رفیق باہر والا

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 5 ستمبر 2015

لوگ اسے برا بھلا کہنا اسے ذلیل کرنا اس پر لعنت ملامت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں وہ لوگوں کی جھاڑ، برا بھلا اورگالیاں سننے کا عادی مجرم بن کے رہ گیا ہے، جو رات لوگوں کی لعنت ملامت اور جھا ڑ سننے سے پاک گذرے تو اسے اس رات نیند ہی نہیں آتی ہے۔ اسے وہ اجڑی بیوہ کی طرح لگتی ہے ایسا لگتا ہے کہ کوئی دوسری رات بھٹک کر اس کی زندگی میں آگئی ہے اس رات وہ سوتا بھی مشکل ہی سے ہے باوجود اس کے کہ وہ بھاگ بھاگ کر لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔

ان کے پیٹ کی جلتی آگ بجھاتا ہے۔ اس پیٹ کو بھرنے کی کوشش کرتا ہے جو کبھی بھرنے والا نہیں ہے لوگوں کے پیٹ خالی ہوں تب بھی وہ گالیاں سنتا ہے اور اگر وقتی طور پر بھر بھی جائیں تب بھی گالیاں ہی سنتا ہے اس کانام رفیق باہر والا ہے ۔ وہ ایک مرغی فرائی کی دکان پر باہر والے کا کام کرتا ہے۔

سب اسے اسی دکان پر لگ بھگ 30 سال سے یہ ہی کام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں وہ اس ملک میں پیدا ہی گالیاں سننے کو ہوا ہے کیونکہ وہ غریب ہے کمزور ہے اور باقی سب اس سے زیادہ امیر اور طاقتور ہیں۔ اس لیے ان پر یہ فرض ہے کہ وہ جب بھی اس ہوٹل پر کھانا کھائیں تو اسے گالیاں دیں برا بھلا کہیں لعنت ملامت کریں کھانا وقت پر لائے تب بھی اور ذرا سی بھی دیر ہوجائے تب بھی ۔

اگر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان پر اپنی ایک گہری سازشی نظر دوڑائیں توہمیں پورے ملک میں ایک عجیب وغریب تماشا دیکھنے کو نصیب ہوگا، ہر شخص اپنے سے سماجی لحاظ سے چھوٹے شخص کی بے عزتی کرنے اسے پھٹکارنے اسے گالیاں دینے اس کے حقوق غصب کرنے کو اپنا فرض اور عین عبادت سمجھے بیٹھا ہوا ہے۔

یہ تماشا اوپر سے نیچے تک جوں کا توں ہوتا آرہا ہے سب کسی نہ کسی اپنے سے زیادہ طاقتور اور بااختیار کے ہاتھوں ذلیل وخوار اور پریشان ہورہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے سے کمزور اور بے اختیار کو ذلیل و خوار اور پریشان کررہے ہیں اس معاملے میں سب یکساں ہیں اوپر سے نیچے تک سب کے سب رفیق باہر والے ہیں ۔کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی انھیں برا بھلا کہہ رہا ہے گالیاں بھی دے رہا ہے اور سب چپ چاپ ہنس ہنس کر اسے داد بھری نگاہوں سے گھور رہے ہیں۔لگتا ہے سب گالیاں ہی سننے کو پیدا ہوئے ہیں۔ یاد رہے ہم جو پاتے ہیں وہ ہی آگے دیتے ہیں۔

آئیں! ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کے سماجی ڈھانچے کی بنیادیں کس پر دھری ہوتی ہیں اور انھوں نے کن اصولوں کی سیڑھی پر چڑھ کر ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کی ہیں SDSN کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دنیامیں 10 ایسے ممالک ہیں جہاں کے لوگ انتہائی خوش وخرم زندگی گذار رہے ہیں۔

اخلاقی اقدار ان ممالک میں قابل رشک ہیں ان ممالک کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل ہے۔ موسم کے لحاظ سے لوگ خوش نصیب ہیں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان ممالک میں لوگ آزادی سے سانس لیتے ہیں ان ممالک کی حکومتیں اپنے شہریوں کو زندگی کے تمام فوائد مہیا کرنے کی پابند ہیں یہ ممالک (1 )سوئٹزرلینڈ (2) آئس لینڈ (3) ڈنمارک (4) ناروے (5) کینیڈا (6)فن لینڈ (7 ) ہالینڈ (8) سوئیڈن (9) نیوزی لینڈ (10) آسٹریلیا ہیں۔ ان تمام ممالک کے سماجی ڈھانچوں کی بنیادی انسانیت،اخلاقیات اور انسان دوستی پر کھڑی ہیں ان ممالک میں آپ کو ڈھونڈنے سے کوئی رفیق باہر والا نہیں ملتا ہے۔

ان کے معاشرے کبھی بھی کسی انسان کو رفیق باہر والا نہیں بننے دیتے ہیں، ان ممالک کے معاشرے اپنے شہریوں کو بیمار نہیں بناتے ہیں بلکہ انھیں تندرست ،خوشحال اور خوش وخرم بناتے ہیں جہاں سب کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں جہاں سب ایک دوسرے کا خیال اورعزت کرتے ہیں اگر آپ تاریخ کے کوڑا دان میں جھانکیں توآپ کو خود یہ پتہ چل جائے گا کہ ماضی بعید میں تمام عالی شان اور عظیم سلطنتوں کا انہدام اور زمین بوس ہونے کی وجوہات میں اخلاقی برائیاں ہی تھیں ۔

جب اخلاقی برائیوں نے ان کے سماج کو اپنے شکنجے میں جکڑلیا تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ تمام عظیم سلطنتیں خاک میں مل گئیں، دوسری طرف اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے جب یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں، ہم زندہ قوم تو دور کی بات ہم تو تندرست قوم بھی کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔ ہمارا سماج ایسا سماج ہے جہاں ہر شخص بیمار ہے جہاں سب کے سب مریض ہیں جو مکمل اخلاقی دیوالیے ہوچکے ہیں۔

ایسا سماج جہاں چاروں طرف دیوالیوں کے غول کے غول ہیں جہاں حکمرانوں سے لے کر سیاست دانوں تک سب اس قدر بھوکے ہیں کہ ان کی بھوک دیکھ کر دیکھنے والوں کو الٹی ہوجائے ان ہی کے لیے رابندر ناتھ ٹیگو ر نے گیتا نجلی میں لکھا تھا ’’اے قیدی مجھے بتا وہ کون تھا جس نے تجھے پابند کردیا وہ میرا مالک تھا۔

قیدی نے جواب دیا میرا خیال تھا کہ میں دولت وقوت میں ہر شخص سے بڑھ سکتا ہوں میں نے خزانے میں وہ دولت جمع کرکے رکھ لی جو مجھے اپنے بادشاہ کو ادا کرنی تھی، جب نیند غالب ہوئی تو میں اپنے مالک کے بستر پر لیٹ گیا جب میں جاگا تو دیکھا تو اپنے ہی خزانے میں محبوس ہوں ۔ اے قیدی مجھے بتا وہ کون تھا جس نے یہ نہ ٹوٹنے والی مستحکم زنجیر تیار کی۔

قید ی نے جواب دیا وہ میں ہی ہوں جس نے اس زنجیرکو نہایت احتیاط سے تیارکیا۔ میرا خیال تھا کہ ناقابل فتح قوت ساری دنیا کو مقید کرلے گی اورصرف مجھ ہی کو غیر منقطع حالت آزادی میں رکھے گی ۔ اس بنا پر رات دن کی محنت اور سخت آگ اور ظالمانہ شدید ضربات کی مدد سے میں نے زنجیر تیار کی، جب آخرکار کام ختم ہوگیا اورکڑیاں اچھی طرح مضبوط بن گئیں تو میں نے دیکھا کہ وہ زنجیر مجھ ہی کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔‘‘

مزے کی بات یہ ہے کہ قوم کا علاج و ہ سیاست دان کرنے چلے ہیں جنہیں خود علا ج کی ضرورت ہے جنہیں خود رہائی کی ضرورت ہے ،ان کے بیانات پڑھ کر عقل سے پیدل آدمی بھی اخبار زمین پر زور سے پٹخ کر اسے اپنے پاؤں تلے روند دیتا ہے ۔

اگر ہمیں رفیق باہر والا بنانے والی فیکٹری کو بندکرنا ہے اور اپنے آپ کو مستقبل میں ان دس ممالک میں شامل کرنا ہے، تو پھر ہمیں اپنے ملک کو ایک بڑے اسپتال کا درجہ دے دینا ہوگا، جہاں حکمرانوں، سیاست دانوں ، بیوروکریٹس سمیت تمام مریضوں کا مکمل علا ج کرنا ہوگا اور ان کے جسم میں اخلاقیات کے انجکشن بار بار لگانا ہونگے اور جب سب صحت مند ہوجائیں گے تو ہی ملک ترقی اور خوشحالی کی جانب اپناسفر شروع کر ے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔