شاہی طعام ، چکی کا انتقام (پہلا حصہ)

تشنہ بریلوی  جمعـء 4 ستمبر 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

اس نے تین عشق کیے اورتینوں میں ناکام رہا۔ مگر اس عرصے میں اس کی ایک خاص ایجاد نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور اسے بہت دولت مند بنا دیا۔ البتہ محبوباؤں کی ’’بے وفائی‘‘ دل کو کچوکے لگاتی رہی۔ پھر اچانک اس کے انتقال کی خبر اخبار میں چھپ گئی۔

اس سرخی کے ساتھ Le Marchand de la mort est mort یعنی ’’موت کا سوداگر مر گیا‘‘ اس غلط خبر نے الفریڈ نوبیل پر واضح کر دیا کہ اس کی ایجاد DYNAMITE چٹانوں کو اُڑانے کے ساتھ بڑے پیمانے پر انسانوں کو اڑانے کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے، لہٰذا اس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ نوبیل انعامات کے لیے وقف کر کے دل کا بوجھ ہلکا کیا۔وہ دبلی پتلی پستہ قد عورت بھی ایک عجوبہ تھی۔ وہ پانچ ملکوں کی شہری رہی تھی۔ سلطنت ِعثمانیہ، بلغاریہ، سربیہ، یوگوسلاویہ اور ہندوستان۔ اس کا نام بے حد مشکل تھا۔ اس نے 1979 میںامن کا نوبیل انعام جیتا۔ لہذا ایک شاہی دسترخوان اس کے اعزاز میں سجانے کا اہتمام ہوا۔ ایسی اعلیٰ ضیافت تو سویڈن اور ناروے کے بادشاہوں کی طرف سے ایک بہت خوبصورت بینکوئیٹ ہال میں دی جاتی ہے۔

شہزادے اور شہزادیاں بھی موجود۔ سمفنی اور سوناتا کی دلکش دھنوں میںزرق برق لباس پہنے معزز مہمان وسیع ڈنرٹیبل پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔ طعام کا سلسلہ Aperitif سے شروع ہوتا ہے تاکہ مہمانوں کی بھوک چمک اُٹھے پھر Entree کی ہلکی ڈشیں اس کے بعد Main Course کے متعدد کورس۔ کاویار، فش، کولڈ کٹس، ٹرکی روسٹ، سرلیاں اسٹیک پاتے دافواگرا Hors d`oeuvre کی اضافی لذتیں الگ۔ آخر میں Dessert یعنی میٹھوں کا سلسلہ۔ اکلیئر شو کولا پمکین پائی، شاندار کیک ،پڈنگ وغیرہ۔ ہر دورکے ساتھ شرابوں کا دور۔ ہلکی شراب تیز شراب،سفید و سرخ شراب،شمپین، کونیاک، برگندی، کاک ٹیل دوآتشہ، شیری، مارٹینی وغیرہ۔لیکن یہ شاہی دسترخوان نہ بچھا اور تمام مہمان مایوس ہوئے۔ مدر ٹریسا نے نوبیل کمیٹی کو خط لکھا کہ وہ اس دعوت میں نہیں آئے گی‘ دعوت ختم کی جائے اور ’’اگر ممکن ہو‘‘ تو دعوت کی رقم بھی اس کے حوالے کر دی جائے تاکہ وہ کلکتہ کے بھوکے اور بدحال مریضوں پر خرچ کر سکے۔

یقینا ایسا ’’ممکن‘‘ تھا۔ شاہی ڈنر منسوخ، انعام کی رقم 12 لاکھ ڈالر اور شاہی ضیافت کا خرچ 2 لاکھ ڈالر یعنی کل 14 لاکھ ڈالر اس کے سپرد (آج، کم از کم ایک کروڑ ڈالر یعنی ایک ارب روپیہ) اب یہاں ہمارے دل سے ہوک اٹھتی ہے اور یہ دعا نکلتی ہے کہ ہمارا کوئی سربراہ کوئی لیڈر اپنے اعزاز میں سجنے والے شاہی دسترخوان (Banquet) کو یہ کہہ کر کینسل کرا دے کہ اس ضیافت کی ساری رقم ’تھر‘ کے بھوکوں، سیلاب زدگان وغیرہ … وطن کے صرف ایک سیاسی رہنما نے اس جرأت مندانہ انسان دوستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ قاضی حسین احمد جب 1987 میں پہلی بار جماعتِ اسلامی کے امیر منتخب ہوئے‘ تو ایک’’ بڑے کھانے‘‘ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا لیکن اُسی روز فیصل کالونی کے باسیوں پر بھی کوئی آفت ٹوٹی تھی۔ قاضی صاحب نے حکم دیا ’’بڑے کھانے کا ایک نوالہ بھی نہیں توڑا جائے گا اور ساری دیگیں روٹیاں اور میٹھا فیصل کالونی والوں کی نذر۔‘‘ حکیم سعید اور پروفیسر غفور بھی سادہ کھانا پسند کرتے تھے۔ لیکن اب بڑے لوگوں کو کیا پروا کہ تھر، قصور، بلوچستان وغیرہ میں چھوٹے لوگ کن اذیتوںسے گذر رہے ہیں اور دانے دانے کو محتاج ہیں۔

یہاں چند اور شاہی دستر خوانوں کا ذکر ہو جائے۔

ساٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ کراچی کی میکلوڈ روڈ (اب چندریگر روڈ) صحافت کا مرکز تھی۔ بہت سے بے گھر پھکڑ صحافی رات بھی یہیں گذارتے تھے۔ دفتر میں ہی پڑے رہے یا پھر روڈ کے درمیان چوڑی پٹی پر دری بچھا کر سو جاتے اور بہت خوش رہتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک نوجوان صحافی بہت دیر سے آیا اور پٹی پر لیٹ گیا۔ اس کے صحافی یار نے پوچھا ’’کچھ دال روٹی کھائی یا بھوکا ہے‘‘۔
’’ہاں کھالی‘‘ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

’’کہاں کھائی؟‘‘
’’بس کھالی!‘‘

نوجوان صحافی اپنے دوست کو کیا بتاتا کہ وہ تو شہنشاہِ ایران کے ساتھ’’ دال روٹی‘‘ کھا کے آ رہا ہے۔ جہاں وہ اپنے اخبار کی طرف سے خبر’’پکڑنے‘‘ کے لیے بھیجا گیا تھا اور خیر سے سرکاری دستر خوان اور شاہی نعمتوں تک بھی پہنچ گیا۔

حیدر آباد دکن کے نظام‘ اپنے وقت میں بڑا رعب ودبدبہ رکھتے تھے۔ انگریزوں کے منظور ِنظر برٹش راج کی سب سے بڑی ریاست کے تاجدار۔ وہ دنیا کی امیر ترین شخصیت بھی گردانے جاتے تھے۔ صحافی ضیاء الحسن موسوی کے والد وہاں ایک اچھے عہدے پر تھے۔ ایک بار انھیں کنگ کوٹھی (نظام کی رہائش گاہ ) کی طرف سے ایک شاہی ضیافت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ وہ نو عمر ضیاء کو بھی ساتھ لے گئے۔ ضیافت ایک بڑے ہال میں منعقد ہونا تھی، لیکن پتہ چلا کہ حضور نظام میر عثمان علی خاں وہاں بنفسِ نفیس موجود نہیں ہوں گے بلکہ وہ اپنے غرفۂ خاص میں شاہی طعام نوش فرمائیں گے۔

ضیاء الحسن نے ضد کی کہ میں بھی حضور نظام یعنی بادشاہ سلامت کے ساتھ کھانا کھاؤں گا۔ ضیاء کے والد نظام تک پہنچ رکھتے تھے۔ وہ اپنے 14 سالہ بیٹے کو کمر پٹہ باندھ کر اور سر پر حیدر آبادی ٹوپی رکھ کر حضور نظام کے پاس چھوڑ آئے اور خود ضیافت والے ہال میں چلے گئے۔ ضیاء بہت خوش کہ لذتوں اور خوشبوؤں سے بھرپور شاہی خاصا حلق سے اترے گا اور زندگی بھر یاد رہے گا۔ مگر جب حضور نظام کا خاصا آیا تو ضیا الحسن غرقِ حیرت۔ ایک سادہ ٹرے پر دوپیالے۔ ایک میں شوربہ اور دوسرے میں سبزی اور چند چپاتیاں۔ جب کہ اُدھر ڈائننگ ہال میں مہمان سترنگے ڈنر میں پلاؤ‘ زردے‘ کباب‘ مرغِ مسلّم قورمے‘ بگھارے بیگن‘ آئس کریم اور قلفی وغیرہ سے فیض یاب ہو رہے تھے۔تیسرے شاہی طعام کا ذکر کچھ اس طرح ہے۔

1857 کا سال ہم سب کے دلوں پر نقش ہے۔ اسے ’’پہلی جنگِ آزادی‘‘ کہیں یاغدر۔ سپاہیوں کی حماقت اور قیادت کے فقدان کے ساتھ ساتھ اپنوں کی غداری بھی انگریزوں کے بہت کام آئی اور فتح شکست میں بدل گئی۔ دو دمانِ تیموریہ کا آخری حکمراں نشانِ عبرت بن گیا۔ 82 سالہ فرمانرو ابہادر شاہ ظفر نے غلط فیصلہ کرتے ہوئے مقبرۂ ہمایوں میں پناہ لی اور گرفتار ہوا۔ پھر الہیٰ بخش نے مسکراتے ہوئے نہایت ادب کے ساتھ مغل بادشاہ سے کہا ’’کمپنی بہادر کی طرف سے جنرل ھڈسن صاحب نے عالم پناہ کے لیے خاصا بھجوایا ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ڈھکے ہوئے تین خوان شہنشاہ کے حضور میں پیش کیے گئے۔ خوان پوش اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ مکار الٰہی بخش کی زہریلی ہنسی اور جنرل ھڈسن کا نام ہی سب کو بتا رہا تھا۔ تاریخ کی دیوی سانس روکے دیکھ رہی تھی۔

ایسا خاصا بھی تیری قسمت میں لکھا تھا ظفرؔ
رسم ہے تیمور کی لٹتے ہیں گھر کٹتے ہیں سر
(تشنہؔ)
(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔