ہمارے باادب پل اور بالحاظ سڑکیں

شاہد سردار  جمعـء 4 ستمبر 2015

زندگی خود اپنی جگہ ادھوری ہے، اس لیے اکثر کام بھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کاش کہ 24 گھنٹے کا دن 48 گھنٹوں کا ہوجائے تو شاید کچھ فرق پڑ جائے۔ درحقیقت کاموں کو التوا میں ڈالنے کا سبب جہاں سستی کے عنصر کا غالب ہونا ہے وہیں بعض اوقات وہ کام اتنے اہم بھی نہیں ہوتے کہ ان کے نہ ہونے سے زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوں۔

اصل میں دیر اور سستی ہمارے رگ و پے میں سماگئی ہے۔ ہم قومی، سیاسی اور ذاتی فرائض کی عدم ادائیگی اور ٹالنے کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ ہر چیز میں تاخیر ہمارا ’’معمول‘‘ بن چکا ہے اور ہمیں اس میں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتی۔ دنیا کو دیکھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم پسماندگی کے ذمے دار خود ہی ہیں۔ آج جو قومیں ترقی یافتہ اور دنیا کی چیمپئن ہیں وہ وقت کی قدر جان کر ہی امر ہوئیں۔ لیکن ہم۔ ہاں ہم اپنی ذات کے لیے تو بہت جلد مگر قوم یا ملک کے لیے بہت تاخیر کے قائل ہی چلے آرہے ہیں۔

ایڈمنسٹریٹر اور کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے ’’جام صادق پل‘‘ کو بروقت تیار نہ کرنے پر پل کی کنٹریکٹر فرم پر ایک لاکھ روپے جرمانہ جب کہ کنسلٹنٹ فرم ای اے اور متعلقہ چیف انجینئر کو شوکاز نوٹس جاری کردیے۔ ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ کے ایم سی اب یہ نہیں کہے گی کہ وسائل نہیں ہیں۔

اسٹاف نہیں، کام نہیں ہوسکتے، جو کنٹریکٹر حکومت کے لیے بدنامی اور شہریوں کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا اس کے لیے اس شہر میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ انھوں نے کہاکہ جو کنسلٹنٹ درست کام نہیں کرے گا یا صحیح مشاورت نہیں دے گا اس پر کراچی ڈویژن میں کام کرنے پر پابندی لگادی جائے گی۔ کیوں کہ کنسلٹنٹ کا کام ہی یہ ہے کہ منصوبہ شروع ہونے سے قبل تمام مسائل کی نشاندہی کرے اور ان کے حل کی تجویز دے۔

جام صادق پل کراچی کا انتہائی اہم ترین پل ہے جس سے ہمارے ملک کا سب سے بڑا صنعتی زون کورنگی انڈسٹریل ایریا منسلک ہے، یہ کم و بیش چھ ماہ سے ٹریفک کے لیے بند پڑا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر کورنگی روڈ پر زبردست ٹریفک جام ہر وقت ملتا ہے۔ پلان کے تحت اسے تین ماہ کی شب و روز تعمیر سے مکمل کیا جانا تھا، لیکن آج چھ ماہ ہوگئے یہ پل تعمیر نہیں ہوسکا ہے، جس کی بنا پر روزانہ ہزاروں خواتین و حضرات کو اپنے اپنے روزگار پر پہنچنے میں غیر معمولی تاخیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جام صادق پل اپنی تعمیر سے اب تک متعدد بار شگاف پڑنے سے کھلتا بند ہوتا چلا آرہا ہے۔

دراصل اس پل پر دن رات ہیوی ٹرالر اور مال بردار ٹرکوں کی آمد و رفت رہتی ہے جس کی وجہ سے یہ پل اپنی مضبوطی کھوچکا ہے اور سرکاری کنٹریکٹر سرکاری کام کو سرکاری طور پر ہی بجالاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ پل ٹرالروں اور ٹرکوں کے لیے پل صراط بن کے آخر ایک روز بیٹھ ہی گیا۔

ایک جام صادق پل پر ہی کیا موقوف کراچی کے بیشتر پل اور اکثر سڑکیں اپنے ٹھیکے داروں اور سرکاری افسران کے احترام میں جگہ جگہ سے بیٹھتی چلی آرہی ہیں اور اس لحاظ سے ہم کراچی کے پلوں اور سڑکوں کو خاصا با ادب اور با لحاظ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ پل اگر درست حالت میں نہ ہوں اور سڑکیں پختہ اور رواں نہ ہوں تو ٹریفک کے متعدد مسائل کو نہ صرف جنم دیتی ہیں بلکہ انسانی جانوں کی ارزانی کا سبب بن کر بندوں کو فوراً اپنے مالک حقیقی سے ملادیتی ہیں۔

جیسے کسی شہر کو مسجدوں کا شہر کہا جاتا ہے، کسی کو عروس البلاد یا روشنیوں کا شہر کہا جاتا رہا ہے، بالکل اسی طرح ہمارے شہر کو آپ پلوں اور سڑکوں میں سوراخ والا شہر کہہ سکتے ہیں اور اگر کوئی ذی ہوش سنجیدگی سے سروے کرے تو مجموعی طور پر سڑکوں اور پلوں میں سوراخوں کی تعداد اتنی زیادہ دکھائی دے گی کہ آپ کراچی کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرانے پر اصرار ضرور کریںگے۔ ان سوراخوں میں آپ ان سوراخوں کو بھی شامل کرلیں جن سے ہمیں بار بار ڈسا جارہا ہے تو ان کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔

کہتے ہیں کہ کسی ملک کی ٹریفک، اس کی سڑکیں، اس کے پل، اس کی ترقی، اخلاق اور تشخص کا ایکسرے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سڑکوں، پلوں کی ٹوٹ پھوٹ، شگاف، سوراخ یا خستہ حالی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں لیکن ان میں سب سے میجر سب سے بڑی وجہ قومی جذبے اور لگن کا عدم فقدان اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔کسی بھی شہر کی مصروف ترین سڑک جسے حرف عام میں مین روڈ کہا جاتا ہے۔

اس کی تعمیر میں سستی، کوتاہی، غفلت اور اپنے فرض سے پہلوتہی یہی سب چیزیں اسے کاغذی بناکر  رکھ دیتی ہیں جو شہریوں کے لیے مصیبت، پریشانی اور حکومتوں کے لیے بدنامی کا سبب بن جاتی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شہریوں کو سہولت اور آسانیاں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ سڑکوں پر پڑے گڑھے، شہریوں کے لیے بے حد خطرناک ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے جرائم، موٹر سائیکل کے حادثات، ٹریفک جام اور گاڑیوں کا نقصان ہوتا ہے۔ شہر کی تمام بڑی سڑکوں کی اسٹریٹ لائٹس کو فعال رکھنا بھی شہری حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے اور اس سے بھی حادثات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے شہر کراچی کے متعلقہ افسران ماضی میں بہت تجربے کار اور محنتی رہے ہیں اور انھوں نے اس شہر کو بنایا، سنوارا اور ترقی دی، لیکن اب آئے دن مخصوص پلوں کو عام ٹریفک کے لیے بند کردینا اور مہینوں اسے بند رکھنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اب متعلقہ اداروں اور اس کے ذمے داروں  کو اپنے فرض سے کوئی سروکار نہیں رہا۔

حالانکہ مقامی یا صوبائی حکومتیں فنڈ دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتی لیکن چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم دراصل ہر جگہ اس قدر گل سڑچکا ہے کہ اب اس میں سے تعفن اٹھنے لگا ہے اور یار لوگ ہیں کہ نوٹوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہوئے اسے اپنی ناکوں پر رکھ کر گزر جاتے ہیں۔ اس ادا، اس امر سے بھی ہمارے قومی مزاج کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔

دنیا بھر میں پلوں، فلائی اوورز یا سڑکوں کی تعمیر میں جدید ٹیکنالوجی اور میٹریل استعمال کیا جارہا ہے اور ہمارے ہاں ازکار رفتہ اوزاروں اور ناقص میٹریل سے یہ سب اہم چیزیں تعمیر یا تشکیل دی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کٹریکٹر اور کنسلٹنٹ کا روزگار جو ہوا۔ اور مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ایسے حساس پروجیکٹ کو زیادہ سے زیادہ لٹکانے کی پالیسی سب سے زیادہ روح فرسا ثابت ہوتی ہے، لیکن ارباب اختیار کے بروقت ایکشن لینے کے باوجود بھی وہی رفتار بے ڈھنگی والی مثال اس صورت حال پر صادق آتی ہے۔

نارتھ کراچی میں شفیق موڑ پر ٹریفک کی بھرمار ہوتی ہے، آئے دن اخبارات میں لوگ اس حوالے سے اپنے مراسات میں متعلقہ اداروں کے کرتا دھرتاؤں کی توجہ اس طرف مبذول کراتے ہیں لیکن یہ سب کا سب بھینس کی پیٹھ پر پانی ثابت ہوتا ہے۔ شفیق موڑ پر بھاری ٹریفک جام کے باعث شہریوں کو روزانہ مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شاید اس پریشانی کے پیش نظر بلدیاتی اداروں نے برج کی ایک سائیڈ کو تقریباً تین ماہ قبل وسیع کرنے کا کام شروع کیا تھا لیکن سرکاری اداروں کی خرمستیوں، کام سے نفرت، مال سے محبت کے سلوگن کی وجہ سے یہ منصوبہ مسلسل تعمیراتی تاخیر کا شکار چلا آرہاہے۔

اس بیس فٹ کے ٹکڑے کو کھود کر چھوڑدیا گیا ہے اور تادم تحریر اس کے پلرز تک نہیں بھرے جاسکے ہیں اور اس تعمیراتی کام کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں، اس برج سے گزرنے میں عوام کو شدید مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے لیکن اس طرف توجہ نہیں دی جارہی، ان سطور کے ذریعے ہماری کمشنر و ایڈمنسٹریٹر کراچی سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ پنی ترجیحات میں شفیق موڑ برج کو بھی شامل کرلیں تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

اس ضمن میں کورنگی کراسنگ فلائی اوور کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ یہ منصوبہ برسوں سے التوا اور کاغذوں میں پڑا ہوا تھا لیکن ہمارے ایڈمنسٹریٹر کراچی نے اس علاقے کے مکینوں کی دیرینہ تکلیف کا ازالہ کرتے ہوئے 25 کروڑ لاگت سے فلائی اوور کی منظوری پر دستخط کردیے ہیں اور یہ منصوبہ ماہ رواں میں شروع ہورہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔