مگر چونکہ کراچی میں آپریشن کا فیصلہ بالاہی بالا کیا جاچکا تھا ، اس لیے تمام تجاویز اور مشوروں کو نظر انداز کردیا گیا اور کراچی میں ہونے والی ملاقاتیں محض نمائشی ثابت ہوئیں۔

غیر جانبدار صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو یہ امید تھی کہ حکومت قبائلی علاقوں سے آپریشن کا آغاز کرے گی اور پھر پنجاب میں ان کی محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کرتے ہوئے سندھ بالخصوص کراچی میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گی۔ مگر پنجاب جو اس وقت کالعدم تنظیموں اور متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں کا مرکز ہے، ریاستی ذمے داران کی نظروں سے ہنوز اوجھل ہے۔ چونکہ حکومت اور ریاستی منصوبہ سازوں کے عزائم کچھ اور ہیں۔

اس لیے انھوں نے پنجاب میں موجود شدت پسند عناصر کو نظر انداز کرتے ہوئے کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر کارروائی کا آغاز کردیا ۔پھر اس کاروائی کا رخ یکے بعد دیگرے سندھ کی دو مقبول سیاسی جماعتوں کے خلاف موڑدیاگیا۔جس نے ان شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی، جن کااظہار حالیہ دنوں میں آصف علی زرداری نے کیا ہے جب کہ امریکا کا  اسٹیٹ  ڈپارٹمنٹ بھی پاکستان میں بعض نئے شدت پسند گروہوں کے فروغ پانے پر مسلسل تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔

پاکستان کی 68برس کی تاریخ میں صوبوں کو وفاقی حکومت سے شکایات رہی ہیں۔ اس کا سبب وفاقی حکومتوں کا رویہ بتایا جاتا ہے۔ بنگالی عوام تسلسل کے ساتھ ہونے والے استحصال سے تنگ آکر تقسیم ہند کے محض 23 برس بعد علیحدہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔ سائیں جی ایم سید جنہوں نے سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرائی تھی، غدار قرار پائے جب کہ سندھ آج تک  چیرہ دستیوں کا شکار ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر اعظم کو پھانسی دی گئی۔

دوسری وزیر اعظم کو سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ ریاست کے منصوبہ ساز سندھ کے دارالحکومت اور معاشی مرکز کو ’’منی پاکستان‘‘  قرار دے کر اس پر پہلے ہی قبضہ کرچکے ہیں۔ سندھ میں یہ شکایت بھی عام ہے کہ بظاہر وزیر اعلیٰ سندھ کراچی میں ہونے والے آپریشن کے کپتان ہیں، مگر ہر بڑے اقدام کی اجازت تو کجا، انھیں اس کی اطلاع دینے تک کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی جب کہ بلوچستان1948سے ہر چند برس بعد آپریشن کی نذرکردیا جاتا ہے۔ایک وزیر فوج کے بارے میں مخالفانہ بیانات کے باوجود اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ اس کے برعکس اربن سندھ کی نمایندہ جماعت کے سربراہ پر محض ایک افسر پر تنقید کے الزام میں پورے ملک میں مقدمات قائم کردیے جاتے ہیں۔

دراصل پاکستانی ریاست آج جن بحرانوں کا شکار ہے اور جن کی شدت اور پیچیدگیوں میں وقت گذرنے کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ان کا اصل سبب نظم حکمرانی (System of Governance)کا بحران ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ جو ریاستی ڈھانچے میںخرابی بسیار کا سبب بنا ہوا ہے، وہ ریاست کے منطقی جواز کی من پسند تفہیم ہے۔ بانی پاکستان نے برطانوی ہند میں جو دستاویز تحریر کیں ان میں ایک لکھنو پیکٹ اور دوسری 14نکات تھے۔

دونوں دستاویز کا اصل لب لباب وفاقیت یعنی زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ تھا۔ اس ملک کی سیاسی و انتظامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بانی پاکستان کے ان دونوں تصورات میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ نہ ملک کو وفاقی جمہوریہ بننے دیا گیا جس میں وفاقی یونٹوں کی سیاسی، انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت کو تسلیم کیا گیا ہو نہ ہی مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو مساوی شہری حقوق دیے گئے۔ بلکہ مختلف طریقوں سے ان کے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کی راہ ہموار کی گئی۔ یوں پاکستان میں صرف قائد کے تصور ریاست ہی سے انحراف نہیں کیا گیا، بلکہ جمہوریت اور جمہوری طرز معاشرت سے بھی انکار کیا گیا۔

اس میں شک نہیں کہ کرپشن ایک ایسا ناسور ہے، جو سماج کی سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ غیر نمایندہ حکمرانی ریاست کے وجود کو اندر سے کھوکھلا کر کے اس کی قومی یکجہتی کو تباہی کے دہانے تک پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔

کرپشن پر جوابدہی کے ایک مستعد اور فعال میکنزم کے ذریعے باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن ریاست کو غیرجمہوری نظام حکمرانی سے نکالنے کے لیے طویل سیاسی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ہرمنتخب حکومت کو کرپشن کے الزام میں ختم کیا گیا۔ مگر اپنے مخصوص مفادات کی خاطر قابض ہونے والی قوتوں نے انھی کرپٹ عناصر سے ساز باز کرکے انھیں شریک اقتدار کیا۔ نتیجتاً کرپشن کے جن الزامات کے تحت کسی منتخب حکومت کا خاتمہ کیا گیا تھا، اس سے زیادہ اور بڑے پیمانے پر کرپشن ان غیر جمہوری ادوار میں شروع ہوگئی ، لیکن ان حکومتوں کا احتساب کرنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوسکی۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا مقصد نہ تو کسی بھی طور کرپشن کی وکالت کرنا ہے اور نہ ہی سیاسی حکومتوں کی نا اہلی کو جواز فراہم کرنا ہے۔ بلکہ یہ باور کرانا ہے، کہ جوابدہی کے ایک واضح میکنزم کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا۔ خواہ آسمان سے فرشتے ہی کیوں نہ بلا لیے جائیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی جماعت یا ادارہ پاک و پوتر نہیں ہوتا، بلکہ ریاستی انتظامی ڈھانچہ میں قائم جواب دہی کا مستعد اور فعال میکنزم افراد اور اداروں کو کرپشن اور بدعنوانی سے روکنے کا سبب بنتا ہے۔ اچھی حکمرانی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ شفافیت، میرٹ اور منصفانہ طرز حکمرانی کے ذریعے ریاستی اداروں سے کرپشن، بدعنوانی اور بدانتظامی پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے۔

جمہوری نظام حکمرانی کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام ریاستی اداروں کو متعین کردہ آئینی محدودات  کے اندرکام کرنے کا پابند بناتی ہے۔ کسی ادارے کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنے طے شدہ مینڈیٹ سے تجاوزکرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔